کرناٹک کے بسواکلیان میں پیغام قرآن کے فروغ کی 9سال سے جاری ایک تابندہ روایت
قرآن پروچن: سماجی برائیوں کے خاتمے اور اصلاح کی تحریک۔ انسانیت اور برابری کا پیغام۔بین مذہبی شخصیات کے متاثر کن تاثرات
بسواکلیان : (دعوت نیوز ڈیسک)
اگرچہ بسوا کلیان کا تین روزہ قرآن پروچن پروگرام اختتام پذیر ہوا، مگر اپنے پیچھے ایک گہرا اثر چھوڑ گیا جو معاشرتی ہم آہنگی اور انسانی اقدار کے فروغ کی عمدہ مثال بن گیا ہے۔ یہ اجتماع نہ صرف قرآن کی حکمت سے روشنی حاصل کرنے کا موقع تھا بلکہ مختلف مذاہب، ثقافتوں اور طبقات کے ہزاروں افراد کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بھی ذریعہ بنا، جو محبت، بھائی چارے اور امن کے پیغام کو مضبوطی سے آگے بڑھا رہا ہے۔یہ پروگرام، جو مسلسل نو برسوں سے جاری ہے، اس بار بھی منفرد موضوعات اور عملی پیغامات کے ذریعے حاضرین کے دل و دماغ کو جیتنے میں کامیاب رہا۔ سامعین نے قرآنی تعلیمات اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت کو سماج کی موجودہ برائیوں کے خاتمے اور امن کے قیام کا اہم ذریعہ پایا۔
رتھ میدان بسواکلیان میں تین روزہ قرآنی درس کے پہلے دن کا موضوع "انسانی عظمت” تھا۔ اس موقع پر مرکزی مقرر سکریٹری حلقہ جماعت اسلامی کرناٹک جناب محمد کنی نے قرآن مجید اور سیرتِ رسول ﷺ کی روشنی میں نہایت موثر انداز میں انسان کی عظمت اور مقام کو اجاگر کیا۔
پروگرام کے دوران مختلف مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جبکہ انتظامیہ کی جانب سے بھی تقاریر ہوئیں۔ جناب محمد کنی نے اپنے پر اثر درس میں، قرآن کی آیت "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت و تکریم عطا کی ہے جو اس کے بلند مقام کی واضح دلیل ہے۔ انہوں کہا کہ اسلام میں انسان کو رنگ و نسل یا سماجی حیثیت سے بالاتر ہو کر خالص انسانیت کی بنیاد پر عزت دی گئی ہے۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے حضرت بلال حبشیؓ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں مساوات کا جو تصور ہے، وہ حضرت بلال کی رسول اللہ ﷺ سے پہلی ملاقات میں نظر آتا ہے، جہاں نہ رنگ و نسل کا امتیاز کیا گیا اور نہ کسی سماجی حیثیت کو فوقیت دی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر انسان کو مساوی حقوق اور عزت عطا کی، جو انسانی عظمت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
جناب محمد کنی کے خطاب نے سامعین کو بہت متاثر کیا اور انہیں مساوات اور انسانی عظمت کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کا موقع دیا۔
میڈیا سے گفتگو:
پروگرام کے اختتام پر جناب محمد کنی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"میں گزشتہ 9 سالوں سے یہاں قرآنی درس دینے آ رہا ہوں، اور ہر سال اس پروگرام کی مقبولیت میں حیرت انگیز اضافہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان روحانیت کی تلاش میں ہے۔ اس پروگرام نے اب ایک سالانہ ‘قرآنی فیسٹیول’ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہاں کے عوام کا جوش و خروش اور قرآن کی تعلیمات کو سننے کا جذبہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ ہدایت اور سچائی کی پیاس محسوس کر رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ قرآن کا پیغام ہر دل تک پہنچ سکتا ہے، بشرطیکہ اسے حکمت اور محبت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ انہوں نے جماعت اسلامی ہند بسواکلیان کے منتظمین کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس اجتماع کو ایک کامیاب دعوتی و روحانی پروگرام قرار دیا۔
خطاب کے دوران تقریباً سات ہزار مرد و خواتین نہایت توجہ اور دل چسپی کے ساتھ اس فکر انگیز پیغام کو سنتے رہے۔
قرآن پروچن: سماج میں امن اور اصلاح کا پیغام
بسوا کلیان کے قرآن پروچن کے دوسرے دن کے اختتام پر، حلقہ کے سکریٹری محمد یوسف کنی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف قانون سازی سے جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ سماجی برائیوں کی شناعت کو اجاگر کرنا، ان کے نقصانات کو سمجھانا اور نیکی کی ترغیب دینا نہایت ضروری ہے۔ مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ایسے پروگرام اس حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآنی تعلیمات انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور امن کے قیام کا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا "یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ایسے پروگرامس منعقد کیے جائیں، کیونکہ انہی کے ذریعے معاشرتی اصلاح ممکن ہے۔ بسواکلیان میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ ان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔”
انہوں نے اس پروگرام کو دعوتی سرگرمی کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں کے خاتمے اور بھائی چارے کے فروغ کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ ایسے پروگرام مستقبل میں بھی منعقد ہوں تاکہ معاشرے کے مختلف طبقات اس سے مستفید ہو سکیں۔
زندگی کا مقصد: گہرے غور و فکر کی دعوت
تیسرے دن کے موضوع "زندگی کا مقصد” پر محمد یوسف کنی نے اپنے خطاب میں زندگی کے اصل مفہوم اور مقصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ہر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں پیدا ہوا ہے، اس کا پیدا کرنے والا کون ہے اور کیا موت کے بعد زندگی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے؟
انہوں نے قرآن کریم کی روشنی میں وضاحت کی کہ زندگی محض دنیاوی عیش و آرام کا نام نہیں بلکہ یہ ایک امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ کون نیک عمل کرتا ہے۔ دنیاوی زندگی عارضی ہے اور اس کا حقیقی نتیجہ آخرت میں ظاہر ہوگا۔ انسان کی کامیابی کا معیار اللہ کی رضا اور اس کے احکام پر عمل ہے۔
محمد یوسف کنی کے پراثر خطاب نے سامعین کو گہرے غور و فکر میں ڈال دیا اور ہر فرد اپنی زندگی کے مقصد پر نظر ثانی کرتا دکھائی دیا۔
قرآن پروچن کی غیر معمولی کامیابی
بسوا کلیان کے اس پروگرام کی گونج دور دراز علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی ہند انجینئر سلیم صاحب دہلی سے خاص طور پر اس پروگرام کا مشاہدہ کرنے تشریف لائے۔ انہوں نے کہا:
"بسوا کلیان کا یہ پروگرام واقعی اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ اس کے شاندار انتظامات، عوامی دلچسپی اور روحانی ماحول نے میرے دل کو چھو لیا ہے۔ یہ قرآن کے پیغام کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی بہترین مثال ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ ایسے پروگرامس ملک کے دیگر حصوں میں بھی منعقد کیے جائیں تاکہ قرآن کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔
لنگایت دھرم کے سوامی جی کی ستائش۔
لنگایت دھرم کے سوامی شری بسوا پربھو جی نے اس پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کی فکر انگیز تعلیمات کا کنڑ زبان میں چرچا ایک قابلِ ستائش قدم ہے۔ بسوا کلیان کی سر زمین پر جماعت اسلامی ہند کا یہ اقدام بھائی چارے اور امن کے فروغ کی ایک نمایاں مثال ہے۔
انہوں نے جماعت اسلامی ہند کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام ہر سال منعقد ہونا چاہیے تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید تقویت مل سکے۔ انہوں نے مزید کہا "ایسے پروگرامس معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ نفرت کے اس زہر آلود ماحول میں جہاں انسانوں کے درمیان دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں، یہ پروگرام نفرت کے خاتمے اور محبت کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ یہ مذاہب کے درمیان تفہیم کو بڑھاتے اور نفرت کی خلیج کو پاٹنے میں مدد دیتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں قرآن اور دیگر عظیم شخصیات کے اقوال کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ پروگرام معاشرے کو محبت، امن اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار کرنے کی یاد دہانی ہے۔
سوامی جی کے خیالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بسوا کلیان کا قرآن پروچن پروگرام مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے لیے بھی متاثر کن ثابت ہوا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی جانب ایک روشن قدم ہے۔
بسوا کلیان: بسوا شوریا کی وراثت کو آگے بڑھانے کی کوشش
کربا سماج کے صدر چندر کانت متر نے کہا "بارہویں صدی میں بسوا شوریا نے تمام مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا جو کام کیا تھا، آج جماعت اسلامی ہند اسی مشن کو آگے بڑھا رہی ہے۔ بسوا شوریا کے وچن ‘ای ناروا ای ناروا، ای نموا ای نموا’ کو یہ پروگرام زندہ کر رہا ہے۔”
انہوں نے جماعت اسلامی ہند کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگراموں کی مختلف مذاہب اور طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا "بسوا شوریا نے محبت اور بھائی چارے کا جو پیغام دیا تھا جماعت اسلامی ہند نے اسے قرآن کے ذریعے نئی روشنی دی ہے۔ یہ پروگرام مختلف طبقات کو ایک ساتھ بٹھا کر ہم آہنگی کی مثال قائم کرتا ہے۔”
چندر کانت متر کے بیان نے اس بات کی وضاحت کی کہ بسوا کلیان کا قرآن پروچن پروگرام تاریخی ورثے کو زندہ رکھنے اور سماجی اتحاد کے فروغ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
قرآن پروچن: انسانیت اور برابری کا پیغام
پروگرام میں شریک ایک استاد نے کہا:
"میں 35 کلومیٹر دور سے یہ پروچن سننے آیا ہوں۔ قرآن کی باتوں میں انسانوں کے درمیان تفریق اور اونچ نیچ ختم کرنے کا جو پیغام دیا گیا، وہ مجھے بہت پسند آیا۔ خاص طور پر انسانیت کی تکریم اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو سن کر دل کو سکون ملا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پروگرام انسانیت کو جوڑنے اور سماجی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
قرآن پروچن: بھائی چارے اور قومی یکجہتی کی علامت
پروگرام کے آخری دن ہائی کورٹ کی وکیل راجیشوری نے کہا "تین دن سے قرآن اور اسلام کی حکمت پر مبنی باتیں سن کر بہت اچھا لگا۔ محمد یوسف کنی صاحب نے نہایت مؤثر انداز میں کنڑ زبان میں قرآن کے پیغام کو پیش کیا۔ ایسے پروگرامس سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔” انہوں نے کہا "یہاں ایک ہی سبھا بھون میں ہندو، مسلم، سکھ سب محبت اور بھائی چارے کے ماحول میں پروچن سن رہے تھے۔ یہ منظر ہمارے اصلی بھارت کی عکاسی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ سیاسی عناصر نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہمارا بھارت محبت اور ہم آہنگی کی بنیاد پر استوار ہے، اور یہی بنیاد اسے ایک دن وشو گرو بنائے گی۔”
راجیشوری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ قرآن پروچن جیسے پروگرامس ہمیں اپنی جڑوں سے جوڑتے اور مثبت بات چیت کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ یہ پروگرام نہ صرف مذہبی تعلیمات کی ترویج بلکہ معاشرتی اتحاد کو مضبوط کرنے اور نفرت کو شکست دینے کا ذریعہ ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024