
ابو منیب
ہمارے سماج میں منفی خبروں کا شور عام ہے لیکن کبھی کبھار ایسی مثبت کہانیاں بھی سامنے آتی ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں اور انسانیت پر یقین کو پختہ کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا جو اکثر تنازعات کا مرکز بنتا ہے کبھی کبھار ایسی دلنشین داستانیں بھی بیان کرنے لگ جاتا ہے جو امید کی کرن جگاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک پوسٹ ہماری نظر سے گزری، جس میں امانت و دیانت داری کا پیغام پوشیدہ ہے۔
دھرتی کے جنت نظیر خطے کشمیر کی وادیوں میں امرناتھ یاترا کے دوران ایک ایسی کہانی رقم ہوئی جو دل کو چھو لیتی ہے۔ فیس بک پر ایک صارف دنیش رتنانی نے اپنی یاترا کا ایک واقعہ شیئر کیا کہ وہ پِسّو ٹاپ پر تھے جب انہیں احساس ہوا کہ اگلے چند دنوں کے لیے ان کے پاس نقد رقم کم پڑ رہی ہے۔ شیش ناگ پہنچ کر انہوں نے ایک دکان سے فون پے کے ذریعے 3150 روپے کی ادائیگی کی مگر ٹرانزیکشن زیر التوا رہ گئی اور اسے مکمل ہونے میں تین سے چار دن لگنے کا امکان تھا۔ دکان دار یاور حسین نے بڑے خلوص سے ان سے کہا کہ ’’آپ فکر نہ کریں، اگر پیسے میرے اکاؤنٹ میں آ جائیں تو میں آپ کو فون پے کے ذریعے واپس کردوں گا۔‘‘
پریشان حال دنیش نے دوسرے مسافروں سے کسی طرح نقد رقم کا بندوبست کر لیا مگر دل میں کھٹک باقی رہی کہ شاید اب وہ 3150 روپے واپس نہ مل سکیں۔ دوستوں نے بھی یہی کہا کہ امید چھوڑ دو، کیونکہ بٹلال سے شیش ناگ تک تین دن کا سفر دوبارہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن دنیش نے ہمت کی اور ایک امید بھرا فون یاور حسین کو کیا۔ جواب سن کر دنیش کا دل کھل اٹھا جب یاور نے نہ صرف دنیش کو فوراً پہچان لیا بلکہ ایک منٹ کے اندر پورے 3150 روپے بھی واپس بھیج دیے۔ یہ ایمان داری کی ایسی مثال تھی جس نے دنیش کے دل کو بہت متاثر کیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر یاور حسین کی دیانت داری کی داد دینے کے لیے یہ پوسٹ لکھی۔
اسی پوسٹ پر کمار کوسٹبھ نے بھی اپنا ایک ایسا ہی تجربہ شیئر کیا کہ وہ پنچ ترنی میں تھے جب انہوں نے یو پی آئی کے ذریعے ادائیگی کی کوشش کی تاکہ نقد رقم بچائی جاسکے۔ ان کی ٹرانزیکشن بھی زیر التوا ہوگئی۔ دکاندار نے نقد لینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ ایک دو دن میں اطلاع دیں گے کہ آیا رقم موصول ہوئی یا نہیں۔ دو دن بعد دکاندار نے خود فون کرکے بتایا کہ 4000روپے کی رقم جو شیش ناگ سے پچھو سروس کے لیے ادا کی گئی تھی موصول ہوگئی ہے۔
اس پوسٹ پر دیگر صارفین نے بھی رد عمل کا اظہار کیا۔ اتسو چودھری نامی صارف نے اس ایمان داری کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسے ضرور داد ملنی چاہیے، جبکہ محسن علی خان نے کشمیریوں کی دیانتداری اور امانت داری کو خراج تحسین پیش کیا۔ دنیش نے جواباً کہا کہ واقعی بہت سے کشمیری ایمان دار ہیں۔
یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمارے اردگرد اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے کردار سے انسانیت پر یقین اس وقت بحال کراتے ہیں جب ہم منفی خبروں کے شور میں گھرے ہوتے ہیں۔ ایسی کہانیاں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہیں جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ ایمان داری اور خیر خواہی اب بھی ہمارے سماج کی رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ تو آئیے، ہم بھی ایسی کہانیوں میں رنگ بھریں تاکہ ہمارا معاشرہ ایمان داری، امید اور انسانیت کے رنگوں سے جگمگا اٹھے
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025