کثرتِ ازدواج کے دینی اصول

ازدواجی زندگی میں عدل۔ بیویوں کے درمیان یکساں سلوک کی اہمیت

حمیرا علیم

مغرب قرآن اور نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو فیمنسٹ قرار دیتا ہے، کیونکہ جتنے حقوق قرآن نے خواتین کو دیے ہیں وہ مغربی عورت کو آج بھی حاصل نہیں۔ یہ مضمون بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ امید ہے کہ خواتین اسے سمجھنے کی کوشش کریں گی۔
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ فرمایا:
’’اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو اپنی پسند کی عورتوں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک، یا وہ لونڈی جو تمہارے قبضے میں ہو۔ اس طرح تم ناانصافی سے بچ جاؤ گے۔‘‘
(سورۃ النساء 4:3)
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کثرتِ نکاح جائز ہے اور مرد اپنی پسند کے مطابق ایک سے چار بیویوں تک نکاح کر سکتا ہے، مگر اس سے زیادہ شادی کرنا اسلامی شریعت کے مطابق جائز نہیں۔
کثرتِ نکاح کی شرائط
واضح رہے کہ کثرتِ نکاح کے لیے شرائط درج ذیل ہیں:
-1 انصاف
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’لیکن اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو۔‘‘ (سورۃ النساء 4:3)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاف کثرتِ ازدواج کی بنیادی شرط ہے۔ مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ خرچ، لباس، رہائش اور دیگر مادی معاملات میں یکساں سلوک کرے۔ البتہ محبت کے معاملے میں کامل انصاف ممکن نہیں، جیسا کہ فرمایا گیا:
’’تم کبھی بھی بیویوں کے درمیان کامل انصاف نہیں کر سکو گے، خواہ تم کتنی ہی کوشش کر لو۔‘‘ (سورۃ النساء 4:129)
-2 معاشی استطاعت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور جو لوگ شادی کے لیے مالی وسائل نہیں پاتے، وہ پاک دامنی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ (سورۃ النور 24:33)
جو مرد اپنی بیویوں پر خرچ کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے کثرتِ نکاح جائز نہیں۔
تعددِ ازدواج کے فوائد
شیخ ابن بازؒ کے مطابق، کثرتِ ازدواج ان افراد کے لیے بہتر ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں اور انصاف کر سکتے ہوں۔ اس سے معاشرے میں پاکیزگی، بچوں کی تربیت، اور امت کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے متعدد شادیاں کیں اور ہر بیوی کے ساتھ انصاف کا کامل نمونہ پیش کیا۔ مگر یہ بھی اہم ہے کہ آپؐ نے اپنی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں کسی اور سے نکاح نہیں کیا۔
• کثرتِ ازواج امت مسلمہ کی تعداد بڑھانے میں مدد کرتی ہے اور تعداد صرف شادی کے ذریعے بڑھائی جا سکتی ہے۔ جب تعداد بڑھے گی تو زیادہ کام کرنے والے ہوں گے، معاشی صورتحال بہتر ہو گی، اگر حکم راں وسائل کا بہتر استعمال کریں۔ ایسے خدشات بے بنیاد ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے وسائل کم ہو رہے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چار شادیوں کی اجازت دی تو اس کے مالی وسائل میں اضافہ ہوگا جو اس نے کائنات میں انسانوں کی ضروریات کے مطابق پیدا فرمائے ہیں۔
آج جو بھی مسائل انسان کو لاحق ہیں ان کی وجہ حکم رانوں و افراد کے برے انتظامات ہیں۔ چین کی مثال لے لیجیے جو دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ایک مضبوط معیشت اور صنعت کا مالک ہے۔ کوئی ملک اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اسٹیٹس بتاتے ہیں کہ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ اگر ہر مرد صرف ایک شادی کرے تو زیادہ تر خواتین بغیر شادی کے رہیں گی، جس کا ان پر اور معاشرے پر برا اثر پڑے گا۔ یعنی انہیں ایسا شوہر نہیں ملے گا جو ان کی حفاظت کرے، انہیں گھر اور ضروریات زندگی مہیا کرے، ان پر مال خرچ کرے، ان کے ساتھ بچے پیدا کرے اور انہیں سکون اور خوشیاں مہیا کرے۔ اس طرح وہ گمراہی کا شکار ہو سکتی ہیں، سوائے چند ایک کے جن پر اللہ کا رحم ہو۔ چند خواتین جسم فروشی کرنے لگتی ہیں، جس کے نتیجے میں فحاشی بھی پھیلتی ہے اور ایڈز جیسی بیماریاں بھی۔ اس سے گھر اور خاندان بھی تباہ ہوتے ہیں اور ناجائز بچے بھی جنم لیتے ہیں جنہیں کوئی ایسا شخص میسر نہیں ہوتا جو باپ بن کر ان کی پرورش کر سکے، انہیں محبت و تربیت دے سکے۔ جب سوسائٹی انہیں ناجائز ہونے کا طعنہ دیتی ہے تو وہ گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ معاشرے سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی تباہی کا سبب بھی بنتے ہیں، جیسا کہ کئی ممالک میں وہ گینگز بنا کر تباہی پھیلاتے ہیں۔
مردوں کو ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگی کو ختم کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ خطرناک پیشوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ سپاہی ہیں جو جنگ میں لڑتے ہیں اور عورتوں سے زیادہ مرد مر سکتے ہیں۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو شوہر سے محروم خواتین کا فیصد بڑھاتی ہے اور اس مسئلے کا واحد حل کثرتِ ازواج ہے۔
• کچھ مرد ایسے ہوتے ہیں جو شدید جسمانی خواہشات رکھتے ہیں، جن کے لیے ایک بیوی کافی نہیں ہوتی۔ اگر ایسے آدمی کے لیے دوسری شادی کا دروازہ بند کر دیا جائے تو اس سے بڑا نقصان ہو گا۔ لیکن اگر دوسری یا تیسری شادی کر کے پہلی والیوں کو چھوڑنا ہی ہے یا ان سے قطع تعلق کر لینا ہے تو پھر کثرتِ ازدواج درست نہیں ہے۔
• بیوہ اور مطلقہ کے بچوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والا یا ان کی صحیح پرورش کرنے والا کوئی آدمی مل جاتا ہے۔
• جب عورت کو ہر ماہ حیض آتا ہے اور زچگی کے بعد اسے چالیس دن تک خون آتا ہے جسے نفاس کہتے ہیں، اس وقت مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کر سکتا، کیونکہ حیض یا نفاس کے وقت قربت حرام ہے اور اس سے جو نقصان پہنچتا ہے وہ طبی طور پر ثابت ہے۔ لہٰذا کثرت سے شادی کی اجازت ہے جب کوئی انصاف کرنے کے قابل ہو۔
• بیوی بانجھ ہو سکتی ہے یا وہ اپنے شوہر کی ضرورت پوری نہیں کر سکتی، یا وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اس سے ہم بستری نہیں کر سکتا۔ شوہر کو اولاد کی خواہش ہو سکتی ہے، جو کہ ایک جائز خواہش ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ شادی کر کے پاکیزہ زندگی گزارنا چاہتا ہو جو کہ جائز ہے، اور جس کا واحد راستہ دوسری شادی کرنا ہے۔ بیوی کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ دوسری بیوی رہنے پر راضی ہو جائے اور اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت دے، اور اگر چاہے تو خلع یا طلاق لے لے اور دوسری شادی کر لے۔
• عورت مرد کے رشتہ داروں میں سے ہو اور اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو، اور وہ غیر شادی شدہ یا بیوہ ہو تو اس سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ پچھلی اقوام میں بھی کثرتِ ازواج کا رواج رہا ہے۔ سلیمان علیہ السلام کی کئی بیویاں تھیں، ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں، اور نبی ﷺ کی گیارہ اور اس دور میں کچھ مرد آٹھ یا پانچ بیگمات رکھتے تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد انہیں چار کے سوا سب کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
• بیوہ یا مطلقہ خاتون ہو تو مرد سوچ سکتا ہے کہ اس کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ اسے اپنی پہلی بیوی کے ساتھ بطور بیوی اپنے خاندان میں شامل کرے تاکہ دونوں کی پاک دامنی برقرار رہے اور وہ ان کا کفیل بنے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اسے تنہا چھوڑ دے اور صرف اس پر خرچ کرنے پر راضی رہے۔
• کثرتِ ازدواج کے شرعی مفادات بھی ہیں، جیسے خاندانوں کے درمیان رشتہ مضبوط کرنا جو ازدواجی تعلقات کے ذریعے بھی ممکن ہے۔
• اسلام میں تعددِ ازواج پر اعتراضات: کچھ لوگ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ کثرتِ نکاح کا مطلب ایک گھر میں کئی بیویاں ہونا ہے اور شریک بیویوں کے درمیان جھگڑے اور دشمنی پیدا ہو سکتی ہے، جس کا اثر شوہر، بچوں اور دوسروں پر پڑے گا۔ لیکن خاندانی جھگڑے ایک بیوی ہونے پر بھی ہو سکتے ہیں، اور زیادہ بیویاں ہونے پر یہ ضروری نہیں۔ اسلام میں ہر بیوی کا حق ہے کہ اسے الگ رہائش ملے اور شوہر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی گھر میں اکٹھا رکھے۔
• دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر مردوں کو کثرت سے بیویاں رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے تو عورتوں کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک عورت کا ایک سے زیادہ شوہروں سے شادی کرنا اس کی شان کے خلاف ہے اور اس سے بچوں کے نسب کا مسئلہ پیدا ہوگا، جس سے خاندان ٹوٹے گا اور بچے اپنے والد سے الگ ہو جائیں گے۔
• اسلام بیوہ اور مطلقہ کو عدت کا حکم اس لیے دیتا ہے تاکہ بچے کی پیدائش کی صورت میں اس کے والد کا پتا چل سکے اور وہ وراثت میں حصہ پا سکے۔
• اگر کوئی شخص جسمانی اور مالی طور پر دوسری شادی کرنے کے قابل ہو اور دونوں بیویوں کے ساتھ عدل کر سکے تو اسلام کے مطابق اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "… پھر اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کر لو، دو یا تین یا چار…” (النساء 4:3)
• یہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کا عمل تھا، لیکن رسول اللہ کے علاوہ کسی کو چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
• عورتوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی حکمت پر ایمان لائیں اور حسد کی بجائے صبر کریں۔ بیوی کو اپنے شوہر کو دوسری عورت سے نکاح کی اجازت دینا چاہیے کیونکہ یہ نیکی میں تعاون کرنا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: "جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتیں پوری کرے گا۔”
• مرد کے لیے دوسری بیوی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی ضروری نہیں، لیکن اس سے حسن سلوک اور مشورہ کرنا ضروری ہے۔ اگر پہلی بیوی غیر محفوظ محسوس کرے یا اس کا دل نہ مانے تو وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے، لیکن اگر وہ صبر کر سکے تو اللہ اس کے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا۔
اللہ تعالیٰ نے کثرت ازواج کے خواہش مند شخص کو بعض چیزوں کا حکم دیا ہے، جنہیں اسے دوسری شادی سے پہلے پہلی بیوی کو دینا ہوگا۔
"مرد عورتوں کے نگہبان ہیں، اسی وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں (شوہروں کی) اطاعت کرنے والی (اور) ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔” (النساء 34)
اولاً، اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ دونوں کے حوالے سے منصفانہ خرچ کرنے اور رہائش فراہم کرنے کے قابل ہو۔ اگر وہ جانتا ہے کہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے یا یہ امکان زیادہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکے گا تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: "جہاں تک خرچ اور لباس کے معاملے میں عدل کا تعلق ہے تو یہ سنت کی پیروی ہے۔ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ خرچ کرنے کے معاملے میں یکساں سلوک کرتے تھے، یہی انہوں نے اپنے وقت کو ان کے درمیان تقسیم کرنے کے بارے میں کیا تھا۔”
ابن قیمؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ رات گزارنے، رہائش فراہم کرنے اور خرچ کرنے کے معاملے میں یکساں سلوک فرماتے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ دو چیزوں میں یکساں سلوک کرنا واجب نہیں ہے، محبت اور جماع، کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس پر آدمی کا اختیار نہیں ہے۔
حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: "اگر وہ ان میں سے ہر ایک کو مناسب لباس، نگہداشت اور رہائش فراہم کرتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ان میں سے کسی کی طرف زیادہ مائل ہونے یا انہیں تحفہ دینے کے بعد کیا کرتا ہے۔”
اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے کو یہ حکم دیا ہے۔ اگر آدمی ایسا کر سکتا ہے تو اس سے شادی کرنے پر راضی نہ ہونا غلط ہے۔ اگر وہ نہیں کر سکتا ہے تو ہم اس سے نکاح کی نصیحت نہیں کرتے، بلکہ اس کے لیے پہلے نکاح کی تجویز دینا بھی جائز نہیں ہے۔
اگر وہ مذہبی اور اچھے کردار کا مالک ہے اور خواتین خرچے اور رہائش کے معاملات میں صبر اور برداشت سے کام لے سکتی ہیں تو اس سے شادی کرنے پر راضی ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اگر وہ غریب ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا۔” (النور 24:32)
بعض سلف اس آیت کے مطابق رزق کی تلاش میں نکاح کرتے تھے۔ لیکن اگر خاتون کو لگتا ہے کہ وہ زندگی میں کچھ مشکلات برداشت نہیں کر پائے گی تو اس مرد سے شادی سے انکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے، جب معاویہؓ نے فاطمہ بنت قیسؓ کو شادی کی تجویز پیش کی، تو نصیحت کی: "ان سے شادی نہ کرنا کیونکہ وہ محتاج ہیں اور ان کے پاس مال نہیں ہے۔”
اور شادی کے رشتے کے بغیر کسی بھی نا محرم عورت سے میل ملاقات یا بات چیت جائز نہیں۔ اس لیے انسان کو روزے رکھ کر اور نگاہ نیچی رکھ کر اپنے نفس پر قابو پانا چاہیے۔
مسلمان کسی بھی خطے میں پیدا ہو، کسی بھی ملک کا رہائشی ہو، اسے اسلام کے قوانین و احکام پر عمل کرنا چاہیے۔
"اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔” (الحجرات 13)
"مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت اچھا ہے بے شک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔” (النور 30)
"یقیناً ایمان والوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں، جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں، جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے، یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں، وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں۔” (المومنون 35)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں، انہیں کوئی ملامت نہیں۔ اب جو کوئی اس کے علاوہ کچھ چاہے گا تو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے۔” (المعارج)
"اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔”
عورت کو پردہ کروانے کا حکم دینے سے پہلے مردوں کو خود نگاہ نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا، پھر فرمایا: "مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنی ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکرچاکر مردوں
کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔”
وقال تعالیٰ: "وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا” (سورة الاحزاب 35)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں، ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔”
"جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا، تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔” (سورة النازعات)
"اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، دو جنتیں ہیں۔” (سورة الرحمن)
سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی ضمانت دے (کہ ان کو ناجائز استعمال نہیں کرے گا)، تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔”
"جس شخص کو اس کی زبان اور اس کی شرم گاہ کے شر سے بچا لیا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔”
قصہ یوسف میں فرمایا: "یوسفؑ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں، اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں تو ان کی طرف مائل ہو جاوں گا اور نادانوں میں شمار ہو جاوں گا۔” (یوسف 33)
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اگر آپ ان کی ذریعے ایذا رسانی کو رد کرتے ہیں تو ان کا جینا اور مرنا ہے، ان کی زندگی کو آپ کا خیال ہو گا، یہ ہر معاملے میں حلال ہے۔”
خواتین کی عزت اور غیرت کے متعلق اللہ کا حکم بہت واضح ہے۔ اس کو سمجھنے اور عمل کرنے کا اختیار ہم سب کو دیا گیا ہے۔

 

***

 ‘‘اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو اپنی پسند کی عورتوں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک، یا وہ لونڈی جو تمہارے قبضے میں ہو۔ اس طرح تم ناانصافی سے بچ جاؤ گے۔ ’’(سورۃ النساء 4:3)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024