احمد ربیع؛ کشمیر
جن بنیادوں پر عوامی مینڈیٹ ملا انہی کی خلاف ورزی مہنگی پڑسکتی ہے!
چند ماہ قبل نیشنل کانفرنس کو کشمیر میں بھاری عوامی مینڈیٹ ملا، الیکشن کے دوران ایسا باور کرایا گیا تھا کہ اگر کشمیر میں کوئی بھاجپا مخالف ہے تو وہ صرف اور صرف نیشنل کانفرنس ہے. نیشنل کانفرنس دیگر جماعتوں کو بی جے پی کی بی ٹیم قرار دینے میں کامیاب رہی، الیکشن میں قیدیوں کو چھڑانے کے علاوہ 370 کی بحالی کے لیے بھی ووٹ مانگے گئے تھے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر نیشنل کانفرنس کی حکومت اقتدار میں آئے گی تو وہ نفرتی ایجنڈوں کی مخالف ہوگی، اور عوام کی نمائندگی کرے گی لیکن اقتدار ملنے کے بعد ہی نیشنل کانفرنس نے پہلے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی ہارتی ہے تو ای وی ایم کا بہانہ کرتی ہے۔ اس کے بعد بی جے پی سے قربتیں بڑھتی گئیں۔ ابھی حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی جب زیڈ مہور ٹنل کا افتتاح کرنے سونا مرگ آئے تو چیف منسٹر جموں و کشمیر نے اپنے خطاب میں نریندر مودی کے نام کے قصیدے پڑھے، انہوں نے کہا "آج تو آسمان بھی صاف ہوگیا بادل کا ایک دھبہ بھی نظر نہیں آرہا، موسم سردی کا ہے مگر ہمارے دلوں میں آپ کے لیے گرم جوشی ہے” 370 کی بحالی سے متعلق تو انہوں نے کوئی بات ہی نہیں کی۔ البتہ ریاستی درجہ بحال کرنے کے بارے میں مبصرین کے مطابق ان کی اپیل ایسی تھی جیسے گویا کوئی بھکاری بھیک مانگ رہا تھا جب کہ وزیر اعلی کی تقریر کے دوران وزیر اعظم ہنستے رہے۔
جب عمر عبداللہ کو پارلیمانی انتخابات میں شکست ہوئی تو ان کی پارٹی نے انتخابات جیتنے کے لیے بہت سے وعدے کیے تھے جن میں سے ایک وعدہ آرٹیکل 370 کی بحالی تھا جس کے لیے عوام نے انہیں ووٹ دیے تھے جو نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور میں سرفہرست تھا۔ جب سے نیشنل کانفرنس اقتدار میں آئی ہے تب سے عمر عبداللہ کی طرف سے آرٹیکل 370 کے حوالے سے ایک بھی بیان نہیں آیا ہے۔ الیکشن سے پہلے نیشنل کانفرنس کا موقف تھا کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا لیکن آج تین ماہ سے نیشنل کانفرنس اقتدار میں ہے اور ابھی تک حریت کے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا تو دور اس حوالے سے بات تک نہیں کی گئی۔ الیکشن میں کہا گیا تھا کہ جو پابندیاں ہیں وہ ہٹالی جائیں گی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار بھی ان پر بات نہیں کی گئی۔ نیشنل کانفرنس کے ایم پی آغا روح اللہ آج کل اپنی پارٹی سے ناراض ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ہمیں 370 کے لیے لڑنا ہوگا اس کے جواب میں پارٹی کے رہ نما فاروق عبداللہ نے کہا کہ عمر دلی کے ساتھ نہیں لڑیں گے۔ اگر وہ تنہا لڑنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔گورنر انتظامیہ نے اپنے دور اقتدار میں ریزرویشن کے متعلق ایک فیصلہ کیا تھا کہ اوپن میرٹ کو اب صرف 37 فیصد سیٹیں ہی ملیں گے۔ اس فیصلے کے خلاف یہاں کے طلبا سراپا احتجاج ہیں۔ ان طلباء نے کچھ دن قبل وزیر اعلیٰ کے گھر کے سامنے احتجاج کیا تھا جس میں آغا روح اللہ نے شرکت کی تھی۔ آغا کے اس فیصلے پر نیشنل کانفرنس نے احتجاج کیا اور انہوں نے ان کے خلاف بیانات دینے شروع کیے۔ روح اللہ کا مطالبہ ہے کہ ریاستی حکومت کو کھل کر مرکز کے خلاف آنا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ لوگوں کو بتائے کہ مرکزی حکومت کس طرح یہاں کے عوامی نمائندوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے اور ریاستی حکومت ایک ربر اسٹمپ کی طرح ہو گئی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے روح اللہ کے خلاف بولنے سے عوام پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ جب عمر عبداللہ کو پارلیمنٹ الیکشن میں شکست ہوئی تھی اس کے بعد نیشنل کانفرنس کی ساکھ کو بہتر بنانے میں آغا روح اللہ کا کافی رول رہا۔ انہوں نے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر ایسے بیانات دیے جو عوامی نمائندگی کے ترجمان لگ رہے تھے۔ حالات پر نظر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ آغا روح اللہ کے ان بیانات سے ہی نیشنل کانفرنس کو عوامی سطح پر بھاری مینڈیٹ ملا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کشمیر ابھی بھی ایک کم زور ریاست ہے۔ یہ دہلی کے ساتھ خراب تعلقات برداشت نہیں کر سکتی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی عوامی نمائندگی سے دستبردار ہو جائے، اس پارٹی کو عوام سے بی جے پی کو دور رکھنے کے نام پر ووٹ لینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ کشمیر کے صحافی اظہر حسین تانترے کا خیال ہے جس پارٹی نے بی جے پی کو سزا دینے اور مسلم اکثریتی خطے سے دور رکھنے کے لیے ووٹ مانگا یا دوسری پارٹیوں کو بی جے پی کی اے یا بی ٹیم قرار دے کر عوام میں بدظنی پیدا کی آج وہی پارٹی بی جے پی کے قصیدے پڑھ رہی ہے۔ پس پردہ اس کے قریب ہو رہی ہے اور اندرونی خود مختاری کے خاتمے کے فیصلے کو قبول کر رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس پارٹی نے ہمیشہ مرکز کی بولی اختیار کی ہے۔
نعمیہ احمد مہجور لکھتی ہیں "جس طرح کے پر آشوب حالات سے کشمیری عوام گزر چکے ہیں اس کا سہرا اس سیاسی جماعت کے سر ہے۔ جب اس نے 1947 میں الحاق ہندوستان کی وکالت کرکے عوام کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا، پھر ستر کی دہائی میں وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ کی کرسی قبول کرکے اندرونی خود مختاری کی عمارت سے وہ ستون نکالے جن کو آئین میں برقرار رکھنے کی ضمانت شیخ عبداللہ نے الحاق ہندوستان کی حمایت کے وقت لی تھی۔ اب بھی اس تاریخی کو دہرایا جا رہا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ سابق وزیر اعظم بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق کے دور اقتدار میں شیخ عبداللہ کی اسیری کے دوران بیشتر قوانین ریاست پر نافذ کیے گئے تھے، امید کی جا رہی تھی کہ شیخ عبداللہ رہائی کے بعد پہلے ان کے اطلاق کو کالعدم قرار دینے کی شرط رکھیں گے لیکن انہوں نے اس کے برعکس وزیر اعلیٰ کی کرسی کو ترجیح دی۔”
نیشنل کانفرنس نے جہاں مرکز کی سخت پالیسی کے خلاف ووٹ لیے، وہیں دوسری طرف ترقی کے نام پر بھی ووٹ لیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل پاور گورنر کے پاس ہی ہے، حکومت کوئی کام کر ہی نہیں پا رہی ہے۔ معمولی معمولی کاموں کے لیے بھی ان کو lG کے آگے جھک جانا پڑتا ہے۔ نیشنل کانفرنس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک سو دن ہو گئے ہیں۔ ان سو دنوں میں ان کی حکومت کہیں نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ریاست میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ عمر عبداللہ کا جو بھی اعلان ہوتا ہے لیفٹیننٹ گورنر اس کے خلاف فیصلہ لیتا ہے۔ ابھی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کسی کو نوکری میں توسیع نہیں کی جائے گی لیکن صرف دو دن بعد گورنر نے دو وائس چانسلروں کو دو دو سال کی توسیع دے دی۔ لوگ چاہتے ہیں کہ حکم راں طبقہ مرکز کے خلاف کھل کر کھڑا ہو لیکن نیشنل کانفرنس مرکز کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتی۔ ایسے میں نیشنل کانفرنس بری طرح پھنس گئی ہے اور اس نے بی جے پی کے تئیں نرم پالیسی اپنائی ہے جس سے عام لوگ نیشنل کانفرنس سے مایوس نظر آرہے ہیں۔
***
***
عمر عبداللہ کا جو بھی اعلان ہوتا ہے لیفٹیننٹ گورنر اس کے خلاف فیصلہ لیتا ہے۔ ابھی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کسی کو نوکری میں توسیع نہیں کی جائے گی لیکن صرف دو دن بعد گورنر نے دو وائس چانسلروں کو دو دو سال کی توسیع دے دی۔ لوگ چاہتے ہیں کہ حکم راں طبقہ مرکز کے خلاف کھل کر کھڑا ہو لیکن نیشنل کانفرنس مرکز کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتی۔ ایسے میں نیشنل کانفرنس بری طرح پھنس گئی ہے اور اس نے بی جے پی کے تئیں نرم پالیسی اپنائی ہے جس سے عام لوگ نیشنل کانفرنس سے مایوس نظر آرہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025