ندیم خان، بارہمولہ، کشمیر
منشیات سے چھٹکارا دلانے کے مراکز قائم کرنے کے لیے این جی اوز کو آگے آنے کی ضرورت
کشمیر میں سوپور کے ڈانگر پورہ علاقے میں بیٹے کے ہاتھوں ماں کے قتل کے واقعے کے بعد پورے کشمیر میں غم کا ماحول ہے۔ بارہمولہ ضلع کے ڈانگر پورہ سوپور علاقے میں چند روز قبل نشے کے عادی 32 سالہ بیٹے شوکت احمد گنائی نے اپنی 70 سالہ ماں کا گلا دبا کر قتل کر دیا۔پولیس ذرائع نے بتایا کہ جرم کے کچھ گھنٹے بعد ملزم کو جو منشیات کا عادی بتایا جاتا ہے، گرفتار کر لیا گیا ہے۔ متوفی خاتون کی شناخت 70 سالہ عائشہ بیگم بیوہ مرحوم محمد رمضان گنائی ساکنہ ڈانگر پورہ سوپور کے طور پر ہوئی تھی۔ علاقے کے بشمول، سماجی کارکنوں و رشتہ داروں نے دعوت نیوز کو بتایاکہ سنگین جرم کا مرتکب ملزم شوکت احمد گزشتہ15 سال سے نشے کی لت میں مبتلا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ اس کو پولیس کے سپرد کیا گیا لیکن نشے کی لت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ ملزم کی بہن نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ ایسے مجرم کو عوام کے سامنے پھانسی کے تختے پر لٹکائیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش نہ آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوری وادی میں منشیات اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ چند ہفتے قبل اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جہاں ضلع اننت ناگ میں ایک نوجوان نے اپنی والدہ اور دیگر تین افراد کے سروں پر لاٹھی سے وار کرکے انہیں زخمی کر دیا تھا۔ دونوں نوجوانوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جرم کا ارتکاب کرتے وقت وہ نشے کی حالت میں تھے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یو ٹی جموں کشمیر کی مصروف شاہراہیں دیکھ لیں سینکڑوں نوجوان وہاں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان میں کچھ گھریلو مسائل سے تنگ آ کر نشے کی طرف راغب ہوئے اور کچھ مجنوں کے حصہ دار بن کر اس ناسور کا شکار ہوئے اور کچھ بے روزگاری اور معاشرتی بے حسی کی وجہ سے نشے کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات میں منشیات فروخت کرنے والے مافیا گروپ کام کر رہے ہیں۔ اگر بر وقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو موجودہ نوجوان نسل برباد ہو کر رہ جائے گی۔ ہر چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات میں ان کا ایک مافیا کام کر رہا ہے، ان کے لالچ کی وجہ سے نہ جانے کتنے جوانوں کا تعلیمی کریئر برباد ہوگیا ہے۔ کتنے جوانوں کی موت واقع ہو گئی، کتنے افراد اپنی سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بربادی کے دہانے تک پہنچ گئے اور نہ کتنے باصلاحیت نوجوان اپنی خداداد صلاحیتوں کو گنوا کر راہ راست سے بھٹک چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ڈرگ کنٹرول پروگرام کے سروے کے مطابق 2008 میں کشمیر میں 70000 سے زیادہ نشے کے عادی افراد تھے جن میں 4000 خواتین بھی شامل تھیں۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کشمیر میں 65 سے 70 فیصد طلباء منشیات کا استعمال کر رہے ہیں، اور 26 فیصد طالبات بھی اس جال میں پھنس چکی ہیں۔ تحقیق کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ عادی افراد 18 سے 35 سال کی عمر کے گروپ میں آتے ہیں۔ 2 فروری 2016 کو وادی کے ایک معروف اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں دو لاکھ سے زیادہ افراد افیون کا استعمال کررہے ہیں، اور ریاست کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں میں اپریل اور دسمبر 2015 کے درمیان 69،434 منشیات کے عادی مریضوں کو داخل کروایا گیا۔ اس طرح کے حقائق اور مشاہدات انتہائی تشویشناک ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منشیات کی لعنت ہمارے اطراف میں پھیلا چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ منشیات کی لت کشمیر کے ہر گھر میں داخل ہوچکی ہے۔اگر ہم اپنے گردو نواح کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ تقریبا ہر گاؤں، قصبے میں منشیات فروشوں کا ایک مافیا وجود میں آچکا ہے جو کچھ پیسوں کی خاطر نوجوانوں کو اپنے مذموم منصوبے کا شکار بناتا ہے۔ منشیات کی لت کے اس بڑے پیمانے پر پھیلنے کے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں اور پریشانیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اپنے فطری ہنر کو درکنار کرکے نوجوان منشیات کی اسمگلنگ کرنے والوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ان کے اکسانے پر نوجوان منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور وہ اسے ہر قسم کے غم سے نجات پانے اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ منشیات کے اسمگلرز اپنا شیطانی کاروبار چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر ڈرگ سپلائی کرنے کا جال بچھاتے ہیں اور جوانوں کی نو عمری کا غلط فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے دامِ فریب میں پھانس لیتے ہیں۔ منشیات کے اسمگلرز اس گھناونے دھندے میں اس لیے آتے ہیں تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کر سکیں کیونکہ منشیات کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہوتی ہے، اور اس کے عادی کسی بھی قیمت پر ان کوخریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جو نوجوان منشیات کا استعمال کرتے ہیں وہ کئی قسم کی بیماریوں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان میں خودکشی کرنے کے خیالات پروان چڑھتے ہیں اور یوں کافی تعداد میں جوان اپنی زندگی کھو بیٹھتے ہیں۔ عام طور پر جوان منشیات کے منفی اثرات سے بے خبر ہوتے ہیں اور دیکھا دیکھی میں کبھی ان کا استعمال کرتے ہیں مگر ایک بار عادت پڑ گئی تو پھر اس لت کو چھڑانا آسان نہیں رہتا۔ منشیات کی لت انسان کو اخلاقی، معاشرتی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر کمزور بنا دیتی ہے اور صحت و تندرستی کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ منشیات کو سپلائی کرنے والے روز بروز دولت مند ہوتے جارہے ہیں اور وہ اپنے کاروبار کے فروغ میں جی جان لگا دیتے ہیں اور نوجوان ان کا سب سے آسان نشانہ ہوتے ہیں۔ منشیات کی لت نہ صرف ان لوگوں کے لیے خطرناک ہے جو اس کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ یہ پورے معاشرتی تانے بانے پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
کشمیر میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے۔ یہ اس کی کل ایک کروڑ 36 لاکھ آبادی کا سات اعشاریہ 35 فی صد ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ایک لاکھ آٹھ ہزار مرد اور سات ہزار خواتین بھنگ کا استعمال کرتی ہیں جب کہ پانچ لاکھ 34 مرد اور آٹھ ہزار خواتین افیون اور ایک لاکھ 60 ہزار مرد اور آٹھ ہزار خواتین مختلف اقسام کی نشہ آور اشیا کے استعمال کے عادی بن گئے ہیں۔اس کے علاوہ ایک لاکھ 27 ہزار مردوں اور سات ہزار خواتین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دم کش ادویات لیتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد کوکین اور اعصابی نظام کو متحرک کرنے والی ایمفٹامین قسم کی ادویات اور ہیلو سینوجنز کی کیمیائی مرکبات استعمال کرنے کے عادی ہیں۔
سری نگر میں پولیس حکام نے بتایا ہے کہ انہوں نے منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر اس کے خلاف مہم میں شدت پیدا کی ہے اور ان کا کاروبار کرنے والوں کو سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کرنے کے عمل کو وسیع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 میں تقریباً ایک ہزار سات سو منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور رواں برس کے پہلے تین ماہ کے دوران ایسے 300 سے زائد افراد کے خلاف نشہ آور ادویات کی غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنے سے متعلق ایکٹ اور دوسرے قوانین کے تحت مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک پولیس افسر نے کہا کہ منشیات کے اس کاروبار میں کئی خواتین کو بھی ملوث پایا گیا ہے۔ ان کے بقول ہم نے کئی افراد کو متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیجا ہے۔ کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے حال ہی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت منشیات کے استعمال کو کسی بھی قیمت پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ملک بھر میں جاری ’نشہ مکت بھارت ابھیان‘ یا نشے سے پاک بھارت مہم کا حصہ بن کر جموں و کشمیر انتظامیہ نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔
ہم نے اس حوالے سے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عبدالوحید خان سے بات کی ان کا کہنا ہے کہ منشیات کے استعمال اور جرم کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان کے بقول نشہ آور اشیا کے استعمال سے اعصابی نظام بری طرح متاثر ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں نشہ کرنے والے کی دماغی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے اور وہ صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر پاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نشے کے عادی لوگ منشیات اور دیگر نشہ آور اشیا خریدنے کے لیے پیسے حاصل کرنے کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور یوں معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر مظفر خان نے کہا کہ کشمیر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد اب بھی کم نہیں ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ ڈاکٹروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیپاٹائٹس سی کے انفیکشن اور زیادہ مقدار میں ہونے والی اموات ہیں۔ ہیروئن کے عادی افراد مہنگی منشیات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اکثر جرائم کی دنیا کا رخ کرتے ہیں۔ وہ دوا کی خریداری کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ ایک اور چیلنج نوجوان لڑکیوں کے بارے میں ہے کہ ان کی بڑی تعداد دماغ کو مفلوج کر دینے والی منشیات کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نشے کی عادی نوجوان خواتین بھی علاج کے لیے رجوع ہو رہی ہیں۔ کم از کم تین یا چار لڑکیاں ہر ماہ وائی ڈی بحالی مرکز میں علاج کے لیے رپورٹ کرتی ہیں۔ ڈاکٹر خان کا خیال ہے کہ کشمیر میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے مزید بحالی مراکز کی ضرورت ہے۔ منشیات سے چھٹکارا دلانے کے مراکز قائم کرنا آسان نہیں ہے، این جی اوز، پولیس، نجی کمپنیوں اور میڈیکل کالجوں کو آگے آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمیں طبی ہنگامی خدمات کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ مقدار میں ہونے والی اموات کو روکا جا سکے۔” کشمیر کے تین پرانے میڈیکل کالجوں میں اب تک ایسی سہولتیں نہیں ہیں، یہاں تک کہ جب والدین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو علاج کے لیے سنٹر لاتے ہیں، بہت سے لوگ زیادہ اخراجات کی وجہ سے علاج سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ہم نے اس مسئلہ پر جموں وکشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصرالاسلام سے گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری سماج میں منشیات کا استعمال اور کاروبار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اگر کوئی تدارک نہیں کیا گیا تو موجودہ نسل اسی وبا کی نذر ہو سکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سماج سے منشیات کے قلع قمع کی ذمہ داری صرف انتظامیہ کی نہیں بلکہ علما و فضلا اور ائمہ و واعظین کی بھی ہے۔ انہوں نے کہا ’یہاں منشیات کے استعمال و کاروبار میں ہی نہیں بلکہ دوسری سماجی برائیوں میں بھی کافی اضافہ ہو رہا ہے۔ اور آئے روز کشمیر میں قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے‘۔ جب تک حکومت اور سماجی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے اس سماجی ناسور سے نمٹا نہیں جا سکتا۔ منشیات کی لت سے وابستہ خطرات اور مضمرات کو اجاگر کرنے میں کمیونٹیز اور میڈیا کو حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منشیات سے جڑے طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرے تاکہ لوگوں کو اس بارے میں جانکاری فراہم کی جاسکے اور متعلقہ اداروں کو جوابدہ بنایا جاسکے۔ وادی کے اطراف و اکناف میں فعال مختلف NGO’s کی رسائی کو بھی پوری طرح سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ مناسب اجتماعی آگاہی کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے انفرادی کاوشیں کارگر ثابت نہیں ہوسکتیں لہٰذا تمام سماجی و انتظامی اداروں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا تب جاکر منشیات کی وبا کو جڑ سے اکھاڑا جاسکتا ہے، خاص کر حکومت جموں و کشمیر کو کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ منشیات فروشوں، افیون کی کاشت کرنے والوں اور سائیکو ٹراپک ادویات فروخت کرنے والی کیمسٹ دکانوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ ایک اور اہم ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ منشیات کے عادی بچوں کو ڈانٹنے کے بجائے پیار اور تحمل سے اس لت سے باز لانے کی کو ششیں جاری رکھیں یہاں تک کہ وہ اس برائی سے چھٹکارا پا سکیں۔ والدین کو تناؤ کی اصل وجہ اور اس پر قابو پانے کے طریقے تلاش کرنے میں مدد کے لیے پیشہ ورانہ ماہرین کی خدمات اور مشورے حاصل کرنا چاہیے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023