خبرونظر

پرواز رحمانی

باہر سے کچھ مبارک خبریں

بیرون ملک بالخصوص یورپ سے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بڑی مبارک خبریں آئی ہیں۔ ایک رپورٹ یہ ہے کہ لندن میں برطانیہ کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاوننگ اسٹریٹ پر روزہ افطار کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی ملکوں کے سفیروں سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ سرکردہ مسلمانوں کو بکثرت مدعو کیا گیا تھا۔ افطار اور طعام کا نظم دفتر خارجہ کے لنکاسٹر ہاوس میں تھا۔ مصر کے جامعۃ الازہر کے امام شیخ ہانی سعد محمود بھی اس میں شریک تھے۔ دونوں مقامات پر اذان اور نماز کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس سے قبل تلاوت کلام پاک کا روح پرور منظر بھی دیکھنے کو ملا۔ اس تقریب افطار اجتماعی کو تاریخی پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔ دوسری خبر اسکاٹ لینڈ میں سربراہ مملکت کی رہائش گا پر نماز باجماعت سے متعلق ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں پاکستان نژاد حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر منتخب کیا گیا ہے۔ اب وہ کونکولا اسٹرجن کی جگہ سربراہ مملکت ہوں گے۔ اسکاٹ لینڈ کے فرماں رواں یعنی بادشاہ مملکت کی منظوری کے بعد یہ تقریب حمزہ یوسف کے مکان پر منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں میں اذان دی گئی جس کے بعد نماز با جماعت ادا کی گئی۔

تیسری خبر برلن سے ہے

تیسری خبر برلن سے آئی ہے۔ ایک سرکاری مکتوب کے مطابق جرمنی کی مسلم خواتین نے حجاب کا مقدمہ جیت لیا ہے۔ وزارت تعلیم نے اسکولوں کے پرنسپلوں کو ایک مکتوب بھیجا ہے جس میں کہا گیا کہ خواتین ٹیچرس ہیڈ اسکارف یا کوئی بھی مذہبی علامت استعمال کرنے میں آزاد ہیں۔ یہ اطلاع خود جرمن حکام نے دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلم خواتین نے وفاقی آئینی عدالت میں حکومت کے خلاف جو مقدمہ دائر کیا تھا وہ انہوں نے جیت لیا ہے۔ اب انہیں اسکارف یا حجاب استعمال کرنے کی پوری آزادی ہے۔ برلن میں ایک قانون کے تحت 2005 میں مسلم خواتین کو حجاب یا ہیڈ اسکارف استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس دوران کئی عدالتوں نے اپنے مختلف فیصلوں میں اس قانون کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ تین سال قبل فیڈرل لیبر کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ برلن میں مسلم ٹیچرز کے حجاب پر پابندی نہیں ہوگی لیکن برلن انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف شکایت درج کرائی تھی البتہ آئینی عدالت نے شکایت قبول نہیں کی اور مسلم خواتین معلمات کو حجاب کے استعمال کی اجازت دے کر گویا برلن کی شکایت مسترد کردی۔

ایک خیال خام کا فروغ

ہمارے ملک میں آج کل ایک خیال یہ پیدا کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی طرح پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت پائی جاتی ہے لیکن یہ خیال انتہائی غلط اور بے بنیاد ہے۔ کچھ ملکوں میں کچھ لوگ ہوں گے جو کسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولتے ہوں گے ورنہ انسانوں کی اکثریت غیر جانب دار ہے۔ بعض بڑے ملکوں میں اسلام کے حق میں رائے بھی پائی جاتی ہے، جس کا ایک واضح نمونہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور جرمنی میں دیکھا گیا۔ لنکاسٹر ہاوس تقریب میں برطانوی وزیر خارجہ مکی ہیڈونوچ اور بزنس منسٹر لارڈ جانسن نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے حاضرین کو رمضان کی مبارکباد دی اور برطانیہ میں مسلم برادری کی تحسین کی۔ وزیروں نے دنیا میں لندن کو اسلامی مالیات کا مرکز بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام سلامتی کا دین ہے اور مسلمانوں نے برطانیہ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ دراصل انڈیا میں کچھ لوگ جی توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ باور کرادیا جائے کے یہاں کے سبھی شہری اور بیرونی دنیا میں بیشتر لوگ اسلام کے خلاف ہیں تاکہ وہ ڈر جائیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں لیکن دراصل یہ ان کی خام خیالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور مسلمانوں کے عام اخلاق سے دنیا ہمیشہ سے متاثر رہی ہے اور یہ اسی کا اثر ہے ورنہ مخالفین کے پروپیگنڈوں میں کچھ بھی سچائی ہوتی تو آج دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی اتنی عزت نہ ہوتی۔