خبر و نظر

پرواز رحمانی

کرناٹک
سال 2023 اور 2024 ہندوستان میں انتخابات کے سال ہیں- اس سال چھ سات ریاستوں میں انتخابات ہوں گے جن کے لیے تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں سرگرم ہیں۔ آئندہ سال لوک سبھا کے انتخابات ہوں گے۔ اس سال جن ریاستوں میں انتخابات ہوں گے ان میں سب سے زیادہ شور کرناٹک کا ہے۔ تاریخ بھی بالکل قریب ہے۔ 10 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 13 مئی کو نتائج آجائیں گے۔ اصل مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہے۔ اول الذکر نے کسی طرح وہاں حکومت بنا رکھی ہے جسے وہ ہر قیمت پر بچانا چاہتی ہے۔ کانگریس ازسر نو کھڑی ہوئی ہے اور عام اطلاعات کے مطابق بہت مضبوطی کے ساتھ اٹھی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی بدحواس ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کا کھیل بگاڑنے کے لیے سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی جنتا دل سیکولر بھی ہاتھ پاوں مار رہی ہے۔ اگر دونوں بڑی پارٹیوں میں سے کسی کو اپنے بل بوتے پر خاطر خواہ نشستیں نہیں ملیں تو کوئی پارٹی جنتادل ایس کی مدد سے حکومت بنالے گی۔ جنتا دل کو نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ کسی بھی پارٹی سے ہاتھ ملا سکتی ہے۔

مبصرین بتاتے ہیں
مبصرین بتاتے ہیں کہ کرناٹک کا الیکشن بی جے پی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ کرناٹک میں کامیابی پر ہی 2024 کی کامیابی کا دار و مدار ہے اس لیے پارٹی نے اپنی بھرپور قوت وہاں جھونک رکھی ہے۔ وہ فرقہ واریت اور مسلم کشی کے وہی حربے استعمال کر رہی ہے جو یو پی میں کرتی رہی ہے۔ کرناٹک میں کچھ نئے شوشے بھی اس کے پاس ہیں۔ حجاب، مسلم ریزرویشن اور ٹیپو سلطان وغیرہ۔ ایک صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی لیڈروں کے یہ رنگ ڈھنگ اور ان کی یہ چھچھوری باتیں دیکھ کر ہی سوشل میڈیا والے کہہ رہے ہیں کہ وہ بری طرح ہار رہی ہے۔ 2014 میں یہ پارٹی بڑے تام جھام کے ساتھ آئی تھی۔ ابتدائی دو تین برسوں میں اس کی خوب ہوا بندھی۔ کرائے کا میڈیا یہ ہوا آج بھی باندھ رہا ہے۔ لیکن ہوا باندھنے والے میڈیا کے اور دوسرے لوگ وہی ہیں جو پہلے دن سے آر ایس ایس کے ساتھ ہیں، بصورت دیگر وہ جادو تیزی کے ساتھ اتر رہا ہے جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اڈانی کے ساتھ غیر معمولی دوستی، ہنڈنبرگ رپورٹ اور پلواما معاملے میں نیا جوش، بڑے بڑے اور خوش کن وعدوں سے بے وفائی نے پرائم منسٹر کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔

کیا کوئی پوشیدہ حربہ بھی ہے
گائے کے تحفظ کے نام پر خوں ریزی، حجاب کے خلاف نفرت کا ماحول، کسانوں کے ساتھ کھلواڑ اور دلت برادریوں پر مظالم جیسے بہت سے مسائل ہیں جن سے شہریوں کی اکثریت سخت نالاں ہے اور اب بولنے بھی لگی ہے۔ کرناٹک کہنے کو ایک ریاست کا الیکشن ہے لیکن عوام میں 2024 پر کھل کر بات ہونے لگی ہے۔ ملک کے عوام تو اسے اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ الیکشن حکمراں پارٹی کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہے۔ اپنے آزمودہ حربوں کے علاوہ پارٹی کسی ایسے حربے پر بھی یقیناً غور کر رہی ہوگی جو اسے سرخ رو کر سکے۔ پارٹی منجھے ہوئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ ہتھکنڈے آزمانے میں اس کا مقابلہ کوئی پارٹی نہیں کرسکتی۔ سوشل میڈیا پر تجربے کار مبصر کہہ رہے ہیں کہ کرناٹک میں بی جے پی کی حالت خراب تو پہلے سے تھی مگر اب شاہ اور شہنشاہ نے اپنے کچھ بیانات اور اعلانات سے صورت حال اس قدر بگاڑ دی ہے کہ اس بار اس کا کوئی حربہ کام نہیں کر سکے گا۔ نقشہ تو 13 مئی کی دوپہر تک ہی واضح ہو سکے گا۔ کرناٹک کے حالات ہر گھنٹہ بدل رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈروں اور ان کے میڈیا نے ووٹروں کو کنفیوز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔