خبرونظر
پرواز رحمانی
انتخابی ماحول میں
ملک میں انتخابات کا خمار زوروں پر ہے اور بڑھتا ہی جارہا ہے۔ لوک سبھا کے الیکشن میں تقریباً آٹھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ چار پانچ ریاستوں کے انتخاب چار پانچ ماہ میں ہوجائیں گے۔ گزشتہ دس سال سے تو الیکشن پر این ڈی اے کی اجارہ داری تھی، مقابلہ پر کوئی پارٹی نہیں تھی، بی جے پی، کانگریس کو ملک سے ختم کردینے کی بات کرتی تھی۔ مگر اب اپوزیشن پارٹیوں نے ایک مضبوط اتحاد قائم کرلیا ہے۔ اس اتحاد کا نام ہے ’انڈیا‘۔ یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوزیو الائنس۔ اس اتحاد اور اس کے نام سے بی جے پی کے ہاتھ پیر ڈھیلے ہوگئے ہیں۔ اس نے عملاً اس کا نام بدل دیا ہے۔ اب پارٹی اور سرکاری کارندے انڈیا کی جگہ بھارت استعمال کرتے ہیں اور انڈیا نام باقاعدہ ہٹا دینا چاہتے ہیں۔ صرف بھارت چاہتے ہیں مگر اپوزیشن انڈیا پر قائم ہے۔ ویسے لفظ بھارت کے مقابلے انڈیا میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔ انتخابی ماحول میں نئے نئے مسائل اٹھائے جارہے ہیں۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اسٹالن کے بیٹے نے حال ہی میں ایک بیان سناتن دھرم کے خلاف جاری کیا ہے۔ وہ ریاست میں وزیر بھی ہیں۔ سناتن کے بارے میں انہوں نے کہا یہ ایک بیماری ہے، بہت خطرناک بیماری۔ اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ اس بیان پر طوفان آگیا۔ اجودھیا کے پرم ہنس سادھو نے اعلان کیا کہ جو شخص اودے ندھی اسٹالن کی زبان کاٹ کر لائے گا اسے میں دس کروڑ روپے دوں گا‘‘۔ کچھ لوگوں نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے ہیں۔ اس سادھو نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی تیار نہیں ہوا تو ’’میں خود تلوار لے کر اس مشن پر جاوں گا‘‘ لیکن جو لوگ اس بیان پر غم و غصہ ظاہر کر رہے ہیں ان سے کہیں زیادہ لوگ اس پر خوشی اور جوش ظاہر کر رہے ہیں۔
سنگھ کیوں پریشان ہے
اسی دوران آر ایس ایس لیڈر موہن بھاگوت نے ایک اور شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلتوں اور محروم طبقات پر ’’ہم‘‘ لوگوں نے بہت مظالم ڈھائے ہیں۔ کئی ہزار سال سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں انہیں ریزرویشن کی جو سہولت دی گئی ہے اسے مزید دو سو سال تک جاری رکھا جائے۔ حالاں کہ وہ یہی بھاگوت تھے جنہوں نے چند سال قبل ریزرویشن پر نظر ثانی کی بات کہی تھی اور جس پر بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ ہنگامہ تازہ بیان پر بھی ہورہا ہے مگر اتنا نہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے ہو رہا ہے جو ریزرویشن کے خلاف ہیں اور محروموں کو محروم ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ زیادہ شدت سے بھاگوت کے بیان کی مخالفت اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ لوگ بھاگوت کی بات کا مطلب خوب جانتے ہیں۔ ان کی کسی بات میں ٹکاو نہیں ہوتا۔ وہ کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ۔ مبصرین اس بیان کو انتخابی بیان قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ندھی کے بیان سے دلتوں اور محرموں کے اندر جو جوش پیدا ہو ہے اسے آر ایس ایس کی طرف موڑنے کا یہی طریقہ ہے۔ الیکشن ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ ویسے بہت سے غیر جانب دار شہریوں کے اندر بھی ندھی کے بیان نے گفتگو کا ایک موضوع پیدا کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سناتن دھرم ہندو دھرم ہی ہے جس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس کا نہ کوئی ایک معبود ہے، نہ کوئی ایک کتاب ہے، نہ کوئی نیشن ہے۔ یہ تبدیلیاں بھی برہمنوں کے ذریعے کی گئی ہیں۔ بہرحال سناتن ایک مضبوط دھرم ہے۔ اس کے خلاف بدگوئی مناسب نہیں۔ کسی بھی دھرم کے خلاف کچھ بولنا اچھی بات نہیں۔ اسلام کے خلاف بھی کچھ بد بخت زبان درازی کرتے ہیں۔ اس پر کچھ مسلمان طیش میں آجاتے ہیں لیکن علما اور دانشور انہیں روکتے ہیں۔ حضرت محمدؐ نے اس طرح کے ردعمل سے منع فرمایا ہے۔
غیر ملکوں کے سہارے
انتخابی ماحول میں یہ گرمی’’انڈیا‘‘ اتحاد کی وجہ سے آئی ہے۔ چند ماہ قبل پرائم منسٹر کے مقابلے پر کوئی نہیں تھا۔ یہ جملہ عام تھا کہ مودی کے بعد کون؟ مگر اب مخالف اتحاد قائم ہوتے ہی اس پروپگنڈے کی ہوا اڑگئی۔ حکم راں پارٹی کو سب سے زیادہ پریشانی راہل گاندھی سے تھی مگر اب ’انڈیا‘ کے نام نے اسے زیادہ بے چین کر دیا ہے۔ ’’انڈیا‘‘ کا نام اس کے لیے بجلی کا کرنٹ ہے۔ نام بدلوانے کے لیے اس کے لوگ سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں بلکہ کچھ لوگ تو انڈیا کا نام انڈیا ہی ہٹا دینا چاہتے ہیں۔ موہن بھاگوت نے بھی کہہ دیا ہے کہ بھارت کا نام بھارت ہی ہونا چاہیے۔ حالانکہ اپوزیشن نے ملک کا نام نہیں بدلا۔ اس کے دو نام پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ دستور ہند میں بھی اس کے یہی نام ہیں ’’انڈیا اور بھارت‘‘ دستور کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’انڈیا دٹ از بھارت‘‘ مگر اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا یہ نام منتخب کرکے حکمراں پارٹی کو اسی کے انداز میں پٹخنی دہے جس سے وہ لوگ تلملا گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنگلورو کی میٹنگ کا تیر نشانے پر لگا۔ بی جے پی گھبرائی ہوئی اس لیے ہے کہ معاملہ ووٹوں کا ہے، اس کے پاس کوئی پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے پریشان ہے۔ اب وہ سمجھ رہی ہے کہ رہے سہے ووٹ انڈیا لے جائے گا۔ میڈیا نے مودی کو بہت چڑھا دیا تھا۔ انہیں کے چہرے پر انتخابات جیتے جاتے تھے۔ مگر پچھلے دنوں موہن بھاگوت نے بھی کہہ دیا کہ مودی کے چہرے میں اب کشش نہیں رہی۔ مقامی لیڈروں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ مگر مودی غیر ملکی لیڈروں کے سہارے آگے رہنا چاہتے ہیں۔ اسی یوم آزادی (15؍اگست) کو لال قلعہ کی فصیل سے انہوں نے کہا تھا آئندہ سال بھی یہاں وہی آئیں گے اور ترنگا لہرائیں گے۔ لیکن حالات تو بالکل مخالف ہیں۔ کیا جی-20 کے لیڈر یہ حالات بدل دیں گے؟