بنگلورو (دعوت نیوز بیورو)
اس سال جنوری کے اواخر میں ملک بھر کے غیر روایتی صحافتی اداروں سے وابستہ صحافیوں کی ایک میٹنگ کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں منعقد ہوئی تھی جس میں ملک بھر سے صحافی برادری، سیول سوسائٹی کے اراکین اور مختلف تنظیموں سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی تھی ۔اس میٹنگ میں ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ دائیں بازو کو صرف سیاسی جدو جہدو اور مقابلہ آرائی سے شکست نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کے لیے سیول سوسائٹی کے اراکین کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ چناں چہ شمال ہند میں اقتدار کی تبدیلی کے باوجود فرقہ واریت، مذہبی جنون اور تعصب میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کے خاتمے کے خلاف جنگ میں سماج کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔شمال ہند کی سیول سوسائٹی اگرچہ فرقہ واریت، مذہبی جنونیت اور نفرت انگیز مہم کو نا پسند کرتی ہے مگر اس کے خاتمے کے لیے سماجی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کرونا وبا کے بعد مذہبی فرقہ واریت، مسلم مخالف مہم اور ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے کرناٹک سرخیوں میں رہا ہے۔ اس دوران قومی میڈیا سے جو خبریں سننے اور پڑھنے کو مل رہی تھیں اس سے بادی النظر میں یہی صورت قائم ہو رہی ہے۔ گجرات کے بعد کرناٹک فرقہ واریت کے لیے سب سے بڑی لیباریٹری بنتی جا رہی تھی کیونکہ یہاں بی جے پی غیر مفتوح قیادت میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔ 2023 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نہ صرف بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب رہی بلکہ بہت حد تک بنگلورو کی سیاست کو حاشیہ پر پہنچا دیا۔ ممکن ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے کانگریس کی حکمت عملی، ریاستی کانگریس کے قائد ڈی کے شیو کمار کی جارحانہ منصوبہ بندی،راہل گاندھی کی بھارت یاترا، بی جے پی کی بدعنوانی کے خلاف عوامی ناراضگی اور کانگریس کی گیارنٹی والی اسکیموں کا رول رہا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جیت کی کہانی کرناٹک کی سو سے زائد سیول سوسائٹی کی تنظیموں نے مل کر لکھا تھا۔
گزشتہ سال کرناٹک اسمبلی انتخابات سے عین قبل کئی سیول سوسائٹی گروپوں نے جمہوری اور عوام کے حامی انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ حکومت کے خلاف عدم اطمینان اور غصے کی حد کو دیکھتے ہوئے تمام اضلاع سے کئی سماجی گروہ دانشوروں کی قیادت میں دیونور مہادیوا، رحمت تاریکیرے، ڈو سرسوتی، پروشوتم بلیمالے وغیرہ کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اور ایڈیلو کرناٹک (جاگو کرناٹک) کی تشکیل کو یقینی بنایا۔ فہرستوں میں نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا، ریاست بھر میں پریس میٹنگیں اور کنونشن منعقد کیے گئے تاکہ لوگوں کو حکومت کی نا کامیوں سے آگاہ کیا جا سکے۔ حکومت کی وجہ سے لوگوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے والے پمفلٹ لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے۔ گاؤں گاؤں جا کر کرناٹک کی تہذیب و ثقافت اہمیت اور جارحانہ ہندتو کے سماجی و معاشرتی اثرات سے آگاہ کرنے کے علاوہ اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹروں کو گھر سے نکال کر پولنگ بوتھ تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا گیا۔ سیول سوسائٹی فورم نے سیاسی جماعتوں کے منشور سے پہلے اپنا عوامی منشور جاری کیا جس میں ان سے ان نکات کو شامل کرنے کے لیے کہا گیا جو انہوں نے اجاگر کیے تھے۔ بہوتوا کرناٹک، ایک وسیع اتحاد ہے جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ کرناٹک اپنی کثیر ثقافتوں کو برقرار رکھے، اس حکومت کی کارکردگی پر رپورٹ کارڈ کا ایک سلسلہ جاری کیا۔ یہ جائزہ ماہرین تعلیم اور سیول سوسائٹی کے ارکان نے ہمارے سیاسی نظام میں جواب دہی پیدا کرنے کے اقدام کے طور پر کیا گیا تھا۔
2020 میں کورونا وبا کے دوران جب ملک بھر میں کورونا وبا کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھیرایا جا رہا تھا، اس وقت کرناٹک کی سیول سوسائٹی نے جس میں بڑی تعداد میں وکلا شامل تھے، ”ہیٹ اسپیچ بیڈا‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس میں وکلا، ماہرین تعلیم اور سماجی کارکنان شامل تھے۔ یہ ادارہ گزشتہ چار سالوں سے نفرت انگیز عناصر کے خلاف نہ صرف مہم چلا رہا ہے بلکہ نفرت انگیز مہم کا مقابلہ کرنے اور قانونی کاروائی سے متعلق بیداری پیدا کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک بھر کے مختلف دانشور اور تنظیموں کے نمائندوں نے اس میں شرکت کی ۔’’ہیٹ اسپیچ بیڈا‘‘ سے وابستہ ایڈووکیٹ مانوی اتری بتاتی ہیں کہ ابتدائی ایام ان کے لیے چیلنجوں سے بھرے ہوئے تھے۔وکیل ہونے کے باوجود نفرت انگیز واقعات کے خلاف قانونی کارروائی سے متعلق کچھ بھی سمجھ نہیں تھے۔ اس کے بعد ہم نے نوجوانوں کی تربیت کی۔
کرناٹک کی سیول سائٹی کس قدر بیدار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متعدد سیول سوسائٹیوں اور شہری گروپوں نے مشترکہ طور پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کے خلاف ’’گرو اے اسپائن‘‘ کے نام سے ایک پوسٹ کارڈ مہم چلائی جس میں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف عملی اقدامات نہ کرنے پر سرزنش کی گئی۔ اس مہم میں بشمول پیپلز یونین فار سول لبرٹیز، نیشنل الائنس فار پیپلز موومنٹس، بہوتوا کرناٹک، آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن فار جسٹس، شرمک مکتی دل اور دیگر گروپس اس میں شامل تھے۔
الیکشن کمیشن کی بے عملی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے خلاف احتجاج مہم کا حصہ رہی ’’بہوتوا کرناٹک‘‘ کے رکن ونے سرینواسا نے بتایا کہ کرناٹک میں ہم نے مسلم ریزرویشن پر بی جے پی کے متحرک ویڈیو کلپ کے بارے میں سی ای او سے شکایت کی تھی اور اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ ایف آئی آر درج کی گئی تھی لیکن کرناٹک کے انتخابات کے بعد ہی اسے ہٹایا گیا۔ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے ارکان کی طرف سے کئی نفرت انگیز تقاریر ہوئیں جن کا الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ بی جے پی کرناٹک کے ہینڈل کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے روکا جائے لیکن، ہمارے کسی بھی مطالبے پر غور نہیں کیا گیا‘‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ای سی آئی صرف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ایم سی سی کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور حکم راں جماعت کو اس سے دور کر رہی ہے۔ کانگریس کے رندیپ سرجے والا اور بی آر ایس کے کے چندر شیکھر راؤ پر ایم سی سی کی خلاف ورزیوں پر 48 گھنٹے کے لیے مہم چلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن بی جے پی کی طرف سے اس سے زیادہ سنگین خلاف ورزیوں کو بالکلیہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ سرینواسن مطالبہ کرتے ہیں کہ مسٹر مودی کو 96 گھنٹوں تک انتخابی مہم چلانے سے روک دیا جائے۔ وزیراعظم نے متعدد تقریریں کی ہیں جو مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتی ہیں اور مذہبی خطوط پر ان کے درمیان نفرت کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ ایم سی سی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت بدعنوانی کے مترادف ہے اور سیاسی جماعتوں کے لیے ای سی آئی کے مشورے کی خلاف ورزی بھی ہے۔ ابھی تک مودی کو، جو ایک اسٹار کمپینر ہیں، نوٹس تک نہیں دیا گیا ہے۔ اسی طرح بی جے پی نے کئی ویڈیوز دوبارہ جاری کیے ہیں جو نفرت پھیلا رہے ہیں‘‘۔
کرناٹک کی سیول سوسائٹی کی پہل شمالی ہندوستان کے دانشوروں اور اداروں کے لیے سبق ہے ۔نفرت انگیز مہم کے خلاف صرف مذمتی بیانات دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے میدان عمل میں اترنا ضروری ہے۔ ”ہیٹ اسپیچ بیڈا‘‘ اور بہوتوا کرناٹک جیسی تنظیمیں محض مذمتی قراردادا پر مبنی بیانات جاری کرنے کے بجائے سماج سے نفرت کے خاتمے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ”ہیٹ اسپیچ بیڈا‘‘ ملک بھر میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف قانونی لڑائی لڑنے کے لیے نوجوانوں کی تربیت کرتی ہے۔ مختلف پمفلٹ اور کتابچے شائع کیے جاتے ہیں۔دراصل اس طرح کے ادارے نا امیدی کے اس دور میں روشن مینار ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح تنظیموں کی مدد سے ملک بھر میں نفرت کے خاتمے اور سماج کے درمیان پھوٹ ڈالنے والے سیاسی لیڈروں اور اداروں کے خلاف منظم کارروائی کی جائے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024