کشمیر اور مسلم دنیا ۔ عکس درعکس

وادی کشمیر میں اشاعت اسلام کی تاریخ اور عہد ساز شخصیتوں کا تذکرہ

عمر فاروق

کہا جاتا ہے کہ انسان کی سوچ عالمی اور اس کا عمل مقامی ہونا چاہیے۔اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ خالقِ کائنات نے اس دنیا میں بے شمار انسانوں کو پیدا فرمایا ہے۔ان میں سے ہر ایک انسان مختلف زمانے، حالات، گھریلو زندگی اور ماحول میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات اور نظریات بھی پختہ ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنے گردو پیش میں موجود کچھ نظریات کو کُلی طور پر شعوری طور پر قبول کرتا ہے،کچھ سے بالکل ہی مجتنب،بیزار اور خائف رہتا ہے اور اس پر مستزاد بعض نظریات و رسومات وغیرہ کے بارے میں تذبذب اور تردد کا شکار بھی رہتا ہے۔وہ دنیا میں پہلے سے رائج مختلف حالات کو اپنے نظریات کے مطابق بدلنا چاہتا ہے مگر امرِ واقعہ یہ کہ بڑے سے بڑا نظریہ بھی اس وقت تک موثر نہیں رہتا جب تک اس پر عمل کا آغاز انسان اپنی ذات اور مقامی سطح سے نہ کرے اور مقامی سطح پر کام کرنے کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ وہاں کے سماجی، مذہبی، سیاسی، تہذیبی، جغرافی اور ثقافتی حالات سے بہت حد تک باخبر ہو۔ اس میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے حلقہ اثر و دائرہ کار کے اندر اپنے نظریات اور اعتقادات کی ترویج کا کام شروع کرتے ہیں اور اس کو بنیاد بناکر اس پہ وسیع معاشرے کو تعمیر کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔
اگر جموں و کشمیر کی بات کریں تو یہاں کے اہلِ علم و فکر و دانش کے لیے بھی مقامی تاریخ، جغرافیہ، سیاسی، سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور مذہبی حالات سے واقف ہونا بہت ہی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے متعلقہ علمی شعبے میں بحسن و خوبی کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دے سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ تصورِ وحدتِ امت کے تحت پورے عالمِ اسلام میں بالخصوص اور باقی دنیا میں بالعموم حالات کے زیروبم پر ان کی گہری نگاہ ہو اور یہ دونوں چیزیں اس وقت تک نامکمل ہوں گی جب تک اس سلسلے میں وہ دینِ الہی سے رہنمائی حاصل نہ کریں۔بلاشبہ ڈاکٹر الطاف حسین یتو صاحب ان ہی صاحبانِ علم میں سے ہیں جو مقامی، عالمی اور دینی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ مختلف علمی موضوعات کے ادیبانہ اظہار کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں شائع شدہ ان کی کتاب "Reflections on Kashmir and the Muslim World ” مذکورہ بالا موضوعات کی جامع اور مصنف موصوف کی دقّتِ نظر، وسیع و متنوع مطالعہ کی غماز ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور تعلیم وتعلم کا طویل تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
زیرِ نظر کتاب تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور اسے وادی کے ایک مشہور و معروف اشاعتی ادارے گلشن بکس نے اعلی طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔اس کتاب کو فاضل مصنف نے تین بڑے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب ’’کشمیر میں اسلام‘‘ کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے جو اصل میں ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا ملخص ہے۔ دوسرا باب ’’کشمیریات‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں انہوں نے وطنِ عزیز سے متعلق مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لایا ہے۔باب سوم بعنوان ’’اسلامیات‘‘ میں مصنف نے بہت سے اہم دینی موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔
باب اول کل دس مضامین پر مشتمل ہے۔مصنف کا ماننا ہے کہ دنیا میں کشمیر وہ واحد جگہ ہے جہاں اس بڑے پیمانے پر صوفیانِ کرام نے دینی و سماجی سطح پر انقلاب پیدا کیا ہے۔وہ یہ لکھتے ہیں کہ شیومت اور بدھ مت میں ڈوبی اس وادی میں اسلام پھیلنے کا سبب بننے والوں میں وسطی ایشیاء اور اس کے گرد و نواح کے علاقہ جات سے آنے والے صوفیائے کرام اور یہاں پہلے سے ہی رہنے والے ریشیت (مقامی تارکینِ دنیا) دونوں شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ کشمیر میں بدھ مت کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ چوتھے عالمی بدھ کونسل کا اجلاس ۱۰۰ عیسوی میں یہیں پر منعقد ہوا ہے۔نیز یہاں کی کثیر آبادی بت پرست بھی تھی۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کی کشمیر میں اسلام کا اولین تعارف حضرت عبدالرحمن شاہ بلبل ترکستانی کے ذریعے 725 ہجری میں ہوا مگر فاضل مصنف کے مطابق تاریخ کے مطالعے سے یہ اغلب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسلام کا تعارف ان مسلمان کاریگروں کے توسط سے ہوا ہوگا جو عسکری ماہرین تھے اور یہاں کی فوج کو حکومتی سطح پر جنگ اور لڑائی کی تربیت دیتے تھے۔بعد میں جب بودھ بادشاہ رینچن شاہ نے اسلام قبول کیا تو پھر ان کی رعایا کی کثیر تعداد بھی مشرف بہ اسلام ہوئی۔اس کے بعد مصنف نے کشمیر کی تاریخ کے کامیاب ترین داعی حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ اور ان کے فرندِ ارجمند میر محمد ہمدانی، شیخ نورالدین ولی المعروف شیخ العالم اور کشمیر میں شیعہ مذہب کے بانی شمس الدین عراقی پہ مضامین لکھے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا ماننا ہے کہ شمس الدین عراقی کی یہاں آمد کا کشمیر کے سیاست پر بھی بڑا اثر رہا ۔شیعہ سنی کے مابین بُعد پیدا ہونے کی وجہ سے جب شاہ میری (سُنی المسلک) حضرات حکومت میں تھے تو انہوں نے شیعہ حضرات کے ساتھ زیادتیاں کیں ۔نیز جب چک حضرات (شیعہ مسلک) کے ہاتھوں میں حکومت کی زمامِ کار آئی تو انہوں نے بھی سنیوں پہ ظلم ڈھانے میں کوئی کسر باقی اٹھا نہ رکھی تاقتیکہ پھر مغلوں نے کشمیر پر قبضہ کیا اور یہاں کی مقامی حکومت ہمیشہ کے لیے قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی۔
باب دوم ’’کشمیریات‘‘ سولہ مضامین پر مشتمل ہے۔اس باب کے پہلے مضمون میں فاضل مصنف نے حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کے طریقۂ دعوت پہ مفصل بحث کی ہے۔اس ضمن میں وہ بنیادی طور پر تین نِکات بیان کرتے ہیں۔اول یہ کہ حضرت شاہِ ہمدان نے سب سے پہلے شہر سری نگر کے موثر طبقات کو ہدف بنایا۔دوم یہ کہ انہوں نے دعوتِ اسلام کے لیے ہندو شیومت کے اہم مراکز کا انتخاب کیا۔سوم یہ کہ انہوں نے کشمیر کی آئندہ نسلوں کی دینی تربیت کا بھی موثر انتظام کیا۔اسی طرح شیخ العالم نے قدیم ریشیت کو اسلامی رنگ میں رنگ دیا۔نیز سلطان شمس الدین کے دور میں کشمیر صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بن گئی۔ماحولیاتی آلودگی پہ بھی ان کا ایک مضمون چشم کشا ہے۔ان کے علاوہ بھی چند اہم مضامین اس باب میں شامل ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس کتاب کے تیسرے اور آخری باب ’’اسلامیات‘‘ میں کل ۳۳ مضامین شامل ہیں۔سیرتِ محمدی کے مختلف پہلوؤں پر چند مضامین لکھنے کے بعد فاضل مصنف نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مشن کے بارے میں کچھ اہم مضامین تحریر کئے ہیں۔وہ رقم طراز ہیں کہ 1258ء عیسوی میں یورشِ تاتار کے بعد امت کا شدید زوال شروع ہوا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس ذلت و مسکنت سے نکلنے کا واحد راستہ محمدی طریقے پر عمل پیرا ہونے کا ہی ہے۔فتحِ مکہ پہ اپنے مضمون میں موصوف نے ’فتح‘ کو ایک وسیع تناظر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔صہیونی جنگوں کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد انہوں نے بہترین پیرائے میں مولانا رومی کو بحیثیتِ استاد پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ جمال الدین افغانی، شیخ محمد عبدہ، محمد رشید رضا، نامک کمال، ضیاء گوکالپ، حیدر علی، ٹیپو سلطان، سر سید احمد خان، مرزا غالب اور علامہ اقبال پہ بھی جدا جدا مضامین تحریر کیے ہیں۔
بحیثیتِ مجموعی یہ کافی مفید کتاب ہے۔یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ فاضل مصنف انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔اس سے پہلے بھی ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اس کتاب کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں کتابت کی کوئی غلطی میری نظر سے نہیں گزری ۔نیز اس کی ترتیب و تزئین بھی بہت خوبصورت ہے جس کے لیے ڈاکٹر صاحب اور ناشر حضرات مبارک بادی کے مستحق ہیں۔امید ہے کہ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ہم مصنف سے مزید علمی و فکری کام کی توقع رکھتے ہیں اور ان کے لیے دعا گو بھی ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023