خبر ونظر
پرواز رحمانی
پہلوان لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوا
دلی کے تاریخی مقام جنتر منتر پر پہلوان لڑکیوں نے ایک دھرنا دے رکھا تھا۔ ان کے کچھ مطالبات تھے لیکن مرکزی حکومت ان پر توجہ نہیں دے رہی تھی۔ اسی دوران پارلیمنٹ کی نئی عمارت بن کر تیار ہو گئی۔ لڑکیوں نے فیصلہ کیا اس کے افتتاح کے موقع پر نئی پارلیمنٹ کے قریب اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے پنچایت کریں گی جس میں بڑی تعداد میں ان کے حمایتی بھی شریک ہوں گے۔ افتتاح 28 مئی کو ہونے والا تھا۔ لیکن دلی پولیس نے 27 مئی کی رات ہی سے انہیں اجاڑنے کا کام شروع کر دیا۔ صبح تک ان کے تمبو اور خیمے توڑ دیے۔ چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی کردیں تاکہ کوئی باہر نکل سکے یعنی پارلیمنٹ کے قریب نہ جا سکے۔ لڑکیوں نے خود کو پولیس سے چھڑانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں زد وکوب کیا، کئی لڑکیوں کو چوٹیں آئیں۔ بہت برا منظر تھا۔ ایک طرف تو وزیر اعظم نئی پارلیمنٹ کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کی پولیس دیش کی بیٹیوں کو ڈنڈوں سے پیٹ رہی تھی۔ بہرحال پولیس نے پہلوان لڑکیوں کا دھرنا اجاڑ کر انہیں زبردستی گھروں کو بھیج دیا اور وزیر اعظم اور ان کے حمایتی نئی پارلیمنٹ کی خوشیوں میں مصروف ہوگئے۔ لڑکیوں نے اعلان کیا کہ ان کا احتجاج ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جاری رہے گا۔
لڑکیوں کی شکایات
یہ لڑکیاں اپنے اعزازات (میڈل) احتجاجاً گنگا ندی میں بہانا چاہتی تھیں لیکن کسان لیڈر نریش ٹکیت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا کہ ابھی یہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے حکومت کو پانچ دن کا وقت دیا ہے اور کہا کہ اگر مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو بہت بڑا آندولن چھیڑ دیا جائے گا۔ اس دوران ان الزامات کی مزید تفصیلات بھی عام ہوگئیں ہیں جو لڑکیوں نے کشتی سنگھ کے صدر برج بھوشن ایم پی پر لگائے ہیں۔ سب سے بڑا الزام جنسی استحصال کا ہے۔ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ برج بھوشن نے ان کے ساتھ انتہائی فحش حرکات کی تھیں اس لیے اس کی گرفتاری ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے کہنے پر ایف آئی آر تو درج کرلی گئی مگر پولیس نے ابھی تک اسے گرفتار نہیں کیا ہے۔ دلی کی پولیس مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ جنتر منتر کا دھرنا دن بہ دن مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔ پورے ملک میں اس کے اثرات پھیل گئے تھے۔ ملک سے باہر بھی خبریں جا چکی تھیں۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی آج کل امریکہ کے نجی دورے پر ہیں۔ مرکزی حکومت اور اس کے افسران ملزم کے ساتھ ہیں اور اسے بچانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈر بھی اس کے دفاع میں بیانات دے رہے ہیں۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کئی بار بول چکی ہیں۔
ملزم آزاد ہے
پہلوان لڑکیوں کا یہ واقعہ بھارت کی تاریخ کا سنگین ترین واقعہ ہے۔ حکومت سمجھ رہی تھی کہ اس واقعہ کو بھی اسی طرح دبا دے گی جس طرح گجرات کے فسادات پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو دبا دیا تھا (حالانکہ وہ دبی نہیں ہے) یا سیٹھ اڈانی کی مال پوشی کو گھما دیا ہے جب کہ وہ واقعہ بھی زندہ ہے۔ مگر لڑکیوں کے واقعہ کو عوام و خواص کی طرف سے خوب حمایت ملنے لگی۔ اگر حکومت نئی پارلیمنٹ کے قریب پنچایت کرنے دیتی تو پارلیمنٹ کے جشن سے زیادہ اس پنچایت میں لوگ جمع ہوتے۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ حکومت ایک بدکار ایم پی ایم کو آخر کیوں بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا اس کے پاس حکومت کے کچھ راز ہیں؟ ان لڑکیوں سے ملنے مسلم خواتین بھی جا رہی تھیں جس سے انہیں حوصلہ مل رہا تھا۔ شاہین باغ کے دھرنے کے بعد مسلم خواتین بھی میڈیا میں آنے لگی ہیں۔ ابھی نہیں معلوم کہ ان پہلوان لڑکیوں کے معاملے میں کیا ہوگا، تاہم حکومت کی غلط کاریوں کی فہرست میں ایک اور غلط کاری کا اضافہ ہوگیا ہے ۔ ملزم برج بھوشن چاروں ہاتھ پاوں سے آزاد ہے اور یو پی میں ریلیاں کر رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی تقریب میں بھی پوری شان کے ساتھ موجود تھا۔