خبرونظر

پرواز رحمانی

تحریک عدم اعتماد کے بعد
منی پور پر تین دن کی پارلیمانی بحث کا نتیجہ تو خاص نہیں نکلا سوائے اس کے کہ اپوزیشن نے اس چھوٹی سی ریاست کے بڑے بحران کو بین الاقوامی موضوع بنا دیا۔ وزیر اعظم کو، جو اس موضوع پر ایک لفظ بولنے کو تیار نہ تھے، پارلیمنٹ میں بیان دینے پر مجبور کر دیا۔ منی پور کے عوام کو یقیناً اس سے راحت ملی ہوگی۔ اپوزیشن نے یہ کام تو کر دیا لیکن اس کے برعکس حکم راں پارٹی اس مسئلے کا رخ بدلنے میں کامیاب ہوگئی۔ راہل گاندھی کے بیان کے بعد اس نے فلائنگ کس کا معاملہ اس طرح اٹھایا کہ اصل مسئلہ ہی دب کر رہ گیا۔ بحث کے کسی ایک نکتے پر اگر عوام و خواص میں گفتگو ہو رہی ہے تو وہ فلائنگ کس ہی ہے۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔ راہل گاندھی کو راجستھان جانے کے لیے ایوان سے نکلنا تھا، اس لیے انہوں نے جاتے وقت منہ پر انگلیاں رکھ کر شکریہ یا کوئی لفظ کہا جسے فلائنگ کس کہا جا رہا ہے۔ ہندی میں اسے چما کہتے ہیں۔ بس اسی بات کو خاتون وزیر اسمرتی ایرانی نے خوب زور و شور سے اٹھایا۔ یہاں تک کہ اصل مسئلہ دب کر رہ گیا اور وہی اصل مسئلہ بن گیا۔ راہل کی حرکت کسی نے دیکھی نہیں، دیکھی تو صرف اسمرتی ایرانی نے۔ اس سے قبل وزیر اعظم نے سوا دو گھنٹوں کی تقریر میں تین منٹ منی پور کا ذکر کیا تھا اور کچھ رسمی الفاظ کہے تھے، اس لیے حکمراں پارٹی کو منی پور کی حقیقت دبانے کا موقع مل گیا اور وہ راہل گاندھی کی فلائنگ کس کا پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسمرتی ایرانی اور بی جے پی کو یہ چال مہنگی پڑی، بہت مہنگی۔ ملک کی عام خواتین ایرانی کا ہی کچھا چٹھا بیان کر رہی ہیں اور کھول کھول کر بیان کر رہی ہیں ۔

صورت حال کیا ہے
یہ خواتین اسمرتی ایرانی کے بارے میں نہایت نا پسندیدہ الفاظ بول رہی ہیں۔ شوہر چور، چرتر ہیں، دروغ گو، ڈرامے باز، گیس سلنڈر کی مداری کے شوہر کی چوری کے بارے میں مشہور ہے کہ ممبئی آنے کے بعد ان کے ابتدائی دن بہت برے گزر رہے تھے۔ فلیٹ کا کرایہ نہیں دے پا رہی تھیں تو ان کی ایک دوست نے جو خود بھی پارسی تھیں، اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کا پورا خیال رکھا۔ اسی دوران اسمرتی نے میزبان کے شوہر سے قربت حاصل کرلی، حتی کہ اس سے شادی رچا لی اور اپنی محسن میزبان کو گھر سے نکلوادیا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ دہلی میں جب سیاست شروع کی تو گیس سلنڈر چار سو روپے تھا، اس کی مہنگائی کے خلاف مہم چلائی۔ امیٹھی پہنچی تو عوام سے وعدہ کیا کہ جیت گئیں تو چینی تیرہ روپے کلو کردی جائے گی۔ ایسے متعدد مسائل ہیں جن پر ایرانی کو گھیرا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ایک بڑے حصہ نے بھی ان باتوں کو خوب اچھالا۔ اب حال یہ ہے کہ وہ منظر عام سے غائب ہو چکی ہیں۔ خواتین ان کے گھر کے سامنے مظاہرے کرتی ہیں۔ ادھر اعلان ہوا ہے کہ راہل گاندھی اس بار بھی امیٹھی ہی سے لوک سبھا کا الیکشن لڑیں گے جس سے ایرانی مزید پریشان ہوگئی ہیں۔ پچھلی بار تو وہ راہل گاندھی کے مقابلہ پر امیٹھی سے جیت گئی تھی لیکن اس بار حالت بہت خراب ہے۔ ان کے مقابلہ میں راہل گاندھی امیٹھی میں ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کی طرح بی جے پی میں بہت سے لوگ ہیں جو ہاتھ دھوکر راہل گاندھی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ پارٹی کا آئی ٹی سیل (شعبہ نشرو اشاعت) راہل گاندھی کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے۔

2024ء میں کیا ہوگا؟
یہ سارا ہنگامہ لوک سبھا کے انتخابات جیتنے کے لیے ہے، جس کے لیے آٹھ نو مہینے باقی رہ گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے ابھی پندرہ اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ سال پھر آئیں گے اور اسی طرح یہاں سے ترنگا لہرائیں گے۔ گویا انہوں نے آر ایس ایس اور پارٹی کی پروا کیے بغیر عوام کو بتا دیا ہے کہ آئندہ الیکشن میں اگر بی جے پی جیتتی ہے تو وزیر اعظم وہی ہوں گے۔ جب کہ چند ماہ قبل سنگھ کے سرکاری ترجمان آرگنائزر نے لکھا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ پارٹی کے ایک لیڈر سبرامنیم سوامی نے بھی کہا ہے کہ ابھی ایسی کوئی بات طے نہیں ہے، وزیر اعظم کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔ مگر مودی کا سارا زور خود پرائم منسٹر بننے پر ہے۔ انہیں یہ زعم ہے کہ وہ آر ایس ایس سے بالاتر ہوچکے ہیں۔ اگر سنگھ نے ان کی بات نہ مانی تو وہ الگ اپنی آر ایس ایس بنالیں گے۔ یعنی مودی جس طرح اپوزیشن اور عوام کو دباو میں رکھتے ہیں اسی طرح وہ سنگھ اور پارٹی کو خوف کی حالت میں لانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس بار حالات یکسر مختلف ہیں۔ مودی کی مقبولیت کا گراف بالکل گرچکا ہے۔ لوگوں نے یہ سوال بھی ترک کر دیا ہے کہ ’’مودی کے بعد کون‘‘ اب زیادہ تر لوگوں کو راہل گاندھی نظر آتے ہیں۔ مودی کے اہنکار اور ان کی من مانی نے خود بی جے پی کا ماحول بگاڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس راہل گاندھی نے خود کو ازسر نو آراستہ کیا ہے۔ ان کے عوامی میل جول نے ملک میں ایک نئی صورت حال پیدا کی ہے۔ اس کے لیے 2024ء کے انتخابات حیرت انگیز نتائج کے حامل ہوں گے۔