خبر و نظر

پرواز رحمانی

ایک فساد پہلے بھی ہوا تھا

دنیا کے حکمراں طبقے میں سے اکثر کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ بہت ضدی ہوتے ہیں، بات بات پر اڑ جاتے ہیں اور اسے بہت بڑا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ کچھ مثالیں ہمارے یہاں بھی ملتی ہیں۔ تقریباً تیس سال قبل مراد آباد کی عیدگاہ میں عین عید کے وقت جب نماز عید کے لیے نمازی جمع ہوئے تھے کوئی بد جانور ان کے درمیان گھس آیا، نمازی مشتعل ہوگئے۔ اکثر کا خیال تھا کہ یہ شرارتاً کیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں آپس میں بحث ہو رہی تھی کہ اے پی سی (پرووینشیل آرمڈ کانسٹبلری) کا ایک دستہ جائے واردات پر پہنچ گیا اور لاٹھی چارج کرنے لگا۔ بات بڑھ گئی۔ شہر میں فساد ہو گیا۔ وی پی سنگھ وزیر اعلیٰ تھے، انہوں نے فساد پر فی الفور قابو پالیا لیکن شہر میں کشیدگی بڑھ گئی، کچھ شرارتی اور سماج دشمن عناصر بھی لڑائی جھگڑے میں شامل ہوگئے۔ مرکز میں وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں۔ ان سے مسلم رہنماوں اور کئی دوسرے لیڈروں نے اپیل کی کہ مرادآباد کا فی الفور دورہ کریں۔ لیکن اپیل انہوں نے مسترد کردی، جواب میں کہا کہ وزیر اعلیٰ اور ضلعی حکام حالات کو سنبھالے ہوئے ہیں، بعد میں اہم رہنماوں کے اصرار اور وزیر اعلیٰ کی اپیل پر اندرا گاندھی مان گئیں اور مراد آباد کا دورہ کیا۔ متاثرین سے بعض لوگوں کی فریادیں سنیں اور قصواروں کے خلاف ایکشن لینے کا وعدہ کیا۔ نہتے نمازیوں پر پی اے سی کی کارروائی کا وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور وزیر اعلیٰ سے کارروائی کرنے کی ہدایت دی۔ وی پی سنگھ اس سے پہلے ہی نوٹس لے چکے تھے۔ نمازی نہتے ہی ہوتے ہیں۔ وہ غسل کر کے پاک و صاف ہو کر عیدگاہ گئے تھے۔ کچھ کے ساتھ ننھے بچے بھی تھے۔ پی اے سی نے ان لوگوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔

مراد آباد اور منی پور
اب ایک تازہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مشرقی ہند کی ایک چھوٹی ریاست منی پور میں دو ذاتوں کے درمیان خون ریز فساد پھوٹ پڑا۔ یہ تین مئی کو شروع ہوا تھا لیکن وزیر اعظم نے اس کا نوٹس اٹھترویں دن لیا۔ وہ بھی سپریم کورٹ کے کہنے پر، ورنہ اس سے قبل ان سے بارہا پیل کی گئی کہ منی پور کے لیے وقت نکالیں لیکن وزیر اعظم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس دوران وہ کئی ملکوں کے دورے پر بھی گئے۔ آسٹریلیا گئے، امریکہ گئے، مصر گئے، فرانس گئے لیکن منی پور جانے کا انہیں وقت نہیں ملا۔ کانوں پر جوں اس وقت رینگی جب ایک انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز ویڈیو وائرل ہوکر سپریم کورٹ تک پہنچا۔ اس میں آدی باسی ذات کی دو عورتوں کو برہنہ کرکے ان کا گشت کروایا گیا ہے۔ بعد میں ان کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی بھی کی گئی۔ اس سے پورے ملک اور بیرون ملک تہلکہ مچ گیا۔ یہ ویڈیو تین مئی کا ہے لیکن وائرل وہ بیس جولائی کو ہوا یعنی فسادات شروع ہونے کے ستتر دن بعد۔ سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ وہ اس پر فوراً ایکشن لے، اور اگر نہیں لیا تو پھر ایکشن ہم لیں گے۔ عدالت عظمیٰ کی پھٹکار سن کر وزیر اعظم نے کہا کہ منی پور کے واقعات سے میرا دل درد سے بھر گیا ہے۔ مجرموں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ اپنے آٹھ سکنڈ کے بیان کے بعد وہ اپنے روز مرہ کے مشاغل میں مصروف ہو گئے۔ آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کی پھٹکار نہ پڑتی تو وزیر اعظم اب بھی ٹس سے مس نہ ہوتے۔ جہاں تک وزیر اعظم کے طرز عمل کا تعلق ہے یہ واقعہ مراد آباد سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اندرا گاندھی کے سامنے کوئی ایجنڈا نہ تھا جبکہ یہاں منی پور وزیر اعظم کے سامنے ایجنڈا معلوم ہوتا ہے۔

عادت پرانی ہے
اور موجودہ وزیر اعظم کا یہ طرز عمل پہلی بار سامنے نہیں آیا، ان کا یہ رویہ مستقل ہے۔ دس سال سے عام لوگ دیکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ سنگھ کے پرچارک اور وزیر اعلیٰ تھے۔ مبصرین بتاتے ہیں کہ وہ یہی طرز عمل رکھتے تھے۔ گزشتہ دس برسوں میں دنیا نے کیا نہیں دیکھا نام نہاد گئو رکشکوں کے ہاتھ محمد اخلاق کے قتل پر کچھ نہیں بولے۔ بولے تو ان کی طرف سے ارون جیٹلی بولے۔ پیسے بٹور کر ملک سے فرار ہونے والوں پر وہ آج تک نہیں بولے۔ اڈانی کے ساتھ اپنے مراسم پر وہ آج بھی خاموش ہیں۔ پہلوان لڑکیوں کے دھرنے پر وہ آج بھی خاموش ہیں، متعدد واقعات ہیں جن پر وزیر اعظم کو بولنا چاہیے تھا مگر وہ نہیں بولے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں کس بات کا گھمنڈ ہے۔ اگر گھمنڈ بڑی اکثریت کا ہے تو راجیو گاندھی کا حشر سب کے سامنے ہے۔ لوک سبھا میں چار سو سیٹیں لانے کے باوجود وہ دوسرے ٹرم میں ناکام ہو گئے۔ وزیر اعظم مودی کی جنم داتا اور سر پرست آر ایس ایس خود حالات سے شاکی ہے۔ باخبر مبصرین کے مطابق وہ وزیر اعظم کے طرز عمل سے مطمئن نہیں ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ سنگھ نے اس سلسلہ میں وزیر اعظم سے بات کی یا نہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کا یہ مزاج سنگھ ہی نے بنایا ہے۔ ان کی پوری تربیت سنگھ کے ماحول میں ہوئی ہے۔ پرورش شاکھاوں نے کی ہے۔ لہذا اگر آج سنگھ وزیر اعظم سے مایوس ہے تو اس کے لیے وہی ذمہ دار ہے۔ وزیر اعظم کا طرز عمل بتاتا ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ وہ خود سنگھ کو الگ تھلگ کرکے متوازی سنگھٹن کھڑا کرلیں۔