خبر کیا ہے؟ کس خبر پر بھروسہ کیا جائے؟

آج کے دور میں ہر شخص گویا خبروں کا تخلیق کار بنا ہوا ہے، ادھر سے کوئی چیز معلوم ہوئی کہ ادھر اسمارٹ فون اٹھایا اور خبر بنا دی، کوئی نرالی چیز دیکھی تو ویڈیو بنا دیا اور اسے فیس بک، انسٹاگرام یا کوئی اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا۔ جب سے یہ سماجی رابطے کی ایپس بنی ہیں تب سے خبروں کو پیش کرنا صرف صحافیوں کا کام نہیں رہ گیا ہے، ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو خبروں پر صحافیوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے۔

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

خبر کسے کہتے ہیں؟ ہم روزانہ مختلف خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید خبروں کے بارے میں جاننے کی ہمیں جستجو بھی رہتی ہے۔ خبریں تخلیق کرنے والے، دیکھنے اور سننے والے اور خبروں پر تبصرے کرنے والے ان سب کے سامنے سوال ہے کہ خبر آخر کہتے کسے ہیں؟ کچھ لوگ ہیں جو خبریں بنانے والے ہوتے ہیں، وہ سیاست داں ہو سکتے ہیں، صنعت کار ہو سکتے ہیں یا اہم شخصیات ہوسکتی ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ ایسی کیا بات کریں جس سے کہ خبر بنے، ہماری کونسی بات سے لوگوں میں سنسنی پیدا ہو سکتی ہے۔ پولیس محکمہ کے افسران بھی اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیں کہ کونسی بات کہنے یا چھپانے سے خبر بنتی ہے۔
ایک عام سی بات کو بڑی خبر میں تبدیل کر دینا بھی بہت بڑا ہنر ہے۔ اس ہنر سے ہمارے ملک کے سیاسی قائدین بہت اچھی طرح واقف ہیں، اپنی باتوں کو سنسنی خیز خبر بنا کر پیش کرنے کا ہنر کوئی ہمارے ملک کے سیاست دانوں سے سیکھے۔ ایک دور تھا جب صحافی حضرات خبروں کو ترتیب دیتے تھے، لیکن آج دور بدل گیا ہے، آج کے اس ٹکنالوجی سے لیس دور میں قارئین بھی خبروں کو بنانے لگ گئے ہیں، ایک سامع بھی خبروں کی تخلیق کرنے لگا ہے اور ناظرین بھی خبروں کے تخلیق کار ہو گئے ہیں، آج کے دور میں ہر شخص گویا خبروں کا تخلیق کار بنا ہوا ہے، ادھر سے کوئی چیز معلوم ہوئی کہ ادھر اسمارٹ فون اٹھایا اور خبر بنا دی، کوئی نرالی چیز دیکھی تو ویڈیو بنا دیا اور اسے فیس بک، انسٹاگرام یا کوئی اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا۔ جب سے یہ سماجی رابطے کی ایپس بنی ہیں تب سے خبروں کو پیش کرنا صرف صحافیوں کا کام نہیں رہ گیا ہے، ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو خبروں پر صحافیوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے۔ آج ایک عام آدمی بھی خبروں کا خالق ہو سکتا ہے، انہیں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اور اس کام کے لیے اسے کسی سند کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ان خبروں کی صداقت کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، جو خبریں کسی عام ذریعے سے آتی ہیں ان کی صداقت پر یقین کرنا مشکل ہے، اس کے برعکس اگر خبریں کسی اخبار یا کسی ٹی وی پر پیش کی جارہی ہوں تو ان پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی خبر کو اخبار یا ٹی وی کے ذریعہ پھیلانا ہو تو پہلے صداقت کی سند حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، خبر کو سب سے پہلے تراشا جاتا ہے پھر کسی نہ کسی حد تک خبر کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہے، خبروں کی اس تراش خراش کو صحافتی زبان میں گیٹ کیپنگ کہا جاتا ہے۔ صحافتی دنیا میں سب سے پہلے کرٹ کلیون نامی شخص نے گیٹ کیپنگ کے تصور کو پیش کیا ہے۔ خبروں کی صداقت کو جانچنے کے لیے مدیر یا ایک خبر رساں کی شکل میں ایک نگران کار ہوتا ہے جو خبروں کی جانچ کرتا ہے۔ لیکن جمہوری ماحول میں خبروں کی اس طرح کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ جہاں ہر کوئی اطلاعات فراہم کر سکتا ہو وہاں کونسی اطلاع صحیح ہے، کونسی اطلاع غلط ہے، کس خبر میں سچائی ہے، کونسی خبر جھوٹ پر مبنی ہے، ان کو ممیز کرنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے۔ کون سی خبر سچائی پر مبنی ہے اس کو جاننے کے لیے ہی لوگوں میں جستجو پیدا ہوتی ہے، یہی وہ سوال ہے جو لوگوں میں تجسس پیدا کرتا ہے۔
سب سے پہلے خبر کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ ہر اطلاع خبر نہیں ہوتی، مثال کے طور ہندوستان کا دارالحکومت دہلی ہے، یہ اطلاع خبر نہیں ہے، یہ صرف معلومات ہیں، اس کو خبر کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، پھر اسی طرح ہر خبر قابل نشر بھی نہیں ہوتی ہے۔ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں اطلاعات خبر رساں اداروں کو موصول ہوتے ہیں، لیکن ان میں چند ہی خبریں بنتی ہیں، اگر ہر اطلاع نشر کی جانے لگے تو ہر روز ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز چوبیس گھنٹے پروگرامس نشر کرتے رہتے ہیں، کہاں سو منٹ میں سو خبریں؟ گویا یہ خبریں نہیں، خبروں کا کوئی بازار لگا ہے جہاں لوگ اشیائے ضروریہ خریدنے آئے ہیں، اسی لیے ٹی وی چینلوں کا اعتبار داؤ پر لگا ہوا ہے، کیوں کہ اس طرح کے رویہ سے خبروں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، لوگ اہم خبروں کو بھی معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آپ لوگوں نے کئی بار سنا ہو گا کہ کتے نے آدمی کو کاٹ لیا ہے، تو یہ کوئی خبر نہیں ہے۔ وہیں اگر کسی آدمی نے کتے کو کاٹ لیا تو یہ خبر ہے، کیوں کہ کتے کا کاٹنا ایک عام بات ہے، اس لیے یہ خبر نہیں بن سکتی، خبر اس وقت ہوگی جب وہ غیر معمولی ہو مثلا جب کتے کے کاٹنے سے آدمی فوت ہو جائے۔ بد قسمتی سے آج کے دور میں محض کتے کے کاٹنے کو ہی خبر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اگر کسی آدمی نے کتے کو کاٹ لیا تو یہ ایک غیر معمولی بات ہے اسی لیے اس کا خبر بننا لازمی ہے، پھر وہ کتا آدمی کے کاٹنے سے مرے یا نہ مرے، بہر حال یہ خبر ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو اطلاع آپ کے قریب کی ہو چاہے وہ آپ کے جذبات و احساسات کی قربت کی وجہ سے ہو یا آپ کے طبعی قربت کی وجہ سے، وہ اطلاع خبر بنتی ہے، مثال کے طور پر سوڈان میں غیر معمولی حالات رونما ہوئے ہیں، لوگ مر رہے ہیں لیکن یہ اطلاع ہمیں لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہے، لیکن جب سوڈان میں بہت سے ہندوستانی پھنسے ہوئے ہیں جن میں ہمارے اقربا بھی شامل ہیں تو یہ ہمارے لیے خبر کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں جہاں بھی کچھ غیر معمولی واقعہ پیش آتا ہے جہاں ہمارے لوگ رہتے ہوں تو وہ خبر بنتی ہے، اسی طرح اگر حیدرآباد میں کوئی سڑک حادثہ ہوتا ہے تو ہمارے لیے یہ خبر بہت اہمیت رکھتی ہے، وہیں اگر لندن میں کوئی سڑک حادثہ ہوتا ہے تو یہ ہمارے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی ناگہانی صورت حال مکہ و مدینہ میں پیش آتی ہے تو یہ خبر ہمارے لیے تشویش کا باعث بنتی ہے، وہیں اگر اسی قسم کی ناگہانی صورت حال کسی اور شہر میں پیش آتی ہے تو اس پر ہمارا احساس وہ نہیں ہوتا جس طرح کا مکہ و مدینہ میں پیش آنے والے واقعہ پر ہوتا ہے، کیوں کہ ان جگہوں سے ہمارا جذباتی لگاؤ ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ کوئی بھی اہم اطلاع، کوئی بھی خاص اطلاع خبر بن سکتی ہے، مثال کے طور پر وزیر اعظم کی نوٹ بندی کی اطلاع ایک اہم بات تھی اس لیے وہ خبر بن گئی، کیوں کہ یہ اطلاع ایک اہم ترین شخصیت نے دی تھی اس لیے یہ خبر بن گئی۔ من کی بات خبر بنتی ہے، اس لیے کہ اسے ایک اہم شخصیت نے پیش کیا، اگر کم جونگ ان اپنے من کی بات پیش کرے گا تو وہ ہمارے لیے خبر نہیں ہوگی۔
چوتھی چیز تنازعہ یا جھگڑا وغیرہ بھی خبر بن سکتے ہیں، دونوں سیاسی پارٹیوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں خبر بنتی ہیں، دونوں لیڈروں کی ایک دوسرے کو گالیاں خبریں بنتی ہیں، کھلاڑیوں کی آپس میں لڑائی خبر بنتی ہے۔ اہم چیزوں کا تنازعہ خبر بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تازہ ترین معلومات بھی خبریں بنتی ہیں، ٹکنالوجی کے دور میں کل کی بات چاہے وہ کتنی ہی اہم ہو خبر نہیں بن سکتی، جو اطلاع تازہ ہوگی وہی خبر بنے گی۔ پہلے اخبارات ہوا کرتے تھے ایک دن پہلے گزرا ہوا واقعہ بھی خبر بن جاتا تھا کیوں کہ وہ واقعہ عوام کے لیے نیا ہوتا تھا، لیکن آج دس منٹ قبل کا واقعہ خبر بن رہا ہے، دس منٹ تو پھر بھی زیادہ وقت ہے، ابھی جاری رہنے والا واقعہ ہی خبر بن رہا ہے۔ خبر رسانی کی کیفیت میں مستقل تبدیلی واقع ہو رہی ہے، خبر رسانی ہمہ وقت تغیر پذیر ہے، تازہ ترین معلومات ہی خبر کا درجہ رکھتی ہیں، گزرے ہوئے واقعات خبر کا درجہ نہیں رکھتے، اور اس دور میں خبروں کا روایتی انداز ختم ہو چکا ہے، اب ہر کوئی خبر رساں بنا ہوا ہے، اسی لیے اطلاع کی صداقت پر بھروسہ کرنا انتہائی مشکل کام بن چکا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023