کشمیر میں بلڈوزر کی دہشت

انسداد تجاوزات کے نام پر غریبوں کی بے دخلی، عوام میں شدید برہمی

ندیم خان، بارہمولہ، کشمیر

غریبوں کے لگائے ہوئے درخت پتھروں کے بنائے گھر اور ٹین کی دیواریں افسروں کی موجودگی میں توڑی جارہی ہیں۔
بارہمولہ:جموں وکشمیر انتظامیہ کی جانب سے سبھی اضلاع میں شروع کی گئی انسداد تجاوزات مہم پر عوام میں شدید برہمی پائی جارہی ہے اور مرکز کے زیر انتظام علاقے کے کم وبیش سبھی اضلاع میں اس مہم کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اس مہم کو عوام کش قرار دے کر حکم نامہ سے فی الفور دستبرداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دراصل محکمہ کے کمشنر سکریٹری وجے کمار بدھوری نے سبھی ضلع ترقیاتی کمشنروں کے نام جاری کیے گئے ایک حکم نامہ میں انہیں ہدایت جاری کی تھی کہ وہ سرکاری اراضی و کاہچرائی پر ناجائز قبضہ ختم کرائیں اور روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ صوبائی کمشنروں کے ذریعے پیش رفت رپورٹ ان کے دفتر کو ارسال کریں۔ مذکورہ حکم نامہ کی تعمیل میں کارروائی لگ بھگ اختتام کو پہنچ رہی ہے جس پر عوام کا غصہ عروج پر ہے۔ حکومت کے اس حکم نامے سے مفاد رکھنے والے کچھ لوگ ضرور خوش ہیں لیکن بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس قسم کی مہم چلانی ہی ہے تو سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ حکومت کو اس حکم نامے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بہت سے وہ لوگ بھی ہیں‌ جن کی اپنی زمین نہیں ہوتی اور وہ اپنی عارضی پناہ گاہیں سرکاری زمین جیسے کاہچرائی یا اسٹیٹ لینڈ پر گھر بنالیتے ہیں، ان کے لیے پہلے کوئی متبادل انتظام کیا جائے تاکہ آپ کے بلڈوزر سے کسی غریب کا آشیانہ نہ اُجڑ جائے۔
ایک طرف ایل جی صاحب نے یہ بیان دیا تھا کہ کسی غریب کو تنگ نہیں کیا جائے گا اور بلڈوزر صرف انہی گھروں پر چلایا جائے گا جو طاقت کے بل بوتے پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے بنائے گئے ہیں لیکن دوسری طرف غریبوں کے لگائے ہوئے درخت، پھتروں کے بنائے گھر اور ٹین کی دیواریں افسروں کی موجودگی میں توڑے جارہے ہیں۔ پچھلے دو دنوں میں نے بہت سے غریبوں کو روتے ہوئے اور امیروں کو چین کی نیند سوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایل جی صاحب، آپ کا بیان معنی رکھتا ہے لیکن اگر آپ کے ماتحت سرکاری افسران اس پر عمل نہیں کریں گے تو کس کی زبان پر بھروسہ کیا جائے گا؟ جب حکمران خود قلم ہاتھ میں لے کر غریبوں کی خوشیاں تباہ کرنے کے لیے جملے لکھنے لگیں گے تو انصاف کا ضامن کون ہو گا؟ خدارا ان غریبوں پر رحم کرو اور سرکاری افسروں کو بھی پابند کرو کہ وہ کسی غریب کو تنگ نہ کریں، زبان سے کہے گئے الفاظ پر عمل کرو۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ جمہوری ملک ہے اور یہاں ہر شخص کو جینے کا حق ہے۔ حکومت لوگ ہی بناتے ہیں۔ یہ ضرور کہ جموں وکشمیر آج یو ٹی ہے لیکن ہندوستان میں جمہوری حکومت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے بھی سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا ہے وہ غیر قانونی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن افسران نے اپنے دور میں ان زمینوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دی کیا وہ حکومت کی نظر میں قصور وار نہیں ہیں؟ جب ان زمینوں پر ناجائز تجاوزات کیے جارہے تھے تب محکمہ کے افسران کہاں تھے۔ کیا محکمہ کے لوگوں کو حکومت سے تنخواہ نہیں مل رہی تھی؟ یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے، جس کا جواب حکومت کو دینا چاہیے۔ کئی سیاحتی مقامات پر اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں کی جانب سے محکمہ جنگلات کے ساتھ مل کر بڑے بڑے کمرشل کمپلیکس تعمیر کیے گئے ہیں، کیا ان پر بھی سرکاری بلڈوزر چلیں گے یا صرف سرکاری زمینوں پر کسانوں کے لگائے ہوئے درخت اور پودے کاٹے جائیں گے؟ کئی جگہوں پر آج بھی سرکاری اداروں کو زمین نہیں مل رہی، لیکن حکومتی نظام چلانے والوں نے کبھی کوئی اقدام نہیں کیا جس طرح آج سرکاری زمین نکالی جا رہی ہے کیا اس وقت ان اداروں کو بنانے کے لیے سرکاری زمین نہیں نکالی جا سکتی تھی؟ اگر واقعی حکومت اس بارے میں سنجیدہ ہے تو ہر فرد سے سرکاری زمین واپس لی جانی چاہیے خواہ وہ امیر ہو یا غریب، منتری ہو یا سنتری، آفیسر ہو یا مزدور، کسان ہو یا بزنس مین۔ صرف غریب عوام کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
ہم نے جب اس حوالے سے لوگوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ حکومت امیر اور اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کو چھوڑ کر غریب عوام کو نشانہ بنا رہی ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت یہ بیان دے رہی ہے کہ غریب عوام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور یہ مہم ان افراد کے خلاف چلائی جائے گی جنہوں نے سرکاری اراضی کے بڑے رقبہ کو ہڑپ کیا ہے لیکن کیا کچھ اور ہی جا رہا ہے۔ لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ یہ مہم عوام مخالف ہے جس میں غریب لوگوں سے زمین کے چھوٹے ٹکڑے تک واپس لیے جا رہے ہیں، جن پر وہ کھیتی کرکے اپنا گزارا کرتے تھے. وہیں اس شدید سردی میں بیشتر غریب لوگوں کو بے گھر کرکے انہیں سایہ سے محروم کیا گیا ہے۔
لوگوں کے مطابق ایک طرف حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہاں کی عوام کے لیے امن اور ترقی کی راہیں استوار کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب ان کے ساتھ اس طرح کی کارروائی کرکے انہیں ستایا جا رہا ہے انہیں ذہنی کوفت کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
وہی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی حکومت کے اس اقدام کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ سینئر سیاسی رہنما ہارون چودھری نے کہا کہ یہ مہم بڑے لوگوں کے خلاف چلائی جانا چاہیے، لیکن یہاں غریبوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر بے حد ظلم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس اقدام پر نظرثانی کرنی چاہیے اور غریبوں پر کیے جانے والے اس ظلم کو بند کرکے اراضی مافیہ اور بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ اس زمین پر کالونیاں اسکول اسپتال تعمیر کیے جائیں اور کشمیر میں "سیٹلر کولنونالزم” کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی نے کہا کہ انتظامیہ کے ایسے فیصلے عوام مخالف ہیں جس سے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔
ویسے تو بی جے پی کو چھوڑ کر کم و بیش سبھی جماعتوں نے اس حکم نامہ کے خلاف اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج بھی ہوئے ہیں اور فوری طور اس حکم نامہ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ اس عوامی ناراضگی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے محکمہ مال کے انتظامی سربراہ مسٹر بدھوری بار بار یہ وضاحت دے رہے ہیں کہ یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت ہے جن کے پاس انتہائی قلیل سرکاری زمین ہے بلکہ اس مہم کے تحت ترجیحی بنیادوں پر وہ سرکاری اراضی بازیاب کرائی جائے گی جس کی قیمت زیادہ ہے اور جو رقبہ میں بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ یہ مہم کسی مخصوص طبقہ یا آبادی کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اراضی کا تحفظ ان کی اولین ذمہ داری ہے اور وہ اسی اراضی کے تحفظ کے لیے ہی تنخواہ لے رہے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غریبوں کے آشیانوں پر بلڈوزر چلائے جائیں گے اور ناجائز قبضوں سے چھڑائی جانے والی زمین انہی لوگوں کے لیے استعمال کی جائے گی۔ وجے کمار بدھوری کی وضاحت اپنی جگہ ہے لیکن جس طرح یہ مہم چلائی جا رہی ہے وہ قطعی اطمینان بخش نہیں ہے اور اس سے یقینی طور پر پورے یو ٹی میں ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے نئی اراضی قوانین یونین ٹریٹری میں لاگو کیے جس میں نئی لینڈ گرانٹ پالیسی اور صنعت پالسی قابل ذکر ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں انتظامیہ نے جموں وکشمیر کے ہر ضلع میں سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جس پر صنعت کاری کا پروگرام بنایا گیا. وہیں لینڈ گرانٹ پالیسی پر پرانے لیز ختم کیے گئے ہیں اور اب اس زمین کی لیز، نئے تاجروں کو دی جائےگی۔
***

 

***

 دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے نئی اراضی قوانین یونین ٹریٹری میں لاگو کیے جس میں نئی لینڈ گرانٹ پالیسی اور صنعت پالسی قابل ذکر ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں انتظامیہ نے جموں وکشمیر کے ہر ضلع میں سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جس پر صنعت کاری کا پروگرام بنایا گیا۔ وہیں لینڈ گرانٹ پالیسی پر پرانے لیز ختم کیے گئے ہیں اور اب اس زمین کی لیز، نئے تاجروں کو دی جائےگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023