خبرونظر
پرواز رحمانی
پارلیمنٹ میں منی پور؟
پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی جو تحریک پیش کی تھی، اسے بہرحال ناکام ہونا تھا اس لیے کہ ایوان میں حکم راں پارٹی کی بہت بڑی اکثریت ہے اور اپوزیشن ممبروں کی تعداد بہت کم۔ اپوزیشن کا مقصد حکومت کو گرانا بھی نہیں تھا۔ مخالف پارٹیاں صرف یہ چاہتی تھیں کہ وزیر اعظم مودی ایوان میں آئیں اور ان کے کچھ سوالوں کے جواب دیں، خاص طور سے منی پور کی صورت حال پر کچھ بولیں، لیکن وزیر اعظم اپنی ضد کے مطابق کسی قیمت پر اندر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے منی پور پر باہر بھی کوئی بیان نہیں دیا تھا، نہ دینا چاہتے تھے۔ وہ تو ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے حکومت کی سرزنش کی تھی جس پر وزیر اعظم کو چند الفاظ بولنے پڑے۔ مخالف پارٹیاں وزیر اعظم کا تفصیلی بیان چاہتی تھیں، لہذا انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ اس کا جواب دینے کے لیے وزیراعظم کو ایوان میں آنا پڑا وہ بھی تیسرے یعنی آخری دن آئے، سوا دو گھنٹے بولتے رہے لیکن منی پور کا نام بھی نہیں لیا۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں نے ایوان کا بائیکاٹ کر دیا تو وزیر اعظم کی سبکی ہوئی، جس کے بعد انہوں نے چند رسمی جملے کہہ دیے لیکن ٹھوس بات کوئی نہیں کہی اور یوں ایوان کی کارروائی پوری ہوئی۔ اپوزیشن کی ناکامی پر حکومت کے لوگ تو خوشیاں منا رہے ہیں لیکن یہ کامیابی دراصل اپوزیشن کی تھی جس نے وزیر اعظم کو ایوان میں آنے اور بیان دینے پر مجبور کر دیا۔ اس رسمی بیان سے حکومت مزید بے نقاب ہو گئی۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنے مختصر بیان میں جو کچھ کہا اس نے حکومت کا ایک بڑا حربہ کھوکھلا کردیا، یہ حربہ تھا ہندوتوا اور راشٹر واد کا، جس سے حکم راں پارٹی رائے دہندگان کو جھانسا دینے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔
جو اب کسی کا نہیں
راہل گاندھی نے اپنے پر زور بیان میں وزیر اعظم اور حکومت کو ان تمام مسائل پر گھیرا جو اس وقت ملک کو درپیش ہیں، کہا کہ آپ ملک میں لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں۔ نفرت پھیلا رہے ہیں۔ آپ نے پورے ملک میں مٹی کا تیل چھڑک رکھا ہے۔ جب اور جہاں چاہتے ہیں چنگاری لگا دیتے ہیں۔ منی پور کے بعد آپ نے ہریانہ میں آگ لگا رکھی ہے جہاں اپوزیشن ممبروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف آپ کے لوگ جاتے ہیں اور آگ کو مزید بھڑکا تے ہیں۔ آپ کا راشٹرواد نقلی ہے۔ راون کو رام نے نہیں، اس کے اہنکار نے مارا تھا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ راہل گاندھی کا سینتیس منٹ کا یہ خطاب بھاری بھرکم تھا جس سے حکم راں گروہ کے اندر کھلبلی مچ گئی۔ اب وہ لوگ ہندوتوا اور راشٹرواد پر سوچ سمجھ کر بولیں گے۔ بحث کے پہلے دو دن تو وزیر اعظم ایوان میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ مجبوراً تیسرے دن آنا پڑا، اس میں بھی ان کا پورا بھاشن اپنی حکومت کے کارنامے گنوانے میں گزرا۔ یہ پوری طرح انتخابی خطاب تھا۔ آدھے سے زیادہ وقت کانگریس اور کانگریسی لیڈروں کی کمیاں بتانے میں لگا، کچھ مسائل ادھر ادھر کے بھی بیان کیے لیکن ان میں سے کوئی بات نہیں کہی جو شرکا سننا چاہتے تھے اور جس کے لیے ایوان کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ منی پور پر کئی سوالات کیے گئے لیکن کسی کا جواب نہیں دیا۔ گزشتہ پانچ چھ ماہ کے دوران ملک میں کئی سنگین مسائل پیدا ہوئے حکومت سے سوالات بھی کیے گئے، وہ تمام سوالات تین دن کی بحث میں بھی اٹھائے گئے لیکن وزیر اعظم نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
اجلاس کیسا تھا
غیر جانب دار مبصرین بر ملا کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا یہ اجلاس انتہائی گیا گزرا اجلاس تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی اہم بات نہیں کہی گئی۔ جو کچھ کہا راہل گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے کہا۔ اگر ان کی باتوں کو نکال دیا جائے تو یہ اجلاس ایک بے مصرف اجلاس تھا۔ راہل گاندھی اور ’’انڈیا‘‘ کے دوسرے ممبروں نے وزیر اعظم اور حکومت سے جو سوالات کیے وہ متوقع تھے۔ اس لیے وہ سوالات لوگ پہلے ہی بتا رہے تھے کہ یہ اور یہ سوال کریں گے۔ منی پور میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہی کچھ ہریانہ میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ راہل گاندھی نے صاف صاف بتایا کہ منی پور کے لیے حکومت کچھ کرنا نہیں چاہتی بلکہ اس تجربے کو ملک کے دوسرے حصوں میں دہرانا چاہتی ہے اور ہریانہ کے واقعات اسی پروگرم کا حصہ ہیں۔ گیارہ اگست کو یعنی پارلیمنٹ اجلاس کے آخری دن راہل گاندھی نے دلی میں پریس کانفرنس کی اور اس میں وہ نکات اٹھائے جو وہ اپنے خطاب میں وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں اٹھا سکے تھے۔ اجلاس میں وزیر اعظم نے تیسرے دن دو گھنٹوں سے زیادہ کا بھاشن دیا، اس میں راہل گاندھی موجود نہیں تھے، راہل نے مودی کا بھاشن راجستھان سے آنے کے بعد سنا اور اس پر وہی تبصرہ کیا جو سبھی کر رہے ہیں کہ جس اشو پر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی اس پر وزیر اعظم تو بولے ہی نہیں۔ اپوزیشن کے واک آوٹ پر ڈھائی تین منٹ بولے جس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ اس لیے راہل گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم منی پور میںکچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں کچھ اور باتیں بھی کہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ممبئی میں 31 اگست اور یکم ستمر کو ہونے والے ’’انڈیا‘‘ کے اجلاس میں یہ سبھی باتیں آئیں گی۔