کسب معاش کا اسلامی تصور: اسلامی نظامِ معیشت پر ایک منفرد علمی کاوش

کسبِ حلال اور اسلامی معاشی اصولوں کی وضاحت۔اسلامی اور غیر اسلامی نظام معیشت کا تقابلی جائزہ

0

نام کتاب: کسب معاش کا اسلامی تصور
مصنف: محمد انس فلاحی مدنی
ناشر: ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ؛ سال اشاعت:۲۰۲۴ء؛ صفحات:۱۷۶؛ قیمت ۱۸۰ روپے
مبصر: ابوسعد اعظمی

زیر تعارف کتاب کے مصنف محمد انس فلاحی مدنی علمی دنیا میں نووارد نہیں ہیں۔ جامعۃ الفلاح کے فارغ التحصیل اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فیض یافتہ ہیں۔ ادارۂ تحقیق وتصنیف سے ان کی وابستگی ۲۰۱۲ء میں بحیثیت اسکالر ہوئی اور ۲۰۲۰ء سے بحیثیت رکن ادارہ سے وابستہ ہیں۔ انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح کے ترجمان ’’ ماہنامہ حیات نو‘‘ کے نائب مدیر رہ چکے ہیں۔ ان کے مقالات تحقیقات اسلامی، تہذیب الاخلاق، ندائے اعتدال اور راہ اعتدال میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
’’ کسب معاش کا اسلامی تصور‘‘ ان کی باقاعدہ پہلی تصنیف ہے۔ راقم کو یاد ہے کہ جب اس موضوع پر کام کا خاکہ تیار کیا تو یہی موضوع ان کے ذہن ودماغ پر چھایا رہا، اس کی اہمیت وافادیت ہی ان کی گفتگو کا محور رہی، کچھ دنوں تک تو ادارہ تحقیق میں بس اسی موضوع کی افادیت کا ذکر اسکالرس کے درمیان بھی زیر بحث رہا۔ مصنف کا احساس تھا کہ علماء نے تقسیم دولت پر سارا زور صرف کیا ہے لیکن تکوین ثروت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ بالفاظ دیگر مال کہاں خرچ کرنا ہے اس پر تو تفصیلی مواد ہے لیکن مال کیسے کمانا ہے اس پر کم گفتگو ہوئی ہے۔مصنف نے پیش لفظ میں صراحت کی ہے کہ اسلامی معاشیات پر موجود لٹریچر میں یہ پہلو موجود تو ہے لیکن پوری آب وتاب کے ساتھ منظر عام پر نہیں آسکا ہے۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ دین ودنیا کے قرآنی تصور کی جگہ زہد و ورع کا عجمی تصور عام ہے۔اس تصور کے مطابق مال رکھنا دنیا داری کی علامت ہے جس سے بچنے کی قرآن وحدیث میں تلقین کی گئی ہے اور فقر وفاقہ کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
کتاب مقدمہ، پیش لفظ اور کتابیات کے علاوہ چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب دنیوی زندگی قرآن وسنت کی روشنی میں کے عنوان سے ہے۔اس میں تین فصول ہیں۔اس باب میں دنیا وآخرت کے قرآنی تصور کو واضح کیا گیا ہے۔ غیر اسلامی تصور حیات پر روشنی ڈالتے ہوئے زہد وورع اور عبادت کے غیر اسلامی تصور پر نقد کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں’’ہمارے معاشرے میں عبادت گزار کو دوسری دنیا کا فرد سمجھا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ عابد کی سماج سے لا تعلقی ہے۔۔۔وہ عبادت ہی کیا جو انسان کو سماجی حقوق کی ادائی سے بے بہرہ کردے، وہ سماج میں کراہ رہے لوگوں کے درد کو نہ سمجھے، لاتعداد مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کی پریشانیوں کا احساس نہ کرسکے؟ وہ عبادت ہی کیا جو ظالم کا ہاتھ پکڑنے کی طاقت اور حوصلہ فراہم نہ کرسکے اور مظلوم کی داد رسی کا جذبہ پیدا نہ کرے؟‘‘ (ص۵۱۔۵۲)
باب دوم میں کسب معاش کے سلسلہ میں قرآن وحدیث کی رہ نمائی کو پیش کیا گیا ہے اور معاشی جد وجہد سے متعلق آیات واحادیث نقل کی گئی ہیں نیز معاشی جد وجہد اور مسلم مفکرین کے حوالہ سے اس موضوع پر قدیم تراث کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کتب حدیث وفقہ میں مالی معاملات کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں۔فاضل مصنف کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: ’’رزق کے حصول وتقسیم کا فطری نظام انسانی معاشرے کی بقا وسالمیت کی اولین شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے معاش، ذرائع معاش اور مصارفِ معاش کے تعلق سے بہت واضح احکام دیے ہیں۔۔۔ اسلام تجرد، ترکِ دنیا اور رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا،اس کے نزدیک آسائش اور نعمت کا استعمال معیوب نہیں، بلکہ وہ حدود وآداب کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دیتا ہے۔۔۔حصول معاش کے لیے تگ ودو اور محنت کرنا اسلام کی نظر میں پسندیدہ ہے، بلکہ وہ اس کی ترغیب دیتا ہے‘‘ (ص۵۸، ۶۱، ۶۳)
باب سوم میں کسب معاش کے اصول و ذرائع بیان کیے گئے ہیں۔ تین فصلوں پر مشتمل اس باب میں کس معاش کے اسلامی اصول کے تحت کسبِ حلال، امانت ودیانت، غرر سے بچنا، شفافیت، خریدار اور اجرت پر کام کرنے والے کے حقوق پر گفتگو کی گئی ہے۔جائز ذرائع معا ش کے تحت تجارت، اجرت، صنعت وحرفت، زراعت، خدمت/ملازمت پر اظہار خیال کیا گیا ہے اور ناجائز ذرائع معاش کے تحت سود، میسر اور قمار اور رشوت کے ضرر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
باب چہارم میں رسول اللہ ﷺ کے ذرائع معاش پر گفتگو کی گئی ہے۔فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’آپ کی معاشی زندگی پر ہمارے یہاں باضابطہ کام کی ابتدا بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی معاشی زندگی کے بارے میں یہ تصور عام ہوگیا کہ آپ سخت معاشی تنگی کا شکار رہے۔ آپ کے گھر میں کئی روز تک فاقہ رہتا تھا،کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا۔ اس سلسلے میں منقول روایات کی غیر درست تفہیم، نیز فقر وغنا کے غیر اسلامی تصور نے مہمیز کا کام کیا‘‘۔ (ص۱۰۳) اس ضمن میں ہونے والے اہم کاموں میں انہوں نے ڈاکٹر
محمد حمید اللہ کے خطبہ ’’عہد نبوی میں نظام مالیہ وتقویم‘‘ اور پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی اہم کتاب ’’معاش نبویؐ‘‘، پروفیسر ڈاکٹر نور محمد غفاری کی کتاب’’نبی کریمؐ کی معاشی زندگی‘‘ اور جناب سید فضل الرحمن کی کتاب’’معیشت نبویؐ‘‘ کا خلاصہ پیش کیا ہے۔اس کے بعد مصنف نے وراثت، بکریاں چرانا، تجارت، حضرت خدیجہ سے نکاح، اثاثۂ نبوی، مخیریق کے باغات، ہدایا اور اخراجات وغیرہ کے ذیلی عناوین سے نبی کریمؐکے ذرائع آمدنی پر روشنی ڈالی ہے۔
باب پنجم مال کیسے اور کہاں خرچ کریں کے عنوان سے ہے۔ سب سے پہلے مال خرچ کرنے کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں اسراف وتبذیر سے اجتناب، اللہ کی خوشنودی کا حصول، اعتدال ومیانہ روی کی روش، بخل کی شناعت، تفاخر کی ممانعت، فیاضی اور ایثار وقربانی وغیرہ کے عناوین سے اچھی گفتگو کی گئی ہے۔ دوسری فصل میں مال کہاں اور کن پر خرچ کریں کے عنوان سے والدین، اہل وعیال، اقرباء، پڑوسی، غرباء ومساکین، کم زور طبقات، فی سبیل اللہ اور ملی فلاح وبہبود میں مال خرچ کرنے کے اسلامی اصول وآداب پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔
باب ششم دو فصول پر مشتمل ہے۔فصل اول میں اسلامی تصور معاش کے فیوض وبرکات پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ دوسری فصل میں غیر اسلامی تصور معاش کے نتائج سے خبردار کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں’’ اسلامی نظام معیشت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مال کے سلسلے میں حلال وحرام کے حدود و آداب پوری وضاحت کے ساتھ متعین کیے گئے ہیں۔ یہ انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کون سا ذریعہ معاش اختیار کرے۔کھیتی باڑی کرے، باغبانی کرے یا دنیا میں مروج کسی ذریعۂ معاش سے وابستہ ہوجائے، یا کسی صنعت کو کسبِ معاش کے لیے اختیار کرے۔بس اس کے لیے لازم یہ ہے کہ حلال وحرام کو ہمیشہ پیش نظر رکھے‘‘۔(ص۱۵۵)
اسلامی نظام معیشت میں مال کو اللہ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو اخلاقی اقدار کا پابند کرتے ہوئے احتکار کی ممانعت کی گئی ہے اور تقسیم دولت نیز حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔اسلامی نظام معیشت کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ معاش وسائل زندگی ہے مقصد حیات نہیں۔انسان ان وسائل کے حصول کے لیے تگ ودو ضرور کرے لیکن یہ مقصد زندگی نہ بن جائیں اس کا لحاظ رکھے۔
غیر اسلامی تصور معاش کے نتائج پر گفتگو کرتے ہوئے فاضل مصنف کا خیال ہے کہ اس تصور نے شخصی ملکیت کا غیر محدود تصور عام کردیا۔انسان اپنی ملکیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے جو چاہے کرسکتا ہے، اسے کسی اخلاقی بندشوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔اس معاشی فکر نے انسانی رشتوں، سماجی تعلقات اور خاندانی بنیادوں کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا ہے۔غیر اسلامی تصور معاش میں ارتکازِ دولت کا تصور عام ہے جس کی وجہ سے شخصی نفع، خود غرضی اور مفاد پرستی جیسی قبیح عادات پروان چڑھتی ہیں۔ غیر اسلامی تصور معاش نے پیسہ ہی کو سب کچھ قرار دیا ہے۔انسانی اخلاقیات، ہمدردی، جذبۂ خیر، تعاون باہمی اور خلوص یہ سب ثانوی چیزیں ہیں۔اس کا مشاہدہ روز مرہ کی زندگی میں انسان کو اکثر ہوتا رہتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فاضل مصنف نے مختصر اور جامع انداز میں ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور کسب معاش کا اسلامی تصور کے ہر پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر یکجا مواد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔امید ہے کہ فاضل مصنف کی اس علمی کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اس سے بحث وتحقیق کا نیا باب روشن ہوگا۔مقدمہ میں ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے اس اقتباس سے راقم کو پوری طرح اتفاق ہے کہ ’’اسلام میں مال کو زندگی کی ایک اہم ضرورت قرار دیا گیا ہے۔ وہ نہ ہو تو انسان طرح طرح کی پریشانیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان چاہے جتنا کمائے، ضروری ہے کہ صرف جائز ذرائع اختیار کرے اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کا پاس ولحاظ رکھے، اسی طرح وہ ترغیب دیتا ہے کہ انسان جو کچھ کمائے اسے بے دردی سے نہ اڑادے، بلکہ اس میں اللہ کے مجبور ومحتاج بندوں کا حق جانے‘‘۔(ص۷)
کتاب کی طباعت عمدہ ہے اور پروف کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ۱۷۶ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت بھی مناسب ہے۔امید ہے کہ اس کتاب کو قبول عام حاصل ہوگا اور علمی حلقوں میں اس کا شایانِ شان استقبال کیا جائے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024