خبرونظ

پرواز رحمانی

یو پی حکومت کی ایک اور بے انصافی
اتر پردیش کی حکومت نے اپنے طرز کا ایک اور کام کیا ہے۔ اقلیتی طبقات کے طلبا کو ملنے والی پری میٹرک اسکالر شپ بند کردی ہے۔ ادھر مرکزی حکومت نے مسلم طلبا کی مولانا آزاد فیلو شپ اسکیم بھی بند کر دی ہے۔ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے ان اقدامات سے اقلیتی طبقات بہت ناراض ہیں اور حکومت سے یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 15 دسمبر کو کانگریس کے اقلیتی سل نے اعظم گڑھ میں اس کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی حکومت کے یہ اقدامات اس کی سوچی سمجھی اور طے شدہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ 2013 میں جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کی صورت گری آل انڈیا لیڈر کے طور پر کی جا رہی تھی اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت لانے کا شور برپا تھا تو مسلمانوں کے تعلق سے اس کی پالیسی یہ نہیں تھی جو اب ہے۔ اس شور میں پارٹی مسلم شہریوں کو ساتھ رکھنے کی بات بھی کرتی تھی۔ حتی کہ 2014 میں جب پارٹی نے لوک سبھا الیکشن کے لیے انتخابی منشور تیار کیا تو مسلمانوں کے لیے بھی ایک پروگرام تیار کیا تھا۔ دونوں کو ایک ساتھ ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر مقررہ تاریخ کے آتے آتے پارٹی کا پروگرام بدل گیا۔ اس تاریخ کو پارٹی نے صرف اپنا منشور ریلیز کیا، مسلمانوں کا پروگرام پہلے ملتوی کر دیا اور بعد میں منسوخ، جس کا بعد میں ذکر بھی نہیں ہوا۔

برسر اقتدار آنے کے بعد
برسر اقتدار آنے کے بعد پارٹی کا رخ بالکل بدل گیا۔ اس نے یہ انتخابات مسلمانوں کی حمایت کے بغیر جیتے تھے۔ جس کا پروپیگنڈا اس نے اپنے حمایتیوں میں خوب کیا اور انہیں بتایا کہ انتخابات مسلمانوں کی حمایت کے بغیر بھی جیتے جاسکتے ہیں۔ پھر گوشت خوری کے نام پر ادھم مچایا گیا۔ اور دیگر مسائل پیدا کیے جانے لگے۔ مگر اس دوران آر ایس ایس کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس کے سر سنگھ چالک نے نئی دلی کے وگیان بھون میں لگاتار تین دن بھاشن دیے، بہت سی بدلی بدلی باتیں کہیں، مسلمانوں کے سلسلہ میں بھی کچھ غیر معمولی مثبت باتیں کہیں جن سے عام مبصرین کہنے لگے کہ سنگھ کے اندر اب بدلاو آرہا ہے۔ لیکن اس بھاشن کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بھاگوت نے ایک بیان میں مرکزی حکومت کو مشورہ دیا کہ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی ہونی چاہیے یا بل پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ہی رام مندر کی تعمیر کا غوغا بلند ہوا اور جارح ہندوتوا کے تذکرے ہونے لگے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ بی جے پی یا آر ایس ایس کے پاس نفرت اور شہریوں میں تفرقہ بازی کی سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

قوموں کی تاریخ
الغرض آر ایس ایس یا بی جے پی نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ اسے عوام کی حمایت صرف نوٹ اور تخریب کاری کی سیاست پر مل سکتی ہے چنانچہ اب وہ اسی فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ اس کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں ہر روز کوئی نہ کوئی شوشہ مسلم شہروں کے خلاف چھوڑتی رہتی ہیں۔ اس کی یہ پالیسی کب تک رہے گی، نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی لیڈرشپ سے کوئی پوچھے کہ اگر آپ دس بیس سال یا پچاس سال یا سو سال بھی اس منفی پالیسی پر قائم رہ گئے تو اس کے بعد کا ہو گا۔ تبدیلی تو بہرحال آنی ہے۔ قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ظلم، بے انصافی اور تخریب کاری پر عامل قوموں کو کبھی دوام نصیب نہیں ہوا۔ آج اگر کسی قوم کو لوگ جانتے بھی ہیں تو نفرت اور بیزاری کے ساتھ اس کا نام لیتے ہیں۔ پھر آپ زندہ اور تادیر قائم رہنے کی سند کہاں سے لائے ہیں اور کس سے؟ مسلمان اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتے رہیں کہ وہ اس برائی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اگر کچھ حکمرانوں نے کبھی ظلم کیا بھی تو وہ جلد ہی کیفر کردار تک پہنچ گئے۔ نیک کام کرنے والی قومیں تاریخ میں اب بھی زندہ ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اپنی یہ تاریخ فراموش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے قائم رکھ کر بروئے کار لانا چاہیے۔ قوموں کی تاریخ بدلتی رہتی ہے۔ کوئی ظالم اور بے انصاف قوم تا دیر باقی رہی نہ رہ سکتی ہے۔