کرناٹک اسمبلی انتخابات میں نہایت کم مسلم نمائندگی

بھاری ووٹ شیئر کے باوجود ’سیکولر‘ پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیے

محمد انس

نئی دلی: کرناٹک میں مسلمان صرف دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) زمرہ کے تحت 4 فیصد تحفظات ہی سے محروم نہیں ہوئے بلکہ ان کی سیاسی نمائندگی بھی انحطاط پذیر ہے۔ 65اسمبلی حلقوں میں 20فیصد سے زائد آبادی رکھنے کے باوجود کانگریس اور جنتادل (سیکولر) کی جانب سے جتنی تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں وہ ریاست میں ان کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی غیر متناسب ہیں نیز کسی بھی پارٹی نے انتخابی مہم کے ایک بڑے چہرے کے طور پر کسی مسلم لیڈر کو نہیں ابھارا ہے۔ کرناٹک میں 10مئی کو انتخابات ہوں گے اور نتائج کا اعلان 13مئی کو کیا جائے گا۔
مسلمانوں کی اہمیت
کرناٹک میں 13فیصد آبادی کے ساتھ مسلمان سب سے بڑی برادریوں میں سے ایک ہیں۔ صحافتی حلقوں میں حال ہی میں افشا کردہ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سدا رامیا کی زیر قیادت کانگریس حکومت کی میعاد کے دوران مردم شماری میں مسلمانوں کو تعداد کے لحاظ سے لنگایتوں اور ووکالیگاوں سے بھی آگے رکھا گیا ہے۔ لنگایت اور ووکالیگا دو ایسے سماجی گروپ ہیں جو سیاست کو ایک رخ دیتے ہیں اور ریاست میں اقتدار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مسلمان درج فہرست طبقات و قبائل کے بعد تیسرے سب سے بڑے ووٹنگ بلاک پر مشتمل ہیں۔ مسلمانوں کو کرناٹک کے تقریباً تمام ہی اضلاع میں پایا جاسکتا ہے۔ وہ خاص طور پر ان علاقوں میں مضبوط وجود رکھتے ہیں
1۔ شمالی کرناٹک۔ خاص طور پر ماضی میں شاہی ریاست حیدرآباد کے زیر اقتدار رہنے والا علاقہ جیسے گلبرگہ، بیدر، بیجاپور، رائچور اور دھارواڑ وغیرہ۔
2۔ کیرالا کے سرحدی اضلاع ۔
3۔ بنگلورو سٹی، میسورو سٹی، منگلورو سٹی۔
خاص طور پر ساحلی کرناٹک میں مسلمان آبادی کا 24 فیصد ہیں۔ یعنی ریاست میں اپنی مجموعی آبادی کا دگنا۔
ساحلی کرناٹک کے مسلمانوں کا تعلق بیاری طبقہ سے ہے جو تجارت اور کاروبار کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہیں خاص طور پر 70کے دہے کے بعد سے بڑے پیمانہ پر خلیج کے لیے روانگی سے خوب فائدہ پہنچا۔ یہاں کے مسلمان علاقہ میں مختلف مالس، دواخانوں، تعمیری اور تعلیمی اداروں کے مالک ہیں۔
دوسری طرف وسطی کرناٹک کے نشیب میں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ اندرون کرناٹک مسلمانوں کی اصل زبان دکنی ہے جو اردو سے ہی نکلی ہے۔ کرناٹک کے رخصت پذیر سات اسمبلی کا تعلق مسلم طبقہ سے ہے اور یہ تمام کانگریس پارٹی سے ہیں۔ گزشتہ ایک دہے میں یہ مسلمانوں کی اقل ترین نمائندگی کی ہے۔ 2008میں ریاست میں 9مسلم ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
2013میں 11مسلم امیدوار کامیاب ہوئے جن میں سے 9کا تعلق کانگریس سے اور تین کا تعلق جنتا دل سیکولر سے ہے۔ اعظم ترین مسلم نمائندگی (16ارکان اسمبلی) 1978میں دیکھی گئی تھی اور سب سے کم 2ارکان اسمبلی 1983میں منتخب ہوئے تھے۔
مسلمانوں کو کم ٹکٹ دیے گئے
مسلمانوں کی خاصی آبادی کے باوجود، ان کی تعداد کے تناسب سے پیش آئند اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انہیں ٹکٹ دینے پر غور نہیں کیا گیا حتی کہ کانگریس نے بھی اس معاملہ میں مسلمانوں کو نظر انداز کیا ہے۔ کانگریس نے صرف 15 مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے اور اس معاملے میں جے ڈی ایس بھی کانگریس کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں کا پولرائزیشن (فرقہ ورانہ صف بندی) اس کی بنیادی وجہ ہے۔ حجاب کے بحران اور مسلم تاجروں کے بائیکاٹ سے لے کر اذان تک، بی جے پی نے مسلم برادری کو بری طرح نشانہ بنایا ہے۔
مسلمان، ٹکٹوں کی تقسیم میں نظر انداز کیے جانے پر اپنی برہمی و مایوسی ظاہرکر رہے ہیں۔ ریاست کرناٹک کی ایک سرکردہ مسلم تنظیم سنی علماء بورڈ نے اسے کھلم کھلا غداری قرار دیا ہے۔کرناٹک سنی علماء بورڈ کے رکن محمد قاری ذوالفقار نوری کا کہنا ہے ’’مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کرناٹک کی سیکولر قیادت نے انہیں ’دھوکہ‘ دیا ہے۔ کانگریس انتخابات سے پہلے مسلم لیڈروں سے وعدے کرتی ہے لیکن انہیں پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔انہوں نے میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ کانگریس کو چاہیے کہ وہ کم ازکم 25 تا 30 مسلمانوں کو ٹکٹ دے اور ایک مسلم امیدوار کو نائب وزیر اعلیٰ بنائے۔
مسلم رہنما اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ حکمراں بی جے پی حکومت نے کرناٹک میں مسلمانوں کو 2B دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) زمرے کے تحت دیے گئے 4 فیصد کوٹہ کو ختم کرکے دو بااثر برادریوں ویراشائیو-لنگایتوں اور ووکالیگاس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو ’سیکولر‘ پارٹیوں کانگریس اور جے ڈی ایس میں سے کسی نے بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔
میسور یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مظفر اسدی نے scroll.in کو بتایا کہ سیاسی جماعتیں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارنے سے کیوں ہچکچا رہی ہیں۔ ’’سیاسی جماعتیں اکثر یہ مانتی ہیں کہ مسلم امیدوار ووٹ حاصل نہیں کرتے۔ رائے دہندگان مسلم امیدواروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے ان کے جیتنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں،‘‘۔اسدی نے کہا کہ یہ دقیانوسی تصور امکانی امیدواروں کے خلاف کام کر رہا ہے۔
مسلم لیڈروں کا غائب ہونا
ماضی قریب میں کرناٹک میں بڑے پیمانے پر اپیل کرنے والے کچھ مسلم لیڈروں میں عزیز سیٹھ، عبدالنذیر، سی ایم ابراہیم، سی کے جعفر شریف اور کسی حد تک قمر الاسلام شامل تھے۔ سیٹھ عبدالنذیر، جعفر شریف اور قمرالاسلام انتقال کرچکے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی میراث بھی دفن ہوچکی ہے۔ سی ایم ابراہیم ایک زمانے میں نہ صرف کرناٹک کی سیاست میں ایک بڑا نام تھا، بلکہ ان کی آواز پورے جنوبی بھارت میں گونجتی تھی۔تاہم جے ڈی ایس کے ریاستی صدر ہونے کے باوجود وہ اس انتخاب میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پارٹی میں ان کا اثر واضح طور پر سب سے کم ہے کیونکہ وہ پارٹی کے انتخابی میدان میں زیادہ مسلمانوں کو ایڈجسٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
’’ایک وقت تھا جب پارٹیوں کے پاس جنگی گھوڑے تھے جو ووٹروں میں اپنی وفاداری اور عزم کی وجہ سے مقبول تھے۔ لیکن ذات پات کے حساب سے اہم ہونے کے بعد سیاست بدل گئی۔ کمیونٹی نے ایک مضبوط قیادت کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا اور سیاست میں کمیونٹی لیڈروں نے دوسری نسل کی قیادت کی شناخت اور پرورش نہیں کی۔ قیادت کا تعین کرنے والے پیمانے حالیہ دنوں میں کمیونٹی میں کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023