شرارتوں کا سلسلہ جاری
اتر پردیش اور اتر اکھنڈ میں شہریوں کے کچھ خاص طبقات کے خلاف شرارتوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ دو تین دن پہلے خبر آئی تھی کہ کمبھ میلے کی تیاریوں کے سلسلہ میں مدھیہ پردیش کے شہر اجین کو اجاڑا جا رہا ہے۔ وہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ اتر اکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں مسلمانوں کی ایک پوری بستی کو اجاڑ نے کا حکم ہائی کورٹ سے جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ بستی ہلدوانی ریلو ے لائن سے متصل ہے اور 80 سال سے آباد ہے۔ آبادی تقریباً پوری مسلم ہے۔ یہاں کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اب ہائی کورٹ نے پوری آبادی کو اجاڑ دینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ پانچ لاکھ کی پوری آبادی کو نابود کرنے کی اپیل کس نے کی ہے یا حکومت کا رول اس میں کیا ہے۔ جمعیتہ علما اس عمل کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہلدوانی کے مسلمان بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ خیال ہے کہ گجرات کو ہندوتوا کی لیبارٹری بنانے کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد بی جے پی (یعنی آرایس ایس) اب اتر پردیش اور اتر اکھنڈ میں یہ تجربہ کرنا چاہتی ہے۔ اس علاقے میں روزانہ کوئی نہ کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ ہوتا ہے جس کی خبر کبھی آجاتی ہے کبھی نہیں آتی۔
بھارت جوڑو یاترا
بھارت کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کا خواب سنگھ کا پرانا خواب ہے اور اس مقصد کے حصول کا ذریعہ سنگھ کے پاس صرف نفرت ہے۔ اگر سنگھ یا بی جے پی کے پاس ملک و عوام کی ترقی کا کوئی اور ذریعہ ہوتا تو وہ یقیناً اسے استعمال کرتی۔ ویسے ترقی کا مطلب اور مفہوم بھی اس کے پاس وہ نہیں جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے اور جس کا ذکر عوام اور اپوزیشن پارٹیاں کرتی ہیں۔ اگر اس کے نزدیک بھی ترقی کا مفہوم یہی ہوتا تو وہ سیاست کے عام طریقے استعمال کر کے اسے کبھی کا حاصل کر لیتی۔ ترقی کا مفہوم اس پارٹی کے نزدیک یہ ہے کہ ملکی معیشت کا مکمل کنٹرول ورن آشرم کے مطابق ایک مخصوص طبقے (ذات) ہاتھوں میں ہو اور سماجی نظام پر ایک دوسرے طبقے کا تسلط ہو۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے پارٹی اسی لیے حواس باختہ ہو گئی کہ اس سے نفرت کم ہو رہی ہے، جب کہ بی جے پی کا مقصد نفرت کو فروغ دینا ہے۔ راہل کے سہ نکاتی پروگرام میں سب سے اوپر ’’بھارت جوڑو‘‘ ہے جو ان کے پیدل سفر کا عنوان بھی ہے۔ راہل کے نزدیک بھارت ٹوٹ رہا ہے نفرت کی سیاست سے اس لیے بھارت کو پیار و محبت سے جوڑنا ضروری ہے۔
اہداف وسیع ہیں
یو پی اور اتر اکھنڈ میں صرف مسلم آبادی ہی زد میں نہیں بلکہ دلت طبقات اور پسماندہ سماج (او بی سی) کے کچھ حصے بھی نشانے پر ہیں۔ ان طبقات کو سنگھ صرف جھگڑے فساد میں استعمال کرنے کے لیے ہندو کہتا ہے اور ہندو آبادی میں شامل کرتا ہے، بصورت دیگر وہ اس کی اپنی ہندو آبادی سے الگ ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کرنے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی کوشش بے اثر رہی۔ آج بھی کئی دلت لیڈر اور دلت گروپ ہیں جو علانیہ اور ڈنکے کی چوٹ پر بات کہتے ہیں لیکن سنگھ کا نیٹ ورک ناکام بنا دیتا ہے۔ 1940ء کی دہائی میں یو پی میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم نے دلت برادری کو ساتھ رکھنے کی کامیاب کوشش کی تھی، مسلم مجلس میں بہت سے دلت عملاً شامل بھی ہوئے لیکن ڈاکٹر صاحب کی ناگہانی موت کے بعد وہ کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ آنجہانی وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی رپورٹ جاری کر کے سماجی انصاف کی کوششوں میں جان ڈالی تھی لیکن اڈوانی کی رام رتھ یاترا نے اس کا رخ ہی موڑ دیا۔