کیرالا کی کہانی :ہادیہ کا نکاح ثانی
’’میں اب بھی عقیدت مند مسلمان ہوں‘‘۔ والد پر زندگی اجیرن بنا دینے کا الزام
سید خلیق احمد / سمیع احمد
ڈاکٹر ہادیہ عرف عقیلہ جو ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں، ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا اس وقت ان کی طرف متوجہ ہوا تھا جب انہوں نے تمل ناڈو کے ضلع کوئمبتور میں طبی تعلیم حاصل کرنے کے دوران اسلام قبول کیا تھا اور 2016 میں ایک مسلمان نوجوان شفین جہاں سے شادی کی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔
اب انہوں نے ایک بار پھر میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ اس بار انہوں نے شفین جہاں سے طلاق لے کر دوسری شادی کر لی ہے۔ طلاق کی صحیح وجوہات فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکیں تاہم، انہوں نے کہا کہ ان کی شادی شدہ زندگی اپنے سابق شوہر کے ساتھ ٹھیک نہیں چل رہی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو ترک نہیں کیا ہے اور ایک مسلمان مرد ہی سے دوبارہ شادی کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے نئے شوہر کی حفاظت کے لیے ملاپورم سے، جہاں وہ ایک ہومیوپیتھک کلینک چلاتی تھیں، ترواننت پورم منتقل ہو گئی ہیں۔
اگر 2016 میں وہ خبروں میں آئیں تھیں تو اپنے ہندو والد اشوکن کے ایم کی بدولت آئی تھیں جنہوں نے کیرالا ہائی کورٹ سے رجوع ہو کر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو دھوکہ دے کر اسلام قبول کروایا گیا ہے۔ اس بار بھی والد ہی کی وجہ سے ہادیہ سرخیوں میں ہیں۔ ان کے والد نے کیرالا ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہادیہ رابطہ میں نہیں تھی اور اس کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہے۔
2016 میں، کیرالا ہائی کورٹ نے ان کے والد کے الزامات کی بنیاد پر ہادیہ کی شادی کو منسوخ کر دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے کیرالا ہائی کورٹ کے حکم کو مسترد کر دیا تھا اور ہادیہ کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، نہ کہ کسی دباؤ یا کسی فریب اور دھوکہ دہی سے؟
تاہم ہادیہ نے اپنی دوبارہ شادی کے بعد صحافیوں کے ایک منتخب گروپ کو بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں اور انہیں شفین جہاں سے طلاق اور ایک مسلمان مرد سے دوبارہ شادی کرنے کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ لیکن انہوں نے ترواننتا پورم میں اپنی صحیح جگہ بتانے سے انکار کر دیا کیونکہ میڈیا کی توجہ ان پر مرکوز تھی اور بعض حلقوں کی دھمکیوں کی وجہ سے جو بین المذاہب شادیوں، خاص طور پر ایک ہندو لڑکی کی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کی مخالفت کرتے ہیں، اپنا اتا پتا مخفی رکھا۔
ایک معروف نیوز پورٹل سے بات کرتے ہوئے 32سالہ ہادیہ نے کہا کہ بالغ ہونے کے ناطے انہیں اپنے والدین کی مداخلت کے بغیر اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے اور اس کے ساتھ رہنے کا پورا حق ہے۔ ہادیہ نے اپنے والد کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ ان کا نیا شوہر اسے غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہا ہے۔ ہادیہ نے اپنے والد پر سنگھ پریوار کے ہاتھوں میں کھیلنے کا الزام لگایا۔
یہ بتاتے ہوئے کہ ان کے والد نے ان کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے، ہادیہ نے کہا کہ انہیں اکثر سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سنگھ پریوار کے لوگوں نے ہمیشہ میرے والد کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بدقسمتی سے، میرے والد خود کو اس طرح استعمال کرنے کی اجازت دے رہے ہیں،‘‘
جہاں تک دوسری شادی کا تعلق ہے، ہادیہ نے کہا کہ بھارت کا آئین شادیاں کرنے اور رشتہ ازدواج سے باہر نکلنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ ماضی کے برعکس کیرالا میں بھی شادیاں، طلاقیں اور دوبارہ شادیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ میں یہ سمجھنے میں ناکام رہی ہوں کہ معاشرہ میرے معاملے میں زیادہ متجسس کیوں ہو رہا ہے۔ میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے تمام حقوق کے ساتھ بالغ ہوں۔ پہلی شادی آگے نہ بڑھنے کے بعد میں نے طلاق کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنی پسند سے شادی کی ہے اور اس کا ٹھکانہ اب ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ میں اپنے موجودہ مقام کو بھی ظاہر نہیں کر رہی ہوں۔ میں اب بھی ایک عقیدت مند مسلمان ہوں اور میں نے اپنے والدین کو دوبارہ شادی کے بارے میں مطلع کر دیا ہے‘‘ نیوز پورٹل نے ان کے حوالے سے یہ بات بتائی۔
ہادیہ کا واقعہ ختم ہوچکا تھا اور لوگ اس کیس کو بھول چکے تھے تاہم، اس کو متنازعہ فلم ’ دی کیرالا اسٹوری‘ کے بعد بحال کیا گیا جس میں یہ جھوٹ دکھایا گیا تھا کہ کیرالا سے ہندو اور عیسائی خواتین کو اسلام قبول کرنے اور پھر سیریا میں ایک دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، کرسچن ایسوسی ایشن اور الائنس فار سوشل ایکشن (CASA) نے جو بی جے پی کے قریب ایک دائیں بازو کا عیسائی گروپ ہے، اشوکن کی جانب سے درخواست دائر کرنے سے پہلے ہی ہادیہ کی دوبارہ شادی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ CASA نے الزام لگایا کہ ممنوعہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) نے ہادیہ کو اس کی رضامندی کے بغیر ہی اسے دوبارہ شادی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ کیون پیٹر نے میڈیا والوں کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے اشوکن کو مطلع کیا تھا کہ ان کی بیٹی اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ انتہائی دکھی حالت میں رہ رہی ہے۔ لیکن ہادیہ نے اپنی دوبارہ شادی اور غیر قانونی حراست سے متعلق تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
’’میں چھپی ہوئی نہیں ہوں اور نہ ہی میرا فون بند ہے… شروع سے ہی، میرے والد نے مشکلات پیدا کیں جس سے میرا جینا دوبھر ہوگیا۔ مجھ پر سائبر حملے ہوئے ہیں جس نے میری زندگی کو مشکل بنا دیا ہے‘‘۔ ہادیہ نے میڈیا کے نمائندوں کو یہ بات بتائی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ہمیشہ اپنے والدین کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔
(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
’’مجھے اکثر سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سنگھ پریوار کے لوگوں نے ہمیشہ میرے والد کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بدقسمتی سے، میرے والد خود کو اس طرح استعمال کرنے کی اجازت دے رہے ہیں‘‘
’’الغ ہونے کے ناطے انہیں اپنے والدین کی مداخلت کے بغیر اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے اور اس کے ساتھ رہنے کا پورا حق ہے۔ ہادیہ نے اپنے والد اشوکن کے ایم کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ ان کا نیا شوہر انہیںغیر قانونی طور پر حراست میں لے رہا ہے۔ ‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023