
کیرالا کے اسکولوں میں زومبا متعارف کرانے کا منصوبہ
مذہبی حلقوں کا اظہار تشویش۔فحاشی کے بجائے صحت جسمانی کی مشقیں کرانے پر زور
تروننتاپورم: (دعوت نیوز نیٹ ورک)
خبر ہے کہ جنوبی ہند کی ریاست کیرالا کے اسکولوں میں حکومت ’’زومبا‘‘ نامی رقص پر مبنی فٹنس پروگرام کو متعارف کرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے پر مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ کئی علما نے اس اقدام کو ’’مغربی درآمد‘‘ ((Western Import) قرار دیتے ہوئے اسے اخلاقی بگاڑ کا سبب بتایا ہے۔
ریاست کے محکمہ تعلیم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ منشیات اور پرتشدد رجحانات سے طلبہ کو دور رکھنے اور جسمانی و ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اسکولوں میں زومبا سکھایا جائے گا۔ اس کے تحت تعلیمی سال کے آغاز سے قبل اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام بھی رکھے گئے تھے۔ معروف دینی ادارے ’’سمستا‘‘ سے وابستہ اور آئی یو ایم ایل کے ہم خیال عالم دین عبد الصمد پوکُّور نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا زومبا طلبہ کی اخلاقی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ذہنی سکون کے لیے دعا سب سے بہتر ہے، ہمارے پاس یوگا بھی موجود ہے۔ ہمیں کولمبیا سے درآمد کردہ اس ناچ کی کیا ضرورت ہے؟ اگر حکومت نے اس پر اصرار کیا تو علما اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ زومبا کرنے کی اجازت دینا اخلاقی اقدار کے منافی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ تمام اسکولوں میں جسمانی تعلیم کے لیے باقاعدہ اساتذہ مقرر کرے۔
ایک اور عالم، نذر فیضی کودتھائی نے بھی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ’’اگر فٹ نوجوانوں کو کم کپڑوں میں ناچنے پر مجبور کیا جائے اور مخالف جنس کے ساتھ اختلاط ہو تو یہ سراسر قابل مذمت ہے۔ حکومت کو فحاشی کے بجائے باقاعدہ جسمانی تربیت کے پروگراموں پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘
اسی دوران انڈین یونین مسلم لیگ کی طلبہ تنظیم ’’مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ نے بھی زومبا کی مخالفت کرتے ہوئے اسے بغیر کسی تحقیق کے لاگو کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا۔ آئی یو ایم ایل کے ریاستی صدر پی کے نواس نے کہا ’’حکومت نے یہ اقدام یکطرفہ طور پر کیا ہے، اس پر کوئی سنجیدہ مطالعہ یا مشاورت نہیں ہوئی۔‘‘
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ پینارائی وجین نے حال ہی میں نوعمر طلبہ میں بڑھتی ہوئی منشیات اور تشدد کے رجحان کے خلاف ایک اجلاس میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ زومبا جیسے فٹنس پروگراموں کے ذریعے طلبہ کو جسمانی اور ذہنی طور پر فعال بنایا جائے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بائیں محاذ کی حکومت کو تعلیمی اصلاحات کے معاملے پر مذہبی حلقوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ 2022 میں حکومت نے اسکولوں میں جینڈر نیوٹرل یونیفارم اور لڑکوں و لڑکیوں کے لیے علیحدہ نشستیں ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن شدید عوامی احتجاج کے بعد اس فیصلے سے دستبرداری اختیار کر لی گئی تھی۔
زومبا پر جاری بحث کے درمیان محکمہ تعلیم کی جانب سے ابھی تک کوئی با ضابطہ وضاحت سامنے نہیں آئی ہے، لیکن یہ معاملہ ریاست میں ایک بار پھر ثقافتی حساسیت اور تعلیمی ترقی کے درمیان توازن کے سوال کو اجاگر کر رہا ہے۔
زومبا جیسے مغربی فٹنس پروگرام کو ’’صحت‘‘ یا ’’تناؤ سے نجات‘‘ کے عنوان سے اسکولوں میں رائج کرنا بظاہر ایک جدید خیال لگتا ہے، لیکن اس کے تہذیبی و اخلاقی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ایک خطرناک رجحان کو جنم دے سکتا ہے۔ جب تعلیم جیسے حساس شعبے میں مقامی اقدار، مذہبی حساسیت اور سماجی اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی طرزِ زندگی کو بلا تنقید اپنایا جائے تو سوال صرف نصاب کا نہیں بلکہ فکری خود مختاری کا بھی ہو جاتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جو عوامی جذبات اور ثقافتی توازن کو مجروح کرتے ہوں ورنہ صحت مند مسابقت کے بجائے ایک نئے نوع کے تہذیبی تصادم کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زومبا محض ایک فٹنس سرگرمی نہیں بلکہ موسیقی کے ساتھ مخصوص انداز میں جسمانی حرکات پر مبنی ایک ایسا رقص نما پروگرام ہے جس میں جسمانی مشق اور تفریح کو بیک وقت شامل کر کے اسے ’’ٹو اِن ون‘‘ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ نئی نسل کے لیے کشش کا سامان رکھتا ہے ۔ ایک طرف کیلوریز برن ہوتی ہیں تو دوسری طرف رقص کی شکل میں لطف و لذت ملتی ہے اور یہی پہلو اصل میں تشویش کا باعث ہے۔ جب فٹنس کے نام پر موسیقی اور مخلوط رقص کو اسکولوں میں جگہ دی جائے گی تو اس سے نہ صرف شہوانی جذبات کو شہ ملتی ہے بلکہ یہ ہیجان انگیز فضا طلبہ کو مخالف جنس کی طرف غیر معمولی طور پر مائل کرتی ہے، جو رفتہ رفتہ جنسی بے راہ روی اور اخلاقی زوال کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا وقتی تفریح اور صحت کے نام پر ہم اپنی نئی نسل کو ایک ایسی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں جہاں جسمانی صحت تو شاید بہتر ہو جائے لیکن اخلاقی و ذہنی تربیت کا توازن بگڑ جائے؟
یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ ثقافتی یلغار کو خوشی خوشی قبول کرنا مرعوب و غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔
اور جو قومیں اپنی تہذیبی بنیادوں کو ہنسی خوشی خیر باد کہہ دیتی ہیں وہ آنے والے وقت میں صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ فکری طور پر بھی کمزور پڑ جاتی ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025