خبر ونظر

پرواز رحمانی

یکساں سول کوڈ
ملک میں یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ رہ رہ کر اٹھتا رہتا ہے۔ آج کل بھی اس پر بحث گرم ہے۔ آئین کے رہنما اصولوں میں ڈاکٹر امبیڈکر نے جو کہہ دیا کہ ملک جن مقاصد کو مستقبل میں حاصل کرنا چاہتا ہے ان میں تمام شہریوں کے لیے یکساں سیول کوڈ بھی شامل ہے۔ لیکن رہنما اصولوں میں اور بھی کئی مقاصد ہیں جنہیں حاصل کرنے کی مملکت پابند ہے۔ مثلاً تمام شہریوں کے لیے تعلیم، صحت اور عورتوں کو با اختیار بنانا وغیرہ۔ لیکن ایک پارٹی ہے جسے رہنما اصولوں میں سوائے کامن سیول کوڈ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جب یہ پارٹی ابتدا میں جن سنگھ کے نام سے قائم ہوئی تھی تو اسی وقت اس نے یہ اور اسی قسم کے دوسرے تخریبی مسائل اپنے پروگرام میں شامل کر لیے تھے کیوں کہ کوئی تعمیری مسئلہ اس کے پاس سرے سے تھا ہی نہیں۔ اس پارٹی اور اس کے معمار نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں کبھی حصہ بھی نہیں لیا۔ ستر سال سے وہ اپنے ہی مسائل کو ڈھو رہی ہے۔ کچھ مسائل میں سپریم کورٹ اور سرکاری ایجنسیاں بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے کچھ غیر معروف جج ہیں جو یکساں سیول کوڈ کے معاملے میں حکومت میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کئی بار حکومت کو ڈانٹ چکے ہیں کہ وہ کامن سیول کوڈ پر اتنی سستی آخر کیوں برت رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے کامن سیول کوڈ کا کوئی بلیو پرنٹ یا خاکہ ابھی تک پیش نہیں کیا ہے۔ اعلانات تو کئی بار ہوئے لیکن پیش کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، اس لیے کہ بی جے پی والوں کو خوف ہے کہ اگر اس کے مندرجات میں سبھی مذاہب کی باتیں شامل کی جائیں گی تو ہندو دھرم کا کیا ہو گا؟
جس سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں
معروف دانشور اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے سابق سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کے مسلمان یکساں سیول کوڈ کے ذکر پر چیں بہ چیں ہونا چھوڑ دیں، غیر ضروری ردعمل کا اظہار بھی نہ کریں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو حسب ضرورت اپنے دلائل مضبوطی کے ساتھ پیش کرنے دیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اس موضوع پر بحث و مباحثے خصوصاً ٹی وی اور سوشل میڈیا کے مباحثوں میں حصہ بھی نہ لیں۔ تقریباً یہی باتیں ایک اور دانشور ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے بھی کہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان یونیفارم سیول کوڈ کو اپنا مسئلہ نہ بنائیں۔ یقیناً یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے، ملک کے تمام مذاہب اور سماجی اکائیاں بھی اس کی زد میں آئیں گی۔ یکساں سیول کوڈ پر مسلمانوں کے شدید رد عمل ظاہر کرنے کی حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے سلسلہ میں بہت حساس ہیں۔ دیگر مذاہب والوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کے بارے میں جب کوئی گستاخی کرتا ہے تو مسلمان فی الفور اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں جسے اخترالواسع صاحب مسلمانوں کی برہمی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کی بات سے اتفاق ہے لیکن وہ یہ بھی تو سوچیں کہ کسی اور دھرم کے لوگوں میں یہ شدت کیوں نہیں پائی جاتی؟ اس لیے کہ وہاں دھرم یا مذہب کے بارے میں سنجیدگی ہے ہی نہیں۔ مسلمانوں کے اس عمل کو جذباتیت کہا جاتا ہے اور بی جے پی اسی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
سنجیدگی برقرار کھیں
اخترالواسع صاحب اور خواجہ افتخار احمد کی یہ بات اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ عملاً ممکن نہیں ہے اور یہ ہونے والا نہیں ہے۔ خواہ بدطینت لوگ کتنا ہی شور مچائیں۔ مزاحمت کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جب وہ یونیفارم سیول کوڈ کی بات کریں تو ان سے کہا جائے کہ پہلے نمونہ پیش کریں۔ خاکہ لائیں اور بتائیں کہ کوڈ میں کیا کیا ہوگا۔ یہ بات کہ سیول کامن کوڈ کا ہنگامہ کرنے والے خود اپنے دھرم کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس کی سیکڑوں مثال ہیں جو چاروں طرف نظر آتی ہیں۔ مسلمان چونکہ اپنے دین کے بارے میں سنجیدہ اور حساس ہیں اس لیے وہ بد طینتوں کی شر انگیزیوں کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لے لیتے ہیں اور پھر اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یونیفارم سیول کوڈ کا شوشہ چھوڑنے والے کہتے ہیں کہ مجوزہ سیول کوڈ میں تمام مذاہب کی ’’اچھی‘‘ باتیں ہوں گی، گویا ہر مذہب کو اپنی کچھ باتیں حذف کرنی ہوگی تو وہ مذہب کہاں باقی رہ جائے گا اور ملاوٹی مذہب کس کے لیے قابل قبول ہوگا؟ بات بالکل درست ہے کہ یکساں سول کوڈ کے ذکر پر ناگواری ظاہر نہیں کرنا چاہیے، بولنا اسی صورت میں چاہیے جب حکومت یا لا کمیشن کی طرف سے کوئی بلیو پرنٹ سامنے آئے، اور بولنے کا حق بھی صرف منتخب نمائندوں کو ہونا چاہیے، ہر کوئی نہ بولے۔ اس کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کافی ہے۔ ہر کسی کے بولنے سے بات بگڑ جاتی ہے۔ ایک بار راجستھان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بورڈ اپنے طور پر گاوں گاوں قصبہ قصبہ جاکر مسلم خاندانوں کی صورت حال کا جائزہ لے گا۔ پریس رپورٹوں کی ایک بھیڑ تھی۔ ہال سے باہر نکل کر جس نے جو سمجھا رپورٹروں کے سامنے بیان کیا لیکن پریس نے اسے بہت بڑا مسئلہ بنا دیا۔