خبرونظر

پرواز رحمانی

مجلس اتحاد المسلمین
بہار میں رام نومی کے موقع پر فرقہ وارانہ تشدد، جیسا کہ کئی سال سے ہر بار ہوتا ہے، اس بار سہسرام اور بہار شریف میں تشدد زیادہ سخت تھا لیکن حکومت نے جلد قابو پالیا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ تشدد کے لیے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ذمہ دار ہیں۔ اس پر وزیر اعلیٰ کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہہ دیا کہ مجلس کے صدر بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ اویسی صاحب کو کچھ اور سیاست داں بھی بی جے پی کے طرفدار بتاتے ہیں۔ نتیش بابو نے تو انہیں اس لیے کہہ دیا کہ انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات میں اپنے امیدوار اتارے تھے جن میں سے پانچ کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ بعد میں 4 ارکان آر جے ڈی میں چلے گئے۔ اویسی مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا کام کرلیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اتحاد المسلمین کا مقصد بی جے پی مخالف ووٹوں کو منتشر کرکے بی جے پی کو فائدہ پہچانا ہے۔ بہار میں مجلس نے اپنے پانچوں امیدوار جتوائے بھی بہت سے ووٹوں کو منتشر بھی کیا۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجلس ہر جگہ یہی کرتی ہے۔

وہ کیا چاہتے ہیں
اسدالدین اویسی کا قصہ یہ ہے کہ مئی 2014 میں جب بی جے پی برسر اقتدار آئی تو انہوں نے ایک تیز و تند بیان دیا۔ کہا کہ اب مسلمانوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آجانا چاہیے۔ حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ ایک متحدہ مسلم پارٹی بنا کر تمام مسلم رائے دہندگان کو اس کے پرچم تلے کام کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک میٹنگ میں تمام سرکردہ مسلم رہنماوں کو مدعو کیا۔ اس پر یہ سوال بھی ذہنوں میں آیا کہ کیا مسلم قائدین اس پوزیشن میں ہیں کہ واحد متحدہ محاذ قائم کر سکیں۔ میٹنگ میں اگر لوگ شریک بھی ہو جائیں تو ان کا طرز عمل کیا ہوگا۔ سر جوڑ کر بیٹھیں گے یا ایک دوسرے کے سامنے سینے تان کر بیٹھیں گے۔ معلوم نہیں اس میٹنگ کا کیا ہوا۔ مگر اس بیان کے فوراً بعد ہی اویسی صاحب نے مجلس اتحاد المسلمین کو پورے ملک میں سیاسی پارٹی کے طور پر پھیلانا شروع کر دیا۔ کئی ریاستوں میں وہ کام بھی کر رہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مجلس نے جہاں الیکشن میں حصہ لیا وہاں مسلم رائے دہندگان کو منتشر کیا یعنی بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔ وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ کہنے والے کچھ بھی کہیں ہم کسی کے ایجنٹ نہیں اپنا کام کرتے رہیں گے۔

یہ بھی کرکے دیکھ لیں
ہاں یہ واقعہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور عمومی جمہوری اور سیکولر سیاسی قدروں کے مقابلہ میں انتہا پسند سیاسی لوگ مضبوط ہوئے لیکن محض اس کی بنیاد پر اویسی صاحب کو کسی مخصوص پارٹی کا ایجنٹ کہنا مناسب نہیں وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ اسی کو مسلمانوں کے حق میں نیک نیتی کے ساتھ درست سمجھ رہے ہوں۔ جیسا کہ وہ خود بھی کہتے ہیں۔ لیکن بہتر ہوگا کہ وہ اپنا موجودہ طریقہ ترک کردیں اور مسلم جماعتوں، پارٹیوں اور رہنماوں کے ساتھ ازسر نو بیٹھ کر حالات کا نئے سرے سے جائزہ لیں۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ قانون جانتے ہیں ملکی آئین و قانون کا ادراک رکھنے والے افراد پارلیمنٹ میں چند ایک ہی ہیں۔ ملک کے حالات غیر یقینی ہیں۔ اگر وہ تعلیم یافتہ اور اہل فکر مسلم افراد کے ساتھ یہ تجربہ کریں تو امید ہے کہ پہلے سے زیادہ کامیاب ہوں گے۔ غیر سیاسی مسلمان بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ غیر مسلموں میں سے بھی انہیں بہت سے لوگ مل جائیں۔ یہ صرف ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ ملک کی بھی بہت بڑی خدمت ہو گی۔