کشمیر میں تحقیر، ہریانہ میں ہار اور مہاراشٹر سے فرار
ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ اور کشمیر کے انتخابات تین مرحلوں میں!
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
کشمیر میں بی جے پی کی ہار یقینی ہریانہ کے ذریعہ پردہ پوشی کی کوشش
وزیراعظم مودی نے یوم آزادی کے دن جو بڑے بڑےخواب بیچے ان میں سے ایک ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا تھا۔انہیں یہ خوش فہمی رہی ہوگی کہ لال قلعہ کی شاندار تقریر کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر کے لوگ ان پر مر مٹیں گے اور وہ بڑے آرام سے ان دونوں ریاستوں میں انتخاب جیت جائیں گے۔ اسی لیے وہ بھول گئے کہ یہ جشن آزادی کا موقع ہے اور اس لیے ان کو پرچار منتری کے بجائے پردھان منتری کی حیثیت سے خطاب کرنا چاہیے۔ سال بھر تو وہ انتخابی تقاریرمیں قومی رہنما کے بجائے پارٹی کے لیڈر دکھائی دیتے ہیں۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر پریڈ تو ہوتی ہے تقریر نہیں ہوتی اس لیے پندرہ اگست ہی وہ واحد موقع تھا جبکہ وہ وزیر اعظم نظر آسکتے تھے مگر اس موقع کو بھی انہوں نے گنوا دیا اور حزب اختلاف پر اوچھے الزامات اور رکیک حملے کرنے میں لگ گئے۔ آئی ٹی سیل نے بھی وزیر اعظم سے ترغیب لے کرایک پوسٹر نکالا جس میں تین تصاویر تھیں ۔ اس میں راہل گاندھی کے ایک طرف اندرا گاندھی اور دوسری جانب پنڈت نہرو کی تصویر تھی۔ نیچے جلی حرفوں میں لکھا تھا ’لٹیرے‘۔ کیا کوئی سرکاری جماعت یوم آزادی کے موقع پر سابق وزرائے اعظم کو اس طرح یاد کرتی ہے؟ یا حزب اختلاف کے رہنما کو ایسے القاب دیتی ہے؟ لیکن بی جے پی جیسی بدقماش پارٹی جس سطح تک بھی گر جائے کم ہے۔
’ون نیشن ون الیکشن ‘ کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم ریاستِ جموں وکشمیر میں پچھلے دس سالوں میں ایک الیکشن بھی نہیں کراسکے ۔ جموں وکشمیر کے عوام کے لیے یہ ’اے نیشن وتھاوٹ الیکشن ‘ کا زمانہ تھااسے ’ون نیشن نو الیکشن‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے پچھلے سال دفعہ 370 کی منسوخی کو حق بجانب ٹھیراتے ہوئے مرکزی حکومت سے ریاستی انتخابات سے متعلق سوال کیا تو اس کا جواب تھا کہ الیکشن کمیشن جب بھی انتخابات کروانا چاہے کرواے اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اس گول مول جواب کے جھانسے کو سمجھ گیا اور ستمبر 2024تک کی مہلت دے ڈالی ۔ اس لیے اب وہاں انتخاب کروانا سرکار کی مجبوری بن گئی ہے ورنہ کوئی سپریم کورٹ میں چلا جاتا تو خوب جوتے پڑتے۔ اس لیے دو سے بھلے تین ہوگئے ۔ اس کے ڈیڑھ ماہ بعد جھارکھنڈ کا الیکشن ہونا ضروری ہے اس لیے مودی کی رائے کے مطابق پیسہ بچانے کے لیے وہاں بھی الیکشن کوایک ماہ قبل کروانے پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا ۔
دہلی کی صورتحال بھی بڑی دلچسپ ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال فی الحال جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ ابھی حال میں نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیہ کو ایک طویل عرصے کے بعد ضمانت مل گئی ہے۔ سنجے سنگھ پہلے ہی جیل سے رہا ہوچکے ہیں۔ ویسےبھی اروند کیجریوال کا جیل میں ہونا عآپ کے حق میں ہمدردی کی لہر بن سکتا ہے۔ اس لیے اگر مرکزی حکومت دہلی کے انتخابات میں بھی تعجیل کرتی تو اس کا ایسا کرنا ’ون نیشن ون الیکشن ‘ کی راہ میں ایک قدم قرار دیا جاتا اور عام آدمی پارٹی بھی گوناگوں وجوہات کی بناء پر اس کا خیر مقدم ہی کرتی ۔ بہار میں تقریباً چھ ماہ قبل ریاستی انتخاب کروا کر نتیش کمار پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنا بھی بی جے پی کی ایک سیاسی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے نتیش کمار بھی ایک پیر پر کھڑے ہیں ۔ اس لیے ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے پیش نظر چھ صوبوں میں انتخاب ہونے کے امکانات پرغور ہوسکتا تھا مگر الیکشن کمیشن کے اعلان سے ایسا لگا گویا ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ اور بے ساختہ ہندی زبان کی یہ کہاوت یاد آگئی۔ ’چوبے چلے تھے چھبے بننے ، دوبے بن کر لوٹ آئے‘ یعنی تین چار یا چھ کے بجائے صرف دوریاستوں پراکتفا کرلیا گیا ۔
2009 سےمہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات ایک ساتھ منعقد ہو رہے ہیں۔ 2014 میں ہریانہ میں بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ 2019 میں وہ اپنے بل بوتے پر تو حکومت نہیں بناسکی مگر پھر بھی جے جے پی کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے حکومت سازی میں کامیاب ہوگئی۔ اس بار جموں وکشمیر کے ساتھ ہریانہ کے انتخابات کا اعلان تو ہوگیا مگر مہاراشٹر میں بی جے پی انتخاب کروانے کی ہمت نہیں دکھا سکی۔ اس کی وجہ پارلیمانی الیکشن کے چونکانے والے نتائج ہیں جس نے بھگوائیوں کے ہوش اڑا دیے۔ 2019 میں ہریانہ کے برعکس مہاراشٹر میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے اپنے قدیم حلیف شیوسینا کا ساتھ چھوڑ کر اجیت پوار کے ساتھ حکومت سازی کی کوشش کی اور اس حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے بڑی پارٹی کا رہنما ہونے کے باوجود وہ ڈھائی سال تک حزب اختلاف میں رہےاور باقی ڈھائی سال اپنی سرکار کے باوجود نائب وزارت اعلیٰ سنبھالنے پر مجبور کردیے گئے ۔ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگا ۔ ہریانہ میں وہ دس سے گھٹ کر پانچ پر آگئی اور مہاراشٹر میں اسے صرف نو مقامات پر کامیابی ملی ۔
مہاراشٹر کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے سبھی جماعتوں سے زیادہ اٹھائیس مقامات پر قسمت آزمائی کی اس کے باوجود دہائی پار نہیں کرسکی کیونکہ اس کا اسٹرائیک ریٹ صرف بتیس فیصد تھا ۔ بی جے پی ارکان پارلیمان کی تعداد میں تیرہ کی زبردست کمی نے مرکز میں حزب اقتدار کو رُلا دیا ۔ بی جے پی کی حلیف شیوسینا نے پندرہ سیٹوں پر مقابلہ کیا اور سات پر کامیابی درج کرائی یعنی ایکناتھ شندے جیسے کمزور رہنما کا اسٹرائیک ریٹ بھی دیویندر پھڈنویس سے بہت بہتر تھا۔ پچھلے انتخاب میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شرد پوار کے بھتیجے کو چار مقامات پر لڑنے کا موقع دیا گیا اوربے چارے اجیت پوار کو صرف ایک نشست پر کامیابی ملی ۔ ان کا اسٹرائیک ریٹ سب سے خراب یعنی صرف پچیس فیصد تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس این ڈی اے نے اس بار پینتالیس سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا تھا اور اسے یقین تھا کہ کم ازکم پینتیس تو آہی جائیں گی نصف پر بھی نہیں پہنچ سکی اوراسے جملہ سترہ نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔
اس کے برعکس کانگریس نے ایک مقام سے چھلانگ لگا کر تیرہ مقامات پر زبردست کامیابی درج کروائی اور اس کا ایک آزاد امیدوار بھی ایک لاکھ سے زیادہ کے فرق سے کامیاب ہوکر پارٹی میں لوٹ آیا۔ انڈیا محاذ میں شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) نے اکیس مقامات پر الیکشن لڑا اور تیتالیس فیصد اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ نو پر کامیاب ہوئے پھر بھی چار کا اضافہ ہی ہوا ۔ این سی پی نے صرف دس مقامات پر الیکشن لڑا اور اسی فیصد کے اسٹرائیک ریٹ سے آٹھ پر کامیابی درج کروا لی اوراس کے پہلے کے مقابلے میں پانچ ارکان پارلیمان مزید بڑھ گئے تھے ۔ اس طرح جملہ اکتیس مقامات پر ’انڈیا‘ کا پرچم لہرا یا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کے ساتھ مہاراشٹر کے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس کی ایک وجہ تو برسات کا موسم ہے جو ہر سال آتا ہے۔ انہوں نے تہواروں کا بھی حوالہ دیا ہے حالانکہ گنیش چترتھی کے علاوہ پتر پکش اور دیوالی تو ہریانہ اور جموں میں بھی زور و شور سے منائی جاتی ہے۔ نوراتری کا تھوڑا بہت اثر ممبئی جیسے شہروں میں ہوتا ہے مگر بنیادی طور پر وہ گجرات کا بڑا تہوار ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے پنجرے میں بند الیکشن کمیشن کا طوطا لنگڑے لولے بہانے بنارہا ہے۔
لوک سبھا الیکشن میں مہا وکاس اگھاڑی کے فتح یاب رہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ این ڈی ا ے کو ووٹروں نے بالکل ہی مسترد کردیا۔ ووٹ شیئر کے لحاظ سے دیکھیں تو مہا وکاس اگھاڑی کو 43.71 فیصد ووٹ ملے جبکہ این ڈی اے کو 43.55 فیصد ووٹ ملے۔ یعنی دونوں اتحاد میں ووٹوں کی اصل تعداد کا فرق صرف سات سے آٹھ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس کی روشنی میں اسمبلی الیکشن میں دونوں اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ متوقع تھا لیکن اگر لوک سبھا الیکشن کے نتائج کو اسمبلی سیٹوں پر پھیلا دیا جائے تو مہاوکاس اگھاڑی 288 اسمبلی سیٹوں میں سے 157 سیٹوں پر آگے تھی یعنی وہ اکثریت کے جادوئی عدد 145 سے چند زائد سیٹوں پر سبقت لے گئی تھی۔ بی جے پی کے اندر اگر حوصلہ ہوتا تو ذرا سی کوشش سے وہ بازی پلٹ سکتی تھی مگر اب مودی اور شاہ پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کا طلسم ٹوٹ چکا ہے ۔ مہا وکاس اگھاڑی میں کمال کا اتحاد ہے ۔ ادھو ٹھاکرے نے تو کانگریس سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کسی کو بھی وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنادیا جائے۔ وہ جو بھی ہو یعنی ان کا یا کسی اور کا اسے لے کر بی جے پی کو زندہ دفن کردیا جائے گا ۔ انڈیا اتحاد کی اس قوت سے بی جے پی ڈر گئی اور انتخابی میدان سے راہِ فرار اختیار کرلی۔
مہا راشٹر کے مقابلے میں ہریانہ کی صورتحال کئی لحاظ سے مختلف ہے ۔ اول تو بی جے پی کسی طرح وہ میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک طرف وہ پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں پچاس فیصدی کا نقصان اٹھاکر دس سے پانچ پر آگئی جبکہ کانگریس صفر سے پانچ پر پہنچ گئی۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کانگریس نے نو مقامات پر اور بی جے پی نے دس نشستوں پر انتخاب لڑ کر یہ کامیابی حاصل کی، اس طرح اسٹرائیک ریٹ کے لحاظ سے کا نگریس کو فوقیت حاصل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کو کانگریس سے ڈھائی فیصد زیادہ ووٹ ملے مگر انڈیا اتحاد میں عام آدمی پارٹی بھی شامل ہے اور اسے تقریباً چار فیصد ووٹ ملے اسے کانگریس کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ 47.61 پر پہنچ جاتے ہیں جبکہ این ڈی اے اس سے کم 46.11 فیصدپر ہے۔
ہریانہ کا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف انڈیا اتحاد کے جملہ ووٹ تناسب میں 18.74کا اضافہ ہوا، وہیں این ڈی اے نے پچھلی مرتبہ کے مقابلے 11.91 ووٹ گنوائے ہیں۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ کانگریس کی بیالیس تو بی جے پی کو چوالیس اسمبلی حلقوں میں فوقیت حاصل ہے لیکن انڈیا اتحاد میں شامل عآپ کے چار حلقوں کی برتری کو بھلا دیا جاتا ہے اور اگر اسے جوڑ دیا جائے تو انڈیا اتحاد پھر سے این ڈی اے پر حاوی ہوجاتا ہے اور بازی الٹ جاتی ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کااسمبلی کے نتائج سے موازنہ کرتے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پچھلی مرتبہ دس میں سے دس مقامات پر کامیابی کے باوجود چار ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں بی جے پی نوے میں سے صرف چالیس پر آگئی تھی ۔ یہی کہانی اگر پھر سے دوہرائی جائے تو وہ کہاں پہنچے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سارے حقائق کے باوجود الیکشن کمیشن سے جموں و کشمیر کے ساتھ ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیوں کرایا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو جموں و کشمیر میں اپنی ہار کا یقین ہے۔
پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے جموں کی دو اور نیشنل کانفرنس نے کشمیر کی دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی مگروہاں پر بی جے پی کے پاس صرف 24.36 فیصد ووٹ ہے جو پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں 23.13 کم ہے ۔ اسی طرح کانگریس کے ووٹ میں بھی 9.92 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ممکن ہے یہ لداخ کو الگ کرنے کے سبب ہوئی ہو۔ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پارٹیوں نے بالترتیب چودہ اور پانچ فیصد ووٹ کا اضافہ درج کیا ہے ۔ اس بار کانگریس کے ساتھ یہ دونوں جماعتیں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں اس لیے بی جے پی کی کراری ہار طے ہے۔ اس کی پردہ پوشی کے لیے ہی ہریانہ کو ساتھ میں رکھا گیا تاکہ اس زخم کی تھوڑی بہت مرہم پٹی ہوجائے۔ آر ایس ایس ازل سے آئینِ ہند میں دفعہ 370 کی مخالف رہی ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی وجہ سے ہی کشمیر میں علحیدگی پسندی اور تشدد ہے۔ اس دفعہ کے ختم ہوتے ہی کشمیر کے حالات بالکل معمول پر آجائیں گے، اور ظاہر ہے کہ یہ کارنامہ انجام دینے والی بی جے پی جموں و کشمیر سمیت سارے ملک میں اپنا اقتدار مضبوط کرلے گی ۔ اسی لیے پانچ سال بعد اس کو بڑے طمطراق سے ختم کردیا گیا اور اب ان دعوؤں کی حقیقت دیکھنا ضروری ہے ۔
کشمیر میں اگر حالات معمول پر آچکے ہوتے تو وہاں کے لوگوں کو پانچ سالوں تک الیکشن کا انتظار کرنے پر مجبور کیوں ہونا پڑتا؟ عدالتِ عظمیٰ کی پھٹکار پر حکومت مہلت کےآخری لمحات میں اس کا انعقاد کرنے پر مجبور کیوں ہوتی؟ حالات کو معمول پر لانے والوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ جب جموں و کشمیر میں کل پانچ پارلیمانی نشستیں ہی ہیں تو پھر وہاں پر پانچ مرحلوں میں رائے دہندگی کیوں ہوئی؟ جبکہ تمل ناڈو کی چالیس نشستوں پر ایک ہی دن میں ووٹ پڑ گئے؟ ون نیشن ون الیکشن کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ ہریانہ کے نوے نشستوں پر تو پولنگ ایک ہی دن میں ہوجائے گی مگرجموں و کشمیر میں یہی کام تین الگ الگ دنوں میں ہوگا جبکہ لداخ کو الگ کیا جاچکا ہے اور وہاں الیکشن کی کوئی بات ہی نہیں کررہا ہے۔ جہاں تک تشدد کا تعلق ہے وہ وارداتیں کشمیر کی وادی سے نکل کر جموں میں آگئی ہیں اور نئی حکومت بننے کے بعددو ماہ میں سترہ فوجی اور اتنے ہی عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں جو پچھلے تین سالوں کے اوسط سے دوگنا ہے۔حالات کے معمول پرلانے کا دعویٰ ہی اگر غلط نکل گیا تو پھر اس سے منسلک زمینوں کی فروخت اور خوشحالی وغیرہ کے خواب ازخود چکنا چور ہوگئے۔ وہ نوجوان جنہیں کشمیر میں جاکر بیاہ رچانے کا خواب دکھایا گیا تھا اب سنگھ پریوار کے پرچارک بن کر مجرد زندگی گزاریں گے۔
جموں و کشمیر کی دفعہ 370 کے خاتمے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا خواب تو اس طرح ٹوٹ کر بکھرا کہ بے چاری بی جے پی کو پوری وادی میں ایک امیدوار نہیں ملا۔ لداخ میں اسے دوبارہ کامیابی تو دور نیشنل کانفرنس کے ایک باغی امیدوار نے شکست فاش سے دوچار کرکے کانگریس کے پیچھے تیسرے نمبر پر ڈھکیل دیا۔ 2019 میں کشمیر کی دفعہ 370 ختم کرنے کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابات ہوئے اس میں بی جے پی نے اسے بھنانے کی خوب کوشش کی ۔ اتفاق سے مہاراشٹر کا ایک فوجی جوان اسی زمانے میں کشمیر میں ہلاک ہوا اور اس کی موت سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی مگر بی جے پی پہلے کی بہ نسبت الٹا دس نشستیں گنوا بیٹھی۔ ہریانہ میں فوج میں شامل ہونے کا رواج عام ہے۔ وہیں کشمیر میں جاکر شادی رچانے کا شوشہ چھوڑا گیا تھا لیکن بی جے پی وہاں معمولی اکثریت حاصل کرنے سے محروم رہی اور اسے جے جے پی کی بیساکھی پر حکومت بنانی پڑی ۔ اس کے بعد دہلی اور بہار کے انتخابات میں بھی اس کی یاد دلائی گئی مگر چونکہ کوئی فائدہ نہیں ہوا اس لیے بی جے پی خود اسے بھول گئی۔ لیکن اب جو نتائج آئیں گے اس کو بھگوائیوں کے لیے بھولنا بہت مشکل ہوگا اور اس کا اثر مہاراشٹر کے الیکشن پر بھی پڑے گا ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024