کھٹمنڈو کے میئر نے ’اکھنڈ بھارت‘ تنازعہ کے بعد اپنے دفتر میں ’گریٹر نیپال‘ کا نقشہ نصب کیا

نئی دہلی، جون 9: کھٹمنڈو میٹروپولیٹن سٹی کے میئر بلیندر شاہ نے اپنے دفتر میں ’’گریٹر نیپال‘‘ کا نقشہ نصب کیا ہے جو کہ مرکزی وزیر پرہلاد جوشی کے ذریعہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں مبینہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے نقشے کے جواب میں نصب کیا گیا ہے۔

’’گریٹر نیپال‘‘ کے حامیوں کا خیال ہے کہ نیپال کا علاقہ مشرقی ہمالیہ میں دریائے تیستا سے لے کر مغرب میں دریائے ستلج تک پھیلا ہوا ہے۔ تاہم 1816 میں نیپال کے سوگولی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد دونوں علاقے اب ہندوستان کے تحت آتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان بین الاقوامی سرحد کی حد بندی ہوئی۔

لوگوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں یہ پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود منقش دیوار ہندوتوا قوم پرستوں کے اس تصور پر مبنی ہے جس میں یہ تصور کیا گیا ہے کہ پڑوسی ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان، مالدیپ، میانمار، نیپال، پاکستان اور سری لنکا ہندوستان کا حصہ بن جائیں گے۔

پچھلے ہفتے نیپال کے سیاسی رہنماؤں نے اس دیوار پر اعتراض کیا تھا کیوں کہ اس میں لومبینی – بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی جائے پیدائش – کو بھی بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ نیپال اپنے نقشے پر لومبینی کو ایک بڑے ثقافتی مراکز میں سے ایک سمجھتا ہے۔

دہل نے بدھ کو نیپالی قومی اسمبلی کو بتایا ’’ہم نے ایک نئے ہندوستانی نقشے کا مسئلہ اٹھایا جو ہندوستانی پارلیمنٹ میں رکھا گیا ہے۔ ہم نے اس مسئلے کو ایک سنجیدہ نوٹ پر اٹھایا۔ لیکن ہندوستانی فریق نے جواب دیا کہ یہ ایک ثقافتی اور تاریخی نقشہ ہے سیاسی نقشہ نہیں۔‘‘

جمعرات کو بلیندر شاہ نے اپنے معاونین سے کہا کہ وہ اپنے دفتر میں ’’گریٹر نیپال‘‘ کا نقشہ نصب کریں۔

ہندوستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس دیوار میں اشوکا سلطنت کے پھیلاؤ اور ’’ذمہ دارانہ اور عوام پر مبنی طرز حکمرانی کے نظریہ‘‘ کو دکھایا گیا ہے جسے اس نے اپنایا اور پھیلایا۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بغچی نے کہا کہ ’’دیوار اور دیوار کے سامنے موجود تختی یہی کہتی ہے۔‘‘

تاہم اس وضاحت کے بعد بھی بنگلہ دیش اور پاکستان نے بھی اس دیوار پر اعتراض کیا ہے۔ پیر کو ڈھاکہ کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ شہریار عالم نے کہا کہ ان کی حکومت نے دہلی میں اپنے مشن سے اس معاملے پر سرکاری وضاحت طلب کی ہے۔