خبرونظر
پرواز رحمانی
کانگریس کے ایک لیڈر ہیں
کانگریس کے ایک لیڈر ہیں منی شنکر ایئر، بہت صاف گو بلکہ منہ پھٹ۔ جو دل میں آتا ہے صاف صاف بول دیتے ہیں۔ ابھی 24؍ اگست کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کانگریس کے سب سے ناکارہ لیڈروں میں پی وی نرسمہا راو تھے۔ وہ کانگریس کے وزیر اعظم نہیں عملاً بی جے پی کے وزیر اعظم تھے۔ جب تک رہے، سارے کام بی جے پی کے کرتے رہے۔ اپنے دور کے وزیر اعظموں میں وہ صرف دو کے قائل ہیں، ایک راجیو گاندھی اور دوسرے ڈاکٹر من موہن سنگھ۔ اندرا گاندھی ان کے سیاسی دور سے پہلے کی وزیر اعظم تھیں۔ موجودہ وزیر اعظم کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ نرسمہا راو کے بارے میں ایئر صاحب نے بڑی حد تک درست کہا ہے۔ وہ کانگریس کے روایتی وزیر اعظم نہیں تھے۔ وہی فیصلے کرتے تھے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کو پسند تھے۔ ایک بار اردو ادیبوں اور شاعروں کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اردو کے مسائل پر ان سے گفتگو کرنے ان کے پاس گیا۔ نرسمہا راو صوفے پر نیم دراز لیٹے ہوئے تھے۔ کمرے میں وفد کے داخل ہونے کے بعد بھی لیٹے رہے۔ وفد میں اردو کے مسلم و غیر مسلم بڑے دانشور شامل تھے۔ وزیر اعظم نے لیٹے لیٹے ہی ان سے بات کی۔ جوابات بے دلی سے دیے۔ 5؍اگست 1993ء کو لال قلعے کی فصیل سے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ بابری مسجد دوبارہ بنائی جائے گی لیکن اس کے بعد انہوں نے بابری مسجد کا کبھی نام بھی نہیں لیا۔ منی شنکر ایئر کو راجیو گاندھی سے بھی شکایت ہے کہ اجودھیا میں مندر کے شیلا نیاس کی اجازت دے کر انہوں نے اچھا نہیں کیا تھا۔ ان کے مشیروں نے انہیں غلط مشورہ دیا تھا۔
ادھر ادھر نہ بھٹکا جائے
2014ء کے ابتدائی دنوں میں جبکہ عام انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا اور گجرات کے وزیر اعلیٰ کا ڈنکا بجایا جا رہا تھا تو ان دنوں کانگریس کا کوئی بڑ اجلاس ہونے والا تھا۔ منی شنکر ایئر پریس رپورٹروں سے بات چیت کر رہے تھے۔ کسی نے پوچھا ’’کیا آپ گجرات کے وزیر اعلیٰ کو بھی بلائیں گے‘‘ ایئر نے جواب میں کہا ’’ہمارے اجلاس میں ان کا کیا کام؟ ہاں چائے بیچنا چاہیں تو ہم انہیں ایک اسٹال فراہم کردیں گے‘‘۔ منی شنکر ائیر جب پاکستان میں انڈیا کے ہائی کمشنر تھے تو دونوں ملکوں کے تعلقات بہت خوش گوار چل رہے تھے، وہاں اسلام اور مسلم کلچر کے بارے میں بھی انہیں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اسی دوران ان کے گھر ایک بچی کی پیدائش ہوئی جس کا نام انہوں نے ثنا رکھا۔ بعد میں ایک موقع پر دور درشن کو انہوں نے بتایا کہ ثنا خدا کی تعریف کو کہتے ہیں اور یہ نام ہم نے بہت خوشی سے منتخب کیا۔ منی شنکر ائیر کے بارے میں بھی کئی باتیں مشہور ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس، کانگریس ہی رہے اور دستور ہند کے مطابق اپنا کام کرے۔ اسے ادھر ادھر نہ بھٹکایا جائے۔ وہ بی جے پی کے مقابلہ پر سافٹ ہندوتوا کے خلاف بھی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ جو باباوں اور دھرم گرووں سے مراسم قائم کر رہے ہیں، وہ اس کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی جو راستہ اختیار کیا ہے، وہی درست ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ حکم راں پارٹی کے ایسے حربوں کا جواب یہی ہے جو کرناٹک میں دیا گیا ہے۔ راہل گاندھی بھارت ماتا کی جے کے جو نعرے بلند کر رہے ہیں وہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
راہل گاندھی کیا چاہتے ہیں
کانگریس میں منی شنکر ائیر جیسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ہر دور میں رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں جب کانگریس زوال پذیر ہوئی تھی، یہ لوگ اس کے ساتھ تھے، اس وقت کہا جا رہا تھا کہ کانگریس ختم ہو چکی ہے اب اس کا کوئی مستقبل نہیں، حکمراں پارٹی نے تو ’’کانگریس مکت‘‘ بھارت کا نعرہ بلند کرنا شروع کردیا تھا۔ مگر کانگریس ایک بار پھر اٹھ رہی ہے اسے چھوڑ کر جانے والے لوگ واپس آرہے ہیں۔ اور اس طرح یہ بات طے سمجھی جا رہی ہے کہ 2024ء میں مقابلہ مودی اور راہل کے مابین ہوگا۔ ’’مودی کے بعد کون‘‘ والا سوال دم توڑ چکا ہے۔ ویسے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کانگریس راہل گاندھی کی قیادت میں اگر جیت بھی گئی تو راہل وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ سوشل میڈیا پر یہ بات وہ لوگ کہہ رہ ہیں یعنی مبصرین جو راہل گاندھی کو بہت قریب سے جانتے ہیں، ان سے رابطہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ راہل گاندھی، گاندھی جی اور جے پرکاش نارائن کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی کو یہ اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ میں نے اپنا راستہ چن لیا ہے اور اسی پر چلوں گا۔ قریبی افراد بتاتے ہیں کہ وہ راستہ ہے آر ایس ایس سے براہ راست ٹکر کا جس کا اعلان انہوں نے ایک بار امریکہ میں ہندوستانیوں کے سامنے کیا تھا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ راہل گاندھی یہ کام اقتدار پر رہ کر ہی کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کے بعد کانگریس کی کامیابی کی صورت میں وزارت عظمی کے لیے کسی اور کا نام بھی پیش کریں۔ ان کی والدہ سونیا گاندھی بھی اسی خیال کی حامل ہیں۔ خواتین اور کانگریس میں پیدا شدہ نوجوان نسل بھی راہل گاندھی کے ساتھ ہیں۔ منی شنکر ایئر جیسے بہت سے سینئر لیڈر بھی راہل گاندھی کے ساتھ ہیں۔