خبرونظر

پرواز رحمانی

تبدیلی حکومت کی ضرورت تھی
موجودہ مرکزی حکومت کے تین چار سال تو بخوبی گزرے، عام لوگوں نے بھی حسن ظن سے کام لیا، مگر جیسے ہی اس کے چھوٹے بڑے مالی اور سماجی اسکینڈل سامنے آنے لگے، عوام کی رائے تیزی سے بدلنے لگی۔ 2016ء کی نوٹ بندی، کسانوں کی تحریک، اڈانی کا اسکینڈل، پہلوان لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی، منی پور میں خانہ جنگی اور راہول گاندھی کے خلاف کردار کشی کی مہم۔۔ ان میں عوام کے کسی طبقے نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا الا یہ کہ جو لوگ پارٹی کے قدیم وفادار ہیں۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ عوام کے تمام طبقات اس سے بے زار ہیں۔ منی پور کی منظم خانہ جنگی کا معاملہ گرم ہی تھا کہ اب سپریم کورٹ نے راہل گاندھی کے معاملہ میں سرکاری پس پردہ مقدمہ کے خلاف رائے دے کر حکومت کا پورا کھیل بے نقاب کر دیا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں حکومت کی مسلم مخالف مہم بھی کھل کر عوام کے سامنے آگئی۔ یہ اس لیے کہ حکومت کو معلوم تھا کہ وہ تعمیری کاموں کے بل پر حکومت چلا نہیں سکتی، اس لیے اس نے اپنے مخصوص ذہن کا مظاہرہ اپنی انتظامیہ کے ابتدائی دور ہی میں کر دیا تھا۔ جب اس کے کارندوں نے مغربی یو پی میں گوشت خوری کی آڑ میں محمد اخلاق کے گھر میں گھس کر انہیں مار ڈالا تھا۔ یہ اپنی قسم کا بدترین واقعہ تھا مگر وزیر اعظم کچھ نہ بولے، بالکل خاموش رہے۔ کئی دن بعد ان کی طرف سے ارون جیٹلی بولے اور کہا کہ وزیر اعظم کو اس واقعہ کا افسوس ہے۔ قتل اور خوں ریزی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعد میں اس میں دلت طبقات کو بھی شامل کرلیا گیا جس کا نمونہ گجرات کے شہر اونا میں دکھایا گیا۔ گویا یہ تبدیلی حکومت کی ضرورت تھی۔

فساد منصوبہ بند تھا
اب منی پور کی خوں ریز خانہ جنگی کے ساتھ شر پسندوں نے شمالی ہند میں ایک اور محاذ کھول دیا ہے۔ ہریانہ کے شہر میوات میں ایک انتہائی اشتعال انگیز جلوس نکالا گیا جس میں بتایا جاتا ہے کہ ہریانہ سے باہر کے لوگ بھی بلائے گئے تھے۔ یہ لوگ اسلحہ بردار تھے۔ بہت سوں کے پاس ریوالوریں، لاٹھیاں اور دوسرا مہلک سامان تھا۔ یہ جلوس شہر کے نوح سے گزر رہا تھا کہ اس کے قریب کچھ نوجوانوں نے اس پر پتھراو کیا۔ کچھ لوگ پتھراو کرنے والوں کو سمجھا بجھا کر منانے کی کوشش کر رہے تھے کہ جلوس میں شامل مسلح افراد نے بھی مار دھاڑ شروع کردی۔ یہ ہنگامہ جلوس کے نوح سے نکلنے کے بعد ہوا۔ اس مقام کے تین طرف پہاڑیاں ہیں۔ فساد چار گھنٹوں تک جاری رہا۔ پولیس بالکل غائب تھی۔ معتبر مبصرین کہتے ہیں کہ یہ فساد ہوا نہیں بلکہ کروایا گیا ہے۔ نوح میں ایک ہفتہ سے شر انگیز بیانات اور ویڈیوز دکھانے کا سلسلہ جاری تھا۔ فساد سے ایک دن قبل علاقہ کے بدنام فسادی مونو مانیسر کا ایک ویڈیو نوح اور اس سے باہر دور دور تک دکھایا جا رہا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا لوگو تمہارا جیجا آرہا ہے اور پوری تیاری کے ساتھ آ رہا ہے۔ اس کے سواگت کے لیے تیار رہنا۔ کہا جاتا ہے کہ ان اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے نوح اور اس کے گرد وپیش زبردست تناو پیدا ہو گیا تھا۔ پھر جب جلوس آیا تو اس کا انداز مختلف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نوح کے قریب ایک قدیم مندر ہے جہاں جل ابھیشیک کے لیے ہر سال لوگ جمع ہوتے ہیں۔ عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ اس بار بھی تھیں۔ جلوس بہت بڑا تھا۔ وہ اپنے مقررہ روایتی راستے کی بجائے مسلم علاقوں سے گزرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ فساد کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ فساد منصوبہ بند تھا۔

اپنے نظریات کی اصلاح کیجیے
نوح کے فساد کے بارے میں کئی لوگ پیش گوئی کر رہے تھے۔ یہ پیش گوئی حکمراں پارٹی کے حوالے سے کی جا رہی تھی۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ 2024ء کے الیکشن جیتنے کا اب پارٹی کے پاس کوئی ذریعہ باقی نہیں بچا ہے۔ وزیر اعظم کی شخصیت میں پہلے سی کشش نہیں رہی، اس لیے پارٹی اب اپنی منفی سیاست پر اتر آئے گی۔ میوات کو حساس علاقہ بنانے کی کوشش بی جے پی بہت عرصے سے کر رہی تھی۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ نوح کا فساد اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تیاری کی جا رہی تھی۔ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ست پال ملک بھی ایسی باتیں کر رہے تھے۔ آر ایس ایس نے اقتدار کے دو تجربے کر لیے۔ ایک اٹل بہاری باجپائی کے ساتھ گٹھ بندھن کی سیاست کا، دوسرا نریندر مودی کے ساتھ خالص اقتدار یعنی کسی سہارے کے بغیر حکومت بنانے کا۔ دوسرا تجربہ تو ملک و عوام کی ترقی کے لحاظ سے بالکل ناکام رہا۔ اب اگر آر ایس ایس آئندہ بھی اقتدار میں رہنا چاہتی ہے تو اسے نیا تجربہ کرنا ہوگا۔ اس کے پاس بڑا کیڈر ہے۔ وہ اپنی نفرت کی سیاست ترک کر کے تعمیری سیاست کرے۔ سب کو ساتھ لے اور حقیقت میں سب کا وکاس چاہے۔ چند سال قبل دلی کے وگیان بھون میں لگاتار تین دنوں تک جو بھاشن دیا تھا، اس پر عمل کرکے دکھائے۔ اسے کامیابی ملے گی۔ پورے سو سال اس نے منفی سیاست میں گزار دیے اب مثبت کام کر کے بھی دیکھے۔ دین اسلام کو پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرے کہ وہ فی الحقیقت ہے کیا۔ آر ایس ایس کے لیے اور پورے ملک کے لیے بہت سے مسائل اسلام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ قدرت نے اسے اپنی اصلاح کا ایک بڑا موقع دیا ہے۔ اس موقع سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور باشندگان ملک کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دے۔