خبر و نظر

پرواز رحمانی

بد حواسی کا دورہ
حزب اختلاف کے تقریباً تمام لیڈر اور ان کی پارٹیاں بیک آواز کہہ رہی ہیں کہ آج کل وزیر اعظم اور حکمراں پارٹی بد حواسی کا زبردست شکار ہیں۔ عجیب عجیب قسم کی باتیں اور حرکتیں کر رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات ہار جانے کا خوف طاری ہے۔ چار چھ مہینے پہلے تک کہتے تھے کہ کوئی انہیں ہرا نہیں سکتا لیکن اب انہیں ایک چہرہ نظر آرہا ہے جو بہت پریشان کر رہا ہے اور وہ چہرہ ہے راہل گاندھی کا، جو ان کی پدیاترا اور امریکی دورے کے بعد بہت ابھر کر سامنے آیا ہے۔ راہل گاندھی کے فوری بعد پرائم منسٹر کا دورہ بھی ہوا تھا جو سرکاری سطح کا تھا اور بہت آب و تاب کے ساتھ ہوا تھا۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ راہول کے نجی دورے کے مقابلہ میں پی ایم کا یہ سرکاری دورہ پھیکا رہا۔ پروٹوکول کے مطابق ان کی پذیرائی تو بہت ہوئی لیکن عام امریکیوں نے کوئی جوش نہیں دکھایا۔ کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) کے پچھتر ممبروں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو دورے کے خلاف احتجاجی خط لکھا۔ انہوں نے ان مسائل کا ذکر بھی کیا جو جمہوریت، حقوق انسانی اور شہری و مذہبی آزادی سے متعلق انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہوئی کہ انڈین پرائم منسٹر نے ایک ’’پریس کانفرنس‘‘ بھی کی۔ یہ نام نہاد پریس کانفرنس صرف دو سوالات پر مشتمل تھی۔ ایک سوال انڈین پی ایم سے دوسرا امریکی صدر سے کیا جانا تھا۔ خود سے کیے گئے سوال کے جواب میں انڈین پی ایم نے جو کچھ کہا، اس نے انہیں دنیا بھر میں ہنسی مذاق کا موضوع بنا کر رکھ دیا۔ سوال کیا تھا اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر صبرینا صدیقی نے جو کچھ اس طرح تھا ’’لوگ کہتے ہیں کہ انڈیا میں جمہوری، شہری اور مذہبی آزادی ہے لیکن خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے‘‘۔سوال پر پی ایم سٹپٹا گئے ۔

اسباب کچھ اور بھی ہیں
اور جواب کچھ یوں دیا ’’لوگ کہتے ہیں، انڈیا میں جمہوری، شہری اور مذہبی آزادی واقعی ہے۔ کسی طبقے کے ساتھ کوئی زیادہ نہیں کی جاتی۔ سب لوگ برابر کے شہری ہیں‘‘۔ لیکن اس جواب سے شاید کوئی مطمئن نہیں ہوا اس لیے کہ اس پھسپھسے اور نامعقول جواب پر دنیا بھر میں تبصرے کیے جارہے ہیں۔ اس سوال سے پی ایم کتنا بھڑکے یہ نہیں معلوم لیکن انڈیا میں ان کے میڈیا اور ترجمانی کرنے والے بہت بری طرح بھڑک گئے۔ انہوں نے سارا غصہ رپورٹر پر اتارا۔ اسی دوران ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سابق صدر امریکہ اوباما سے ایک خاتون رپورٹر نے ایک ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اگر میری ملاقات انڈین پرائم منسٹر سے ہوتی تو میں ان سے کہتا کہ آپ کے ملک میں جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اگر وہ یوں ہی جاری رہا تو مجھے اندیشہ ہے کہ انڈیا منتشر ہوجائے گا‘‘۔ اوباما کی اس بات نے اندھ بھکتوں کو مزید مشتعل کر دیا اور وہ اوباما کے خلاف اول فول بکنے لگے۔ یہی باتیں ہیں جن پر کہا جا رہا ہے کہ پرائم منسٹر اور ان کے ساتھیوں پر آج کل شدید بدحواسی یا بوکھلاہٹ طاری ہے۔ وہ میڈیا جسے لوگ گودی میڈیا کہتے ہیں جو صرف وزیر اعظم کے گن گایا کرتا ہے۔ آج کل نسبتاً خاموش ہے لیکن راہول گاندھی کے خلاف کچھ نہ کچھ بولتا رہتا ہے۔ چند ماہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ ملک میں ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو 2024 میں وزیر اعظم کے سامنے کھڑا ہوسکے۔ آج وہی میڈیا راہول گاندھی کی بات کرتا ہے، گو کہ انداز دوسرا ہوتا ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کی نمایاں جیت کے بعد ملک کا ماحول بدل گیا ہے۔ راہل گاندھی کے علاوہ وزیر اعظم کی بدحواسی کے کچھ اور بھی اسباب ہیں مثلا اڈانی، کسان موومنٹ، پلوامہ پر ستیہ پال ملک کے انکشافات اور بیس کروڑ ہزار کی رقم کا مسئلہ وغیرہ۔

تکبر لے ڈوبتا ہے
2014 میں جس طوفان کے ساتھ بی جے پی آئی تھی وہ پانچ چھ سال تو برقرار رہا مگر پھر اس پر زوال آگیا۔ اس طوفان کے پیچھے واحد چہرہ تھا جس نے چاروں طرف شور مچا رکھا تھا۔ اس نے ابتدا میں ہی آر ایس ایس کار نگ دکھانا شروع کر دیا۔ جگہ جگہ گئو رکھشک گروپ بنا کر چھوڑ دیے گئے جہاں انہوں نے سربازار اور گھروں میں گھس کر مشکوک افراد کو مارنا شروع کر دیا۔ پھر رام مندر کے آندولن میں زور پیدا ہوا۔ سپریم کورٹ نے یہ تیکنک اپنائی کہ فیصلہ کے تمام اہم نکات تو مسلمانوں کے حق میں لکھا لیکن مسجد فریق مخالف کے حوالے کردی۔ گجرات میں یک طرفہ نسل کشی پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری آئی، اس نے وزیر اعظم سمیت پوری حکومت کو ہلاکر رکھ دیا، اس پر تبصرے ہنوز جاری ہیں۔ پی ایم کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا اڈانی سیٹھ کی دوستی نے۔ ہنڈن ربگ رپورٹ کے بعد پی ایم کی جان آدھی رہ گئی۔ وہ بحث بھی جاری ہے، کچھ اور مسائل ہیں جن میں پی ایم کی جان پھنسی ہوئی ہے۔ کرناٹک کی شکست، راہل گاندھی کی پدیاترا اور امریکی سفر نے پی ایم کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہ تمام وجوہات ہیں جن سے پی ایم اور ان کے خوشہ چینوں پر بوکھلاہٹ طاری ہوگئی ہے۔ اس لیے کہاجا رہا ہے کہ پی ایم کو 2024 کے انتخابات ہار جانے کا ڈر ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی نے اپنی حکومت کسی طرح بچا بھی لی تو پی ایم کو بدل دیا جائے گا ۔ ادھر کانگریس بھی پورے فارم میں ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا گٹ بندھن بنالیا ہے جو آئندہ چند روز میں حتمی شکل میں آجائے گا۔ مین اسٹریم میڈیا تو پی ایم کے ساتھ ہے مگر سوشل میڈیا کا بڑا اور سرگرم حصہ اپوزیشن کے ساتھ ہے۔