خبرونظر
پرواز رحمانی
کیا مد مقابل مل گیا
چھ ماہ پہلے تک کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ ڈھیلے اور سست قسم کے نوجوان لیڈر ہیں۔ سیاست ان کے بس کی بات نہیں ہے، وہ کانگریس جیسی قدیم پارٹی کو چلا نہیں سکیں گے۔ کم ظرف لوگ ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ بی جے پی والے انہیں پپو کہتے تھے۔ پرائم منسٹر مودی پر یہ سوال کیا جاتا تھا کہ ان کے بعد کون ہو گا؟ کسی کو کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا اور اس وقت عالم یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست کا کوئی موضوع راہل گاندھی کے ذکر کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ خصوصاً کرناٹک میں کانگریس کی زبردست کامیابی کے بعد راہل اور کانگریس کے تذکرے عام ہیں۔ اس سے قبل بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی نے بھی راہل کی شخصیت کو نکھارا ہے۔ اور اب راہل امریکی سفر کے بعد بین الاقوامی سطح پر یہ تذکرے عام ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس نے الیکشن ہزار رکاوٹوں کے باوجود جیتے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک تو سیمی فائنل تھا۔ فائنل آئندہ سال 2024 میں ہو گا۔ حکمراں پارٹی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس بہت فکر مند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی لوک سبھا کے انتخابات اس بار بھی ہندوتوا کے ایجنڈے پر ہی لڑے گی۔ مہاراشٹر کے مراٹھی اخبار ’’سکاڑ‘‘ میں ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ پارٹی ہندوتوا کے سہارے اب زیادہ دن نہیں چل سکتی۔ اسے اپنی حکمت عملی بدلنی ہو گی۔ کرناٹک کے الیکشن میں یہ بھی ثابت ہو چکا ہے جہاں پارٹی نے بجرنگ دل کو بجرنگ بلی بنا کر بہت زور لگایا تھا لیکن ترکیب کامیاب نہیں ہوئی۔ کرناٹک کے عوام اس فریب میں نہیں آئے۔
کرناٹک کی بات اور تھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملک میں کانگریس اور راہل گاندھی کا گراف بڑھا ہے اور لوگ 2024 کے لیے راہل کا نام بھی لے رہے ہیں لیکن 2024 کے انتخابات جیتنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ سامنے وہ پارٹی (آر ایس ایس) ہے جس نے لچھے دار باتوں کے ذریعے سیاست کا رخ موڑنے اور اپنے امیدواروں کو جتوانے کا ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ وہ پیسے والی پارٹی ہے، آج بھی پیسوں کی تھیلی سمجھی جاتی ہے۔ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے پاس ہر ہتھکنڈا اور ہر حربہ ہے۔ ایشو کو نان ایشو اور نان ایشو کو ایشو بنانا اسے خوب آتا ہے۔ 2024 کی کوششیں بھی اس نے ابھی سے شروع کر رکھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مبصر نے زور دے کر کہا کہ ہماچل پردیش اور کرناٹک وہ جان بوجھ کر ہاری ہے تاکہ 2024 میں جب وہ ای وی ایم کا اپنے منشا کے مطابق استعمال کرے تو کسی کو شک نہ ہو۔ آخر اسے الیکشن جیتنے اور ہارنے کا تجربہ ایک سو سال کا ہے، پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ 2024 میں ہار جائے گی۔ پورا ملک تو کرناٹک نہیں ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ کرناٹک میں بی جے پی نے سنجیدگی سے مقابلہ کیا تھا اور وہاں بھی وہی حربے استعمال کیے تھے جس کے لیے وہ مشہور ہے لیکن وہاں اس کا کوئی حربہ کار گر ثابت نہیں ہوا۔ باقی ملک بالخصوص شمالی ہند میں اس کا راستہ بہت آسان ہے جہاں رائے دہندگان کا مزاج کرناٹک کے رائے دہندوں جیسا نہیں ہے۔
حربوں اور ہتھکنڈوں کو سمجھیں
2024 کے مقابلے کے لیے اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو بی جے پی کے تمام حربوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ لوک سبھا سے پہلے پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں جن میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کی حکمت عملی کیا ہوگی معلوم نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مفروضہ خیال کے مطابق کرناٹک کی طرح وہ ان تین ریاستوں کو بھی اپنی حکمت عملی کے تحت چھوڑ دے۔ ویسے بھی ان تینوں ریاستوں میں پارٹی کی حالت بہت دگرگوں ہے۔ 2024 پر اس کی خاص توجہ ہو گی۔ اس کا ارادہ فی الحال اقتدار چھوڑنے کا نہیں ہے، وہ ہر قیمت پر اس سے چمٹے رہنا چاہتی ہے۔ ہر چند کہ اپوزیشن پارٹیوں نے ای وی ایم کو ایشو نہیں بنایا ہے لیکن یہ بہرحال ایشو ہے اور بی جے پی کا بہت بڑا سہارا ہے۔ یہ خبریں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ پارٹی مسلمانوں کو اپنے سے قریب کرنا چاہتی ہے لیکن بہت سے مبصر یہ کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ ہندوتوا بی جے پی کا خصوصی ہتھیار ہے۔ رام مندر نے اسے مزید پختہ کر دیا ہے، اس لیے ہندوتوا یعنی مسلم مخالف طرز عمل ترک کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے اور پھر مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کی بات صرف میڈیا میں ہی سنی جا رہی ہے، بی جے پی نے اس کا کوئی عملی مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ آر ایس ایس کے موہن بھاگوت نے بھی ایک دو بیانات میں اس کا ذکر کیا تھا لیکن عملی کام کوئی نہیں کیا۔ یو پی میں پارٹی کا ایجنڈا یہی ہے۔ حال ہی میں کولہا پور میں اس کا نمونہ دیکھنے کو ملا۔