کرناٹک اسمبلی انتخابات2023

ذات پات کی سیاست اور مسلم مخالف مہم حاوی

نور اللہ جاوید، کولکاتا

مسلم رائے دہندوں کی پراسرار خاموشی کیا پولرائزیشن کی کوششوں کو ناکام کردے گی؟
ساحلی اور جنوبی کرناٹک میں مسلم ووٹرس کی تقسیم کانگریس کو نقصان پہنچا سکتی ہے
کرناٹک اسمبلی انتخابات قریب آلگے ہیں جس میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بی جے پی اور کانگریس نے اپنی پوری قوت جھونک دی ہے۔ کانگریس کے لیے یہ انتخاب جہاں موت و حیات کا سوال ہے وہیں اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کے لیے بھی یہ انتخاب کم اہمیت کا حامل نہیں ہے، کیوں کہ ملک کے طول و عرض میں زعفرانی پرچم لہرانے میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود جنوبی ہند میں بی جے پی کو وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے جس کی اسے توقع تھی۔جنوبی ہند میں کرناٹک ہی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کی طاقت سب سے زیادہ ہے اور جہاں کئی بار وہ اقتدار میں آچکی ہے جب کہ کیرالا، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور پانڈیچری میں وہ علاقائی سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر ہے۔90 کی دہائی میں اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد سے ہی کرناٹک میں بی جے پی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگیا تھا ۔اس کے باوجود آج تک بی جے پی نہ کرناٹک میں واضح اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کرسکی اور نہ کرناٹک کے راستے جنوب ہند کی دوسری ریاستوں میں اپنے قدم جماسکی ہے۔ ایسے میں جنوبی ہند میں بی جے پی کے لیے ناکامی و نامرادی کے احساسات کہیں زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ بھارت کی اقتصادی و تعلیمی ترقی میں آبادی کے اعتبار سے جنوبی بھارت کی حصہ داری کہیں زیادہ ہے۔ جنوبی ہند کی سیاست دنیا بھر میں رائے عامہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ 2014 میں بڑی اکثریت کے ساتھ مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بی جے پی نے جنوبی بھارت کو فتح کرنے کے لیے اپنی قوت جھونک دی ہے لیکن 2018 میں حکومت مخالف لہر ہونے کے باوجود بی جے پی کرناٹک میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ کانگریس نے سیٹیں زیادہ رکھنے کے باوجود جنتا دل سیکولر کو وزارت اعلیٰ کی کرسی کی پیشکش کرکے بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیا تھا مگر ممبران اسمبلی کی خرید وفروخت اور پارٹی میں توڑ پھوڑ کی مہارت کے ذریعہ بی جے پی ایک سال کے وقفے کے بعد ہی اقتدار میں لوٹ آئی۔ گزشتہ چار سالوں میں بی جے پی یہاں دو وزرائے اعلیٰ کے ذریعہ حکومت کر چکی ہے۔ ’’ڈبل انجن کی سرکار‘‘ کو اہم کامیابی قرار دینے والی بی جے پی کو اس مرتبہ سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بیشتر انتخابی سروے یہ بتا رہے ہیں کہ نریندر مودی کا طلسم یہاں کوئی کام نہیں آنے والا ہے۔ بی جے پی اقتدار میں واپسی کے لیے بڑی ہوشیاری کے ساتھ سوشل انجینئرنگ، مذہبی اور ذات پات کے خطوط پر عوام کی تقسیم اور پیسہ کا سہارا لے رہی ہے۔ عام انتخابات سے قبل اس سال کئی بڑی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ریاست کرناٹک جنوبی ہند میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں اس کی لوک سبھا کی دو درجن سیٹیں ہیں ۔2019 میں بی جے پی کو 22 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اگر ایسے میں یہاں اگر اسے نقصان پہنچتا ہے تو اس کی بھرپائی بی جے پی دوسری ریاستوں میں نہیں کرسکے گی کیوں کہ بی جے پی آج ملک کی سیاست میں اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے آگے کا سفر ختم ہوجاتا ہے صرف نیچے آنے کا ہی راستہ بچا ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر جنوب ہند میں بی جے پی کی سیاسی سوشل انجینئرنگ شمالی بھارت کی طرح کامیاب کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟ فرقہ واریت پر مبنی نعرے بازی، اشتعال انگیزی اور مسلم مخالف جذبات کے ذریعہ مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن کی تمام کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں؟ مرکز میں 9 سال اور ریاست میں 4 سال حکومت کرنے کے باوجود اگر کسی سیاسی جماعت کو اپنے ترقیاتی کام کاج اور مستقبل کے ایجنڈے کے بجائے فرقہ واریت اور ذات پات کی سیاست کا سہارا لینا پڑے تو اس سے بڑھ کر المیہ اس کے سیاسی دیوالیہ پن اور ملک کی سیاست کے لیے نہیں ہو سکتا ہے، کیوں کہ فرقہ واریت اور ذات پات کی بنیاد پر سوشل انجینئرنگ کے ذریعہ انتخابات تو جیتے جاسکتے ہیں مگر مضبوط و مستحکم بھارت کے خواب کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور بین الاقوامی میگزین ’’اکنامسٹ‘‘ نے گزشتہ سال اپنے کور اسٹوری ’’عدم برداشت بھارت‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی لگاتار انتخابات میں کامیابی حاصل کر رہی ہے مگر ہر انتخابات میں بھارت کی بنیادیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔
گزشتہ سال جولائی میں حیدرآباد میں منعقدہ بی جے پی کی مجلس عاملہ میں وزیرا عظم نریندر مودی نے بی جے پی لیڈروں کو ’’پسماندہ مسلمانوں‘‘ تک پہنچنے اور ان کے اعتماد کو حاصل کرنے کا منتر پیش کیا تھا تو ہر طرف اس کی تعریف میں ڈونگرے برسائے گئے تھے اور اس کو مودی اور بی جے پی کی سوچ میں تبدیلی اور ملک میں مسلمانوں کے حوالے سے ایک نئی سیاسی دور کےآغاز کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ میڈیا میں یہ دعوے کیے گئے کہ مودی کے ایک منتر نے اپوزیشن جماعتوں کی پوری سیاست کو ریت کا ٹیلہ ثابت کیا۔ بہار، اترپردیش اور ملک کی دیگر ریاستوں میں اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر دلت مسلمانوں سے متعلق سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کے حلف نامہ اور اب کرناٹک اسمبلی انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے عین قبل کرناٹک میں پسماندہ مسلمانوں کو دیے گئے 4 فیصد ریزرویشن کے خاتمے کا جس طریقے سے اعلان کیا گیا ہے اس نے پسماندہ مسلمانوں تک رسائی حاصل کرنے مودی کے منتر کی ہوا نکال دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر انتخابات سے عین قبل پسماندہ مسلمانوں کے ریزرویشن کو ختم کرنے کے اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ گزشتہ چار سالوں سے بی جے پی کرناٹک میں حکومت میں تھی۔ اس سے قبل بھی بی جے پی کی حکومت رہی ہے اور کرناٹک میں 1994 سے پسماندگی کے شکار مسلم برداریوں کے لیے ریزرویشن ہے تو آخر انتخابات سے عین قبل اس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟ ظاہر ہے کہ چار فیصد ریزرویشن کو کرناٹک کی دو اہم برادریوں لنگائیٹ اور ووکالیگا کے درمیان تقسیم کرنے کا مقصد سوشل انجینئرنگ اور مسلم دشمنی کے اظہار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بی جے پی کا آج جو انتخابی منشور آیا ہے اس میں غریب خاندان کے لیے اگادی، گنیش چتورتھی اور دیوالی کے مہینوں میں تین ایل پی جی سلنڈر مفت دینے اور ریاست بھر میں سستی اور معیاری خوراک فراہم کرنے کے لیے ہر میونسپل کارپوریشن کے ہر وارڈ میں اٹل آہارا کیندر قائم کرنے، 10 لاکھ گھر، شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب خاندان کی خواتین کے لیے 10 ہزار روپے پانچ سال کے لیے ڈپازٹ، کرناٹک اپارٹمنٹ اونر شپ ایکٹ، 1972 میں اصلاح کرنے اور بنگلور سٹی کی ہمہ جہت ترقی کے اعلان کے ساتھ ساتھ یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور اس کے لیے کمیٹی قائم کرنے، مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے خصوصی کمیٹی کا قیام اور این آر سی جیسے ایشوز کو شامل کیا گیا ہے۔ تین مفت سلینڈر کو اکثریتی طبقے کے تہوار کے ساتھ مشروط کرنے اور پھر یکساں سول کوڈ کے نفاذ جیسے نعرے بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے لیے پولرائزیشن ہی انتخابی کامیابی حاصل کرنے کا واحد سہارا ہے۔ کرناٹک کا ساحلی علاقہ جہاں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد کے قریب ہے اور اس کے ساتھ ہی اس علاقے کے مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی صورت حال نہ صرف کرناٹک بلکہ کے بیشتر علاقوں کے مقابلے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس علاقے میں آباد بیئری مسلمان نہ صرف خوش حال ہیں بلکہ اس علاقے کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بینک آف بڑودا میں ضم ہونے والا کارپوریشن بینک بھی بیئری مسلمانوں کی ملکیت میں تھا۔ بیئری مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو مچھواروں کی برادری، موگا ویرکی اقتصادی حالات کہیں زیادہ بدتر ہے۔ ہندوتوا تنظیمیں ساحلی کرناٹک کے اس علاقے میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ حجاب کا تنازعہ یہیں کھڑا کیا گیا تھا۔ پولرائزیشن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بومئی حکومت کے خلاف لہر ہونے کے باوجود ساحلی کرناٹک میں انتخابی سروے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہاں بی جے پی ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گی۔ دراصل یہ 1990 کی دہائی کے بعد سے ہی ہندوتوا جماعتوں کی جارحانہ مہم کا نتیجہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ پسماندہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا خاتمہ، یکساں سول کوڈ کا نفاذ، گئو رکھشا کے نام پر غنڈہ گردی، اسکولوں میں حجاب پر پابندی اور ٹیپو سلطان کے نام پر مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کے باوجود بی جے پی پر امید کیوں نہیں ہے؟ مودی کے چہرے کو کیوں آگے کیا جا رہا ہے؟ کیا کانگریس فرقہ واریت کے مقابلے میں اپنے فلاحی اسکیموں کی بنیاد پر کرناٹک کے عوام اعتماد حاصل کر سکے گی؟ کیا کانگریس کو مسلم امیدواروں کو نظر انداز کیے جانے کا خمیازہ بھگنا پڑے گا؟ جنتا دل سیکولر اور ایس ڈی پی آئی کی موجودگی میں بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم کا نقصان کانگریس کو نہیں ہوگا۔
کرناٹک کے مسلمان پولرائزیشن کی سیاست کو حکمت عملی سے ناکام بنا رہے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں پولرائزیشن کی بھر پور کوشش ہو رہی ہے تو اس کے رد عمل میں کرناٹک کے 13 فیصد مسلمانوں کا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا مسلم ووٹرس بھی پولرائزیشن کا شکار ہیں یا پھر کانگریس اور جنتادل سیکولر کے درمیان منقسم ہیں؟ کیا ساحلی علاقوں میں ایس ڈی پی آئی کی موجودگی کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا؟ کرناٹک کے مشہور انگریزی صحافی مقبول احمد سراج ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرناٹک کے مسلمان ملک کے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں تعلیم یافتہ اور اقتصادی طور پر مضبوط ہیں، چنانچہ پولرائزیشن کے جواب میں مسلمانوں کا رد عمل انتہائی سنجیدہ اور خاموشی پر مبنی ہے۔ کانگریس کو لے کر کھلے عام اپنے جوش و جذبات کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں ہائی پروفائل مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کافائدہ بی جے پی کو ہی ملے گا۔ اس لیے مسلم ووٹرس خود کو لو پروفائل میں رکھے ہوئے ہیں۔مسلم متحدہ محاذ والے بھی کھلے عام محاذ آرائی کے بجائے خاموشی کے ساتھ مسلم ووٹرس کو باشعور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔15 مسلم قائدین پر مشتمل ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ہے جس میں علمائے کرام، وکلاء، سرکاری افسران، سماجی کارکنان وغیرہ شامل ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مسلم کمیونٹی اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہو۔ جامعہ العلوم عربی کالج کے پرنسپال اور خطیب و امام جامع مسجد مولانا محمد مقصود عمران بتاتے ہیں کہ ہم نے تمام مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور عوام سے کہا کہ وہ مشتعل نہ ہوں اور ہم آہنگی برقرار رکھیں۔ ہمیں ملک کے قانون کی پاسداری کرنی چاہیے اور کسی بھی بیان یا واقعے سے مشتعل نہیں ہونا چاہیے، اگر کمیونٹی کو کوئی شکایت ہے تو وہ حکومت میں شامل اسٹیک ہولڈرز سے رابطہ کرکے اس کو حل کرنے کی کوشش کرے گی لیکن کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرے گی۔ مولانا مقصود عمران کہتے ہیں کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فرقہ وارانہ مسئلہ میں کسی بھی طرح کی شدت کا نتیجہ دائیں بازو کو انتخابی فوائد کا باعث بنے گا۔ مسلم قیادت مسلم نوجوانوں کو اس سے متعلق قائل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
کرناٹک کے ساحلی علاقے اڈپی اور منگلور میں بیئری مسلمان اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے کافی مضبوط ہیں۔ان کے کئی تعلیمی ادارے ہیں جس میں انجینئرنگ، میڈیکل اور بزنس کے ادارے شامل ہیں۔ یہاں پر ہی پولرائزیشن کی سب سے زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتیں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ ایس ڈی پی آئی یہاں پر تیزی سے ابھری ہے۔ مسلم نوجوانوں میں مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایس ڈی پی آئی کی مقبولیت کا نقصان کس کو ہوگا؟ کیا بی جے پی ایک بار پھر مسلم ووٹ کی تقسیم کی وجہ سے فائدے میں رہے گی۔ مقبول احمد سراج کہتے ہیں کہ اگرچہ پی ایف آئی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی کا قانونی جواز اور اس سے متعلق حکومت کے دعوے جانچ کا موضوع ہیں لیکن ایس ڈی پی آئی جو پی ایف آئی کا سیاسی ونگ ہے کو مستثنیٰ رکھے جانے کا فائدہ کس کو ملے گا اس کا احساس مسلمانوں کو ہے۔ اس لیے اس مرتبہ شاید ایس ڈی پی آئی کی طرف مسلمانوں کا رجحان نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا ساحلی کرناٹک میں مسلم اچھی خاصی آبادی ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کا تعلق بیئری برادری سے ہے جو کہ تجارت اور کاروبار کے لیے جانے جاتے ہیں۔ 70 کی دہائی میں بیری برادری کی خلیج میں امیگریشن کا فائدہ انہیں ملا ہے۔ بیری مسلمان متعدد مالز، ہسپتالوں، تعمیراتی اور تعلیمی اداروں کے مالک ہیں۔2018 میں منگلورو جنوب سے کانگریس کے اے قادر نے کامیابی حاصل کی تھی۔اس مرتبہ بھی ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک سیٹ پر ہی مسلم امیدوار کو اکتفا کرنا پڑے گا۔اگر مسلم ووٹرس نے یہاں پر حکمت عملی سے کام نہیں لیا تو وہ اس ایک سیٹ سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔
مقبول احمد سراج کہتے ہیں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شمالی بھارت کی طرح کرناٹک میں پولرائزیشن نہیں ہے۔ کرناٹک اس طرح کی نفرت انگیز مہم کا متحمل نہیں ہے۔ چنانچہ کرناٹک میں بی جے پی کے سب سے مقبول اور عوامی لیڈر یدی یورپا واضح کرچکے ہیں کہ حجاب پر تنازع غیر ضروری ہے اور اس کے لیے کرناٹک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ دراصل بی جے پی کی مرکزی قیادت کے دباو میں کرناٹک کے بی جے پی لیڈر نفرت انگیز سیاست کا سہارا لیتے ہیں۔ یدی یورپا کے خود اپنے علاقے میں مسلم ووٹرس کی شرح 20 فیصد ہے۔ مسلم ووٹرس کی بڑی تعداد یدی یورپا کو ووٹ دیتی ہے۔اسی طرح کرناٹک میں بڑی تعداد میں سیلف ہیلپ گروپ ہیں جن میں بڑی تعداد میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہیں ۔انتخابات کے موسم میں سیلف ہیلف گروپ اپنے اقتصادی فائدے کے پیش نظر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
مقبول احمد کہتے ہیں کہ کرناٹک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہیں، اگر حالات فرقہ واریت کی بنیاد پر خراب ہوتے ہیں تو اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے، اس کا احساس کرناٹک کے سیاست دانوں کو بھی ہے اور یہاں کا کاروباری اور تاجر طبقہ بھی شدت سے اس کو محسوس کر رہا ہے۔ کنڑا بینک اور وجے بینک کی اقتصادی مضبوطی میں خلیجی ممالک میں کاروبار کرنے والے مسلمانوں کا اہم کردار ہے۔ اس لیے کرناٹک کی اشرافیہ نہیں چاہتی ہے کہ یہاں پر پولرائزیشن ہو اور اس کا نقصان انہیں اقتصادی طور پر اٹھانا پڑے۔ جنوبی کرناٹک جہاں دیوے گوڑا کی قیادت والی جنتادل کی حالت مضبوط ہے، اگر وہاں کے مسلم ووٹرس انتخابی حکمت عملی سے کام نہیں لیتے ہیں تو اس کا انہیں نقصان اٹھا پڑے گا کیونکہ جنوبی کرناٹک کے 30 سے 35 سیٹوں پر ووکالیگا برادری کی نمائندگی 35 فیصد سے زائد ہے اگر مسلم ووٹرس کانگریس اور جنتادل سیکولر کے درمیان منقسم ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے۔
پسماندہ مسلمانوں کے ریزوویشن کی برخاستگی
سیاسی تجزیہ نگار اور میسور یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مظفر اسدی بتاتے ہیں کہ ریاستی کابینہ کا مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا استدلال غلط ہےکیونکہ چار فیصد ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی و تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے دیا گیا گیا تھا ۔مسلمان ایک پسماندہ کمیونٹی ہیں۔ تمام کمیشنوں نے تسلیم کیا ہے کہ مسلمان ایک پسماندہ زمرہ ہیں۔بی جے پی نے مذہب اور برادری کے درمیان غلط فہمی پیدا کی ہے۔ اسلام دین ہے اور مسلمان امت ہیں۔ مسلمانوں میں بہت سی ذیلی ذاتیں ہیں اور یہ پچھلی مردم شماری اور سرکاری ریکارڈ میں دستاویزی شکل میں موجود ہے۔ لیکن ریاستی حکومت نےغلط طریقے سے مسلمانوں کی کمیونٹی زمرہ کے بجائے مذہبی زمرہ کے طور پر شناخت کی ہے۔ ۔تھنک ٹینک ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی کے سینئر ریذیڈنٹ فیلو آلوک پرسنا کہتے ہیں یہ جزوی طور پر سچ ہے کہ ریزرویشن صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن آئین کسی کمیونٹی کی سماجی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا، یہ دلیل کہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دیا گیا تھا۔مکمل طور پربکواس ہے۔کرناٹک پسماندہ طبقات کمیشن کے سابق چیئرمین سی ایس دوارکاناتھ کہتے ہیں کرناٹک ہائی کورٹ کے 1979 کے تبصرے میں واضح طور کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے انہیں پسماندہ طبقات کی فہرست سے خارج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔کرناٹک کی دو بڑی بااثر کمیونیٹی لنگایت کرناٹک کی آبادی کا 17فیصد اور ووکلیگاس 15فیصد ہیں۔ یہ دونوں برادریاں ریاست کے 224 اسمبلی حلقوں میں سے تقریباً 150 حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ لنگائیت روایتی طور پر بی جے پی حامی ہے جب کہ وکالیگا جنتادل سیکولر اور کانگریس کے درمیان منقسم ہیں ۔سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ بی جے پی نے مسلم کوٹہ کو ان دونوں برادریوں کے درمیان تقسیم کرنے کا جو اعلان کیا ہے شاید کا اس کا فائدہ انتخاب میں نہ ملے کیوں کہ یہ دونوں برادریاں پہلے سے ہی ریزرویشن سے فیضیاب ہورہی ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب سرکاری ملازمت میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔سرکاری کمپنیوں کو پرائیوٹ ہاتھوں میں دیا جارہا ہے۔تعلیم کا شعبہ بھی نجی ہاتھوں میں دیا جارہا ہے ایسے میں ریزرویشن میں دو فیصد کا اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات 2024کےلیے اہم کیوں ہے؟
گرچہ اس سال مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتس گڑھ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اس کے بعد تلنگانہ میں انتخابات ہوں گے ۔اس کے باوجود کرناٹک اسمبلی انتخابات کو اس لیے اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کہ یہاں پر بی جے پی کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔بدعنوانی کے الزامات ہیں ۔اس کا دفاع وزیرا عظم مودی کررہے ہیں ۔جنوبی ہند کی اس ریاست کو بی جے پی نے جنوب میں اپنی پکڑ مضبوط بنانے کےلیے ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔گزشتہ چار سالوں میں ترقیاتی طور بی جے پی حکومت عوام کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔سائبر سٹی کا اعزاز رکھنے والے بنگلورو سٹی کو کن مشکلات کا سامنا ہے وہ جگ ظاہر ہے ۔دوسری طرف کانگریس یہاں مضبوط بھی ہے۔راہل گاندھی کی پدیاترا نے یہاں مقبولیت حاصل کی تھی ۔کانگریس نے عام لوگوں کےلیے کئی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا ہے ۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی جہاں قومی سطح کی نمائندگی کررہے ہیں وہیں مقامی قیادت بھی مضبوط ہے۔ایسے میں اگر ریاست میں تبدیلی نہیں آتی ہے تو پھر کانگریس کےلیے مشکلات ہی مشکلات ہوں گی اور وزیرا عظم مودی کا قد ایک بار پھر بڑھے گا۔مگر اس کے ساتھ ہی اس کا اثر ملک پر بھی مرتب ہوگا اور پولرائزیشن ، مسلم مخالف جذبات اور دیگر جذبانی نعروں کا ملک کے دیگر حصوں میں بھی استعمال کیا جائے گا۔
***

 

***

 کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے اہم وعدے
گروہا جیوتی (200 یونٹس تک مفت برقی)
گروہا لکشمی (خاندان کی سربراہ خاتون کے لیے ماہانہ 2000 روپے وظیفہ)،
انا بھاگیہ (بی پی ایل کارڈ ہولڈرس کے لیے ماہانہ 10 کیلو گرام چاول کی فراہمی)
یواندھی (بیروزگار گریجویٹ نوجوانوں کے لیے ماہانہ 3000 روپے)
کانگریس نے مسلم کوٹہ کی بحالی کا بھی وعدہ کیا ہے
جنتادل سیکولر کے انتخابی وعدے
جنتادل سیکولر نے بھی مسلم کوٹے کو بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
نندنی برانڈ کو محفوظ اور مضبوط کیا جائے گا۔
رئیتا بندھو اسکیم کے تحت زرعی مزدور خاندانوں کو ہر ماہ 2 ہزار روپے
کسانوں سے شادی کرنے والی لڑکیوں کو 2 لاکھ روپے کی مالی امداد
چھ ماہ تک حاملہ خواتین کے لیے 6 ہزار روپے
استری شکتی سیلف ہیلپ گروپوں کے لیے قرض کی معافی۔
آنگن واڑی کارکنوں کے لیے پنشن
آٹو ڈرائیوروں اور رجسٹرڈ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے لیے ماہانہ 2ہزار روپے مالی امداد
چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے تحت نایاب بیماریوں کے علاج کے لیے 25 لاکھ روپے
اپر بھدرا انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ میں 3ہزار کروڑ روپے کا اضافہ
اگلے چار سالوں میں اپر بھدرا اور یتینہ ہول پروجیکٹوں کو مکمل کریں۔
بی جے پی کے انتخابی منشور کے اہم نکات
اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کرناٹک میں یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے گا
این آر سی نافذ کیا جائے گا اور غیر قانونی شہریوں کو نکال باہر کیا جائے گا
اگادی، گنیش چترتھی اور دیوالی کے مہینوں میں بی پی ایل خاندانوں کو تین ایل پی جی سلنڈر مفت دیے جائیں گے۔
ریاست بھر میں سستی اور معیاری خوراک فراہم کرنے کے لیے ہر میونسپل کارپوریشن کے ہر وارڈ میں اٹل آہارا کیندر قائم کیا جائے گا
سروریگو سورو یوجن کے تحت بے گھر افراد کے لیے 10 لاکھ گھروں کی تعمیر۔ SC/ST خواتین کی جانب سے اسکیم کے تحت کی گئی پانچ سالہ فکسڈ ڈپازٹ پر 10 ہزار روپے تک کا مماثل ڈپازٹ فراہم کرے گا۔
کرناٹک اپارٹمنٹ اونرشپ ایکٹ، 1972 میں اصلاح کرنے اور شکایات کے lازالے کے طریقہ کار کو جدید بنانے کے لیے کرناٹک ریذیڈنٹ ویلفیئر کنسلٹیٹیو کمیٹی تشکیل دے گی۔
حکومت وشوشورایا ودیا یوجن کے تحت سرکاری اسکولوں کی مجموعی اپگریڈیشن کے لیے ممتاز افراد اور اداروں کے ساتھ شراکت داری کرے گی۔
بزرگ شہریوں کے لیے مفت سالانہ ماسٹر ہیلتھ چیک اپ


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023