کرناٹک : اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں

الیکشن سے قبل پارٹی میں داخلی خلفشارسے بی جے پی پریشان!

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

مسلم مخالف نفرت انگیزی پر ردعمل حسب توقع نہیں۔ راہل کی یاترا سے کانگریسیوں کے حوصلے بلند
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات مئی کے تیسرے ہفتہ میں ہونے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے، لیکن ابھی سے انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ بی جے پی چونکہ پورا سال غریقِ انتخاب رہتی ہے اس لیے ہر ریاست میں بگل بجانے کی سعادت اسی کو حاصل ہوتی ہے۔ کرناٹک میں بھی یہی ہوا۔ امیت شاہ نے نئے سال کا انتظار تک نہیں کیا بلکہ 30 دسمبر 2022کو ہی کرناٹک کے منڈیا میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اگلے سال منعقد ہونے والے اسمبلی انتخاب کی مہم کا آغاز کر دیا۔ اس موقع پر امیت شاہ نے یاد دلایا کہ انہوں نے 2018کے انتخابات کا آغاز اسی ضلع سے کیا تھا۔ یہاں سے مٹھی بھر اناج مانگ کر بی جے پی نے ان کسانوں کو انصاف دلانے کا حلف لیا تھا جن کے ساتھ مبینہ طور پر کانگریس کے دور میں ظلم ہوا تھا۔ یہ بات درست ہے لیکن پھر آگے کیا ہوا؟ یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
عوام نے امیت شاہ پر اعتماد کیا اور بی جے پی کو ریاست کی سب سے بڑی پارٹی بنا دیا یہ اور بات ہے کہ واضح اکثریت نہیں ملی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی حلف برداری کرائی اور تین دن بعد ناکام و نامراد ہوکر لوٹ گئے۔ کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر حکومت بنالی اس پر رائے دہندگان کو بہت غصہ آیا۔ انہوں نے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی اور اس کے حلیف کو اٹھائیس میں سے چھبیس نشستوں پر کامیاب کرواکے اپنے غیض و غضب کا اظہار کیا اور اکیاون فیصد سے زیادہ ووٹوں سے نواز دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کرناٹک میں کسانوں کے اس غیر معمولی اعتماد کا بدلہ انہیں کیا ملا سوائے اس کے کہ مرکزی حکومت نے اڈانی اور اس کے بھائی بندوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے زراعت پر کالا قانون منظور کر دیا؟ اس کے لیے کسانوں کو سڑکوں پر اترنا پڑا اور مودی حکومت بالآخر ذلیل ہوکر اسے واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کرناٹک کے کسان اس اعتماد شکنی کو بھول جائیں گے اور پھر سے کمل کے فریب میں گرفتار ہو جائیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو اپنی تباہی و بربادی کے لیے کوئی اور نہیں وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ بقول شاعر؎
اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں
شہکار کے بہروپ میں فن کار بہت ہیں
کرناٹک کانگریس کو ایسا لگتا ہے کہ صوبے کے کسان اور عوام اس بار بی جے پی سے انتقام لیں گے۔ ویسے یہ اس ریاست کی روایت رہی ہے کہ وہ مسلسل دوسری بار کسی کو موقع نہیں دیتی چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی۔ راہل گاندھی کی یاترا سے ترغیب لے کر ریاستی کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار اور حزب اختلاف کے رہنما سدارمیا ریاست کے جنوبی اور شمالی علاقوں میں الگ الگ بس یاترائیں کر رہے ہیں۔ اپنی اس رابطہ مہم سے شیوکمار اتنے پر جوش ہیں کہ انہوں نے دعویٰ کردیا ’’پچاس دنوں کے بعد ریاست میں بی جے پی حکومت نہیں رہے گی اور کانگریس برسر اقتدار آجائے گی‘‘ خوش فہمیوں کا شکار رہنا سیاستدانوں کا شعار ہوتا ہے اور اگر وہ نہ ہوں تب بھی اپنے کارکنان کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے انہیں اس طرح کے بیانات دینے پڑتے ہیں۔ ویسے شیوکمار نے یہ بھی کہا کہ ہم نے سبھی انتخابی حلقوں میں دو یا تین بار سروے کیا ہے۔ لوگوں کا رد عمل مثبت ہے۔ ہم آرام سے 136 نشستیں جیت جائیں گے۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے لیکن اگر کانگریس سو تک بھی پہنچ جائے تو جنتا دل ایس کی حمایت سے حکومت بنا سکتی ہے۔
کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ریاست میں خاندان کی ہر خاتون سربراہ اور دیگر کو دو ہزار روپے دینے کا بڑا وعدہ کیا ہے۔ یہ ایک شیخ چلی کا خواب لگ سکتا ہے لیکن اس کی تردید میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کرناٹک کے لیے اب تک تیرہ بجٹ پیش کرچکے ہیں۔ وہ سولہ سال سے حکومت کا حصہ ہیں۔ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس فنڈ کے انتظام سے متعلق آئیڈیا ہے۔ کرناٹک بی جے پی کے اندر خاصی اتھل پتھل ہے اور عوام میں بڑے بڑے اعلانات سے پرے امیدواروں کا تقرر ابھی نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے ریاستی صدر شیو کمار نے دعویٰ کردیا کہ اسمبلی انتخاب کے لیے امیدواروں کی فہرست کو آخری شکل دینے کے لیے جس نشست کا انعقاد کیا گیا تھا وہ بخیر وخوبی اختتام کو پہنچی۔ اس میں بغیر کسی اعتراض یا عدم اطمینان کے رہنماوں نے بہتر ماحول میں فیصلے کیے۔ ماضی میں بی جے پی اس کام کو سب سے پہلے نمٹ لیتی تھی لیکن اب آپسی اختلافات کے سبب ایسا نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس بابت جاری سر پھٹول کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
امیت شاہ نے اپنے خطاب میں کانگریس پر اقربا پروری کا الزام لگایا تھا اور وہ صد فیصد درست بھی ہے لیکن خود بی جے پی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ اس کو یدی یورپا کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے جو بچپن ہی سے آر ایس ایس میں ہیں اس لیے ان کی تربیت میں کانگریس یا دیگر نظریات کے حاملین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ انہوں نے حال میں عمر کا بہانہ بناکر انتخاب سے سنیاس لے لیا لیکن اپنے حلقہ انتخاب شکار پور سے بیٹے وجیندر کو میدان میں اتار دیا۔ پچھلے الیکشن کے قبل وہ سدا رامیا کے بیٹے یتندر کے خلاف میسور کے ورونا حلقہ انتخاب سے وجیندر کو لڑانا چاہتے تھے لیکن آخری وقت میں فیصلہ بدل دیا گیا اور اس سے ناراض بی جے پی کارکنان نے پنڈال میں توڑ پھوڑ کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار بھی کیا تھا۔ وجیندر کی گاڑی روکی گئی تو پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اس وقت شکار پور سے یدی یورپا کے بڑے بیٹے رگھویندر رکن اسمبلی تھے۔ یدی یورپا نے ان کا ٹکٹ کاٹ کر خود وہاں سے انتخاب لڑا۔ بی جے پی نے اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس کے اندر اقربا پروری نہیں ہے لیکن پھر آگے کیا ہوا؟
یدی یورپا ارکان اسمبلی کو خرید کر اٹھتر سال کی عمر میں پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کا بڑا بیٹا رگھویندر رکن پارلیمان بن گیا۔ چھوٹے بیٹے وجیندر کو پہلے پارٹی کا سکریٹری اور پھر نائب صدر بنا دیا گیا۔ یدی یورپاّ اس کو اپنا ولیعہد بناکر شکار پور سے الیکشن لڑا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ کرناٹک کے تاج کی اگلی لڑائی سابق وزیر اعلیٰ ایس آر بومئی کے بیٹے بسوراج بومئی اور یدی یورپا کے فرزند وجیندر کے درمیان ہو۔ کیا یہ زعفرانی اقربا پروری نہیں ہے؟ یدی یورپا کے علاوہ ریڈی خاندان سے بھی بی جے پی کے قدیم مراسم ہیں۔ ریڈی برادران سے بی جے پی کی قربت کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا۔ اس وقت بیلاری کانگریس کا مضبوط قلعہ ہوا کرتا تھا۔ اس لیے 1999 میں سونیا گاندھی نے وہاں سے انتخاب لڑا۔ ان کے خلاف بی جے پی نے آنجہانی سشما سوراج کو میدان میں اتارا۔ اس وقت ریڈی برادران نے لوک سبھا انتخاب لڑنے میں بی جے پی کی مدد کرکے اسے بیلاری میں مضبوطی فراہم کی تھی۔
2008 میں جب بی جے پی اقتدار میں آئی، تو ریڈی کو ان کے بھائی کروناکر ریڈی اور ساتھی شری رامولو کے ساتھ کابینہ میں شامل کیا گیا۔ 2009 میں انہوں نے بغاوت کر دی اور بی جے پی کے ساٹھ اراکین اسمبلی کو ایک ریسارٹ میں لے گئے۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ یدی یورپا کو اپنے ایک قابل اعتماد اور اب ایک مرکزی وزیر شوبھا کرندلاجے کو کابینہ سے ہٹانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ان رشتوں میں مزید تلخی کا سبب کرناٹک لوک آیوکت کے ذریعہ جناردھن ریڈی پر کانکنی گھوٹالے کا الزام بنا اور 2011 میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ چار سال جیل میں چکی پیسنے کے بعد 2015 میں وہ ضمانت پر رِہا ہوسکے۔ ایسی صورتحال میں بدعنوانی کی مخالفت کا ڈھونگ رچانے والی بی جے پی کے لیے ریڈی کو پارٹی میں شامل کرنا مشکل ہوگیا لیکن ریڈی خاندان سے اس کے تعلقات استوار رہے۔ یہ اقربا پروری کی دوسری بڑی مثال ہے۔
اس سال منتخب ہونے والے ریاستی انتخاب کے حوالے سے جناردھن ریڈی کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے الیکشن سے قبل ’کلیانہ راجیہ پرگتھی پکشا‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اب الیکشن کمیشن میں اپنی پارٹی کو رجسٹر کروانے کی تگ ودو میں نئی دلی کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ جناردھن ریڈی کے اس فیصلے کا پہلا محرک تو ان کے قریبی بی سری رامولو کو وزیر صحت کے عہدے سے ہٹا کر وزیر ٹرانسپورٹ بنانا ہے۔ اس کے علاوہ جناردھن ریڈی ریاستی سیاست میں اپنے لیے کسی اہم عہدے کی یقین دہانی نہیں کرائے جانے سے بھی ناراض ہیں۔ ریڈی برادران پارٹی کے صوبائی سکریٹری بی ایل سنتوش کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ نئی پارٹی بنانے کے فیصلے سے بی جے پی کی کرناٹک اکائی پریشان ہے۔ مقامی قائدین نے اعلیٰ کمان سے درخواست کی ہے کہ وہ کسی طرح ان سے بات کرکے انہیں اعتماد میں لیں۔
جناردھن ریڈی نے اپنی نئی سیاسی پارٹی کے لیے کافی کام کیا ہے۔ ان کی حکمت عملی گزشتہ الیکشن میں ہارنے والی تمام جماعتوں کے امیدواروں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے ساتھ جوڑنا ہے۔ اس کا ایک دلچسپ پہلو ان کا نجومیوں پر غیر معمولی اعتماد ہے۔ وہ ان سے مشورہ کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے اس لیے انہوں نے ممکنہ امیدواروں کو اپنی درخواست کے ساتھ جنم کنڈلی جمع کرانے کا فرمان بھی جاری کر رکھا ہے۔ اکیسویں صدی میں ایسے تماشے ہندوتوا نوازوں کے سوا کون کرسکتا ہے؟ بی جے پی کے داخلی ذرائع سمجھتے ہیں کہ اگر جناردھن ریڈی اپنی پارٹی کے ذریعہ کم از کم بیس اسمبلی سیٹوں پر کمل کی کامیابی کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں پچھلی مرتبہ بی جے پی انتخاب کے بعد اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس کو حکومت سازی کے لیے حزب اختلاف کو توڑنا پڑا ہو یہ بیس سیٹوں کا فرق بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق کانگریس کی بہ نسبت بی جے پی بیس سیٹیں پیچھے چل رہی ہے اس لیے اسے ہلکے میں لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ بی جے پی کے ہندوتوا پریوار کی ایک اہم فریق شری رام سینا بھی ہے۔ وہ اپنے متنازع بیانات کے سبب بی جے پی سے زیادہ خبروں میں رہتی ہے۔ اس بار وہ بھی جناردھن ریڈی کی طرح ناراض چل رہی ہے۔ ضلع اُڈپی کے کارکلا سے شری رام سینا کےسربراہ پرمود متالک نے آئندہ اسمبلی الیکشن میں میدان میں اترنے کا اعلان کرکے بی جے پی رکن اسمبلی سنیل کمار کی مشکلیں بڑھا دی ہیں۔ اس کے ضلع صدر اجیت شیٹی نے دھمکی دی ہے کہ اگر بی جے پی نے پرمود متالک کے خلاف کارکلا میں اپنا امیدوار اتارا تو پھر چکمگلورو میں رام سینا بھی سی ٹی روی کے خلاف مقابلہ پر اترے گی۔ یعنی بی جے پی کو کارکلا کے علاوہ چکمگلور میں بھی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ کارکلا کا بی جے پی رکن اسمبلی سنیل کمار کسی زمانے میں پرمود متالک کا شاگرد ہوا کرتا تھا مگر انتخابی سیاست نے گرو اور چیلے کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ہے۔ سنیل کمار نے اپنے گرو سے بغاوت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہماری پارٹی کی پالیسی کے متعلق دوسرے ہدایت نہ دیں۔ ان کے مطابق اس طرح مقابلے ہونے چاہئیں اور آخری فیصلہ رائے دہندگان کو ہی لینا ہوتا ہے۔ سنیل کمار نے جس نمک حرامی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہندوتوا پریوار کی پہچان اور بی جے پی کی بربادی کا نشان ہے۔
امیت شاہ نے مہم کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس پر بدعنوانی کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ اس نے کرناٹک کو اپنے لیے اے ٹی ایم بنا دیا تھا۔ یہ بات کانگریس کی مہم ’پے سی ایم ‘ کے جواب میں کہی گئی۔ کرناٹک کانگریس نے وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف ریاست کی دیواروں پر ’پے ٹی ایم‘ سے ملتے جلتے ’پے سی ایم‘ کے پوسٹر چسپاں کر دیے تھے۔ پوسٹر پر لکھا تھا ’ہم یہاں چالیس فیصد (کمیشن) قبول کرتے ہیں۔‘ اور اس پر بومئی کی تصویر بھی تھی۔ پوسٹر پر بنے کیو آر کوڈ کو اسکین کرنے پر ’40 پرسنٹ سرکار ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ کھل جاتی تھی اور وہاں کئی گھوٹالوں کی تفصیل مل جاتی تھی۔ کانگریس نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعلیٰ ہر کام مثلاً عوامی ٹھیکہ اور سرکاری ملازمتوں پر تقرری وغیرہ میں بڑے پیمانے پر دلالی وصول کرتے ہیں جو کم از کم چالیس فیصد ہوتی ہے۔اس مہم کو عوام میں خوب مقبولیت ملی جسے زائل کرنے کی خاطر امیت شاہ نے اے ٹی ایم کا شوشہ چھوڑا۔
ماضی پر بہتان لگانا آسان ہے لیکن حالیہ الزامات سے انکار مشکل ہے۔ بیلاری کے جناردھن ریڈی کے بی جے پی کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل کے بیٹے جناردھن ریڈی کو سولہ ہزار کروڑ کے کانکنی گھوٹالے میں سزا ہوئی اور اب بھی وہ تڑی پار ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی نے دکھاوے کے لیے سہی جناردھن ریڈی سے خود کو دور تو کر لیا تھا لیکن دونوں بھائی قانون ساز بنے رہے۔ ان دونوں کے رفیقِ کار سری رامولو، بی جے پی کی ریاستی حکومت میں ٹرانسپورٹ کے وزیر ہیں۔ مرکزی حکومت نے جب 2016 میں نوٹ بندی نافذ کی جس کی وجہ سے سارا ملک پریشان ہوا تو ریڈی نے دھوم دھام کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی میں خوب دولت لٹائی ۔ اس تقریب میں بی جے پی کے کئی رہنماوں نے بے حیائی کے ساتھ شرکت کرکے پارٹی کو شرمندہ بھی کیا۔ اس کے باوجود خود کو پاک صاف کہہ کر دوسروں پر بدعنوانی کا الزام لگانے والوں پر ہنسی ہی آتی ہے۔
امسال اپریل میں کرناٹک کے دیہی ترقی اور پنچایت راج کے وزیر، حجاب کے دشمنِ عظیم اور بی جے پی کے سینئر لیڈر کے ایس ایشورپا پر بدعنوانی اور فریب دہی کا الزام لگانے والے ٹھیکیدار سنتوش پاٹل نے اڈپی میں خودکشی کرلی۔ پولیس نے ایشورپا کے خلاف سنتوش پاٹل کے بھائی پرشانت کی متوفی کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت کر درج کرلی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا سنتوش پاٹل کوئی مسلمان یا کانگریسی نہیں بلکہ ہندو یوا واہنی کا قومی سکریٹری تھا اور اس نے اپنی خودکشی کا ذمہ دار وزیر موصوف کو ٹھیرایا تھا۔ سنتوش نے اپنی موت سے قبل ایشورپا کو براہ راست ذمہ دار ٹھیرایا کر اس کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ سنتوش نے اپنی موت سے دو ہفتہ قبل الزام لگایا تھا کہ ایشورپا نے چار کروڑ روپے کے کام میں چالیس فیصد کمیشن کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اس بیچارے نے فریاد بھی کی تھی کہ ایشورپا کی زبانی ہدایت پر اس نے اپنے گاؤں میں سڑکوں کی تعمیر پر چار کروڑ روپے خرچ کر دیے لیکن جھوٹا، بدعنوان اور بے ضابطگی کا ملزم وزیر ادائیگی نہیں کررہا ہے اس لیے اس کا تصفیہ کیا جائے۔ لیکن اڈانی اور امبانی کی سننے والے وزیر اعظم نے ہندو یوا واہنی کے ورکر کی ایک نہیں سنی۔ بالآخر اسے خودکشی پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہندو واہنی کے سکریٹری اور بی جے پی کے کارکن کو انصاف دلانے کے لیے یوتھ کانگریس نے امیت شاہ کی رہائش کا گھیراؤ کرکے ایشورپا کی برخواستگی کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابتدا میں انکار کرنے والے وزیر موصوف کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ یہ بھی ان کے ملوث ہونے کا ثبوت تھا اس کے باوجود بومئی نے انہیں کلین چٹ دے دی۔
خیر یہ تو پچھلے سال کی بات ہے، پچھلے ماہ کرناٹک میں ایک تاجر پردیپ نے بنگلورو کے نزدیک اپنی کار کے اندر اپنے سر میں گولی مار لی اور آٹھ صفحات پر مشتمل خودکشی نوٹ چھوڑا جس میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اروند لمباولی اور پانچ دیگر افراد گوپی، سومیا، جی رمیش ریڈی، جیرام ریڈی اور راگھو بھٹ کے نام ہیں۔ پردیپ کی بیوی نمیتا نے ایف آئی آر درج کر ائی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماوں نے پسماندگان سے مل کر انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔ ماضی میں بنک کے ڈر سے کسانوں کی خودکشی کے واقعات منظر عام پر آتے تھے لیکن اب تاجروں اور ٹھیکیداروں کو خود کشی پر مجبور کرنے کا کارنامہ بی جے پی کا ہے۔ اس تناظر میں امیت شاہ کا جے ڈی ایس اور کانگریس کو بدعنوان، مجرمانہ اور مبینہ طور پر فرقہ پرست کہنا اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ کوئی دیوانہ ہی اس پر یقین کرسکتا ہے۔
کرناٹک میں فی الحال بی جے پی کی خونخوار بدعنوانی تاجروں اور ٹھیکداروں کی جان لے رہی ہے۔ زعفرانیوں کی فرقہ پرستی کے کرتوت بی بی سی کی فلم سارے عالم کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کے بھکتوں نے بی بی سی اور پٹھان دونوں کو روکنے کی کوشش کر کے انہیں سپر ہٹ بنا دیا۔ کرناٹک میں اپنے ان کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ کبھی حجاب تو کبھی حلال کے پر پابندی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اس سے بات نہیں بنتی تو تبدیلی مذہب کا قانون اور لو جہاد پر ہنگامہ کیا جاتا ہے۔ اس پر بھی لوگوں نے دھیان نہیں دیا تو مہاراشٹر کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ سارے حربے ناکام ہوگئے تو ریزرویشن بڑھا کر مختلف طبقات کی منہ بھرائی کی کوشش کی جاتی ہے۔ کرناٹک میں مسلم دشمنی مظاہرہ اتر پردیش سے زیادہ ہے لیکن اس کی پے درپے ناکامی کے بعد اب ہندوتوا کے بجائے ترقی کو مرکزی موضوع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ترقی کا عجب مسئلہ ہے کہ ہوئی ہی نہ ہو وہ دکھائیں کیسے؟ ترقی کوئی ڈر تو ہے نہیں کہ نظر نہ آتا ہو اس لیے بی جے پی پریشان ہے۔ اس کے باوجود اگر کرناٹک کے عوام نے اس کو کامیاب کر دیا تو ان پر حسن کمال کا یہ شعر صادق آجائے گا؎
مصلحت پرستی پر ہر قدم رہا ہم کو جرم کا گماں لوگو
اپنی وجہ بربادی جانتے ہیں ہم لیکن کیا کریں بیاں لوگو
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 کرناٹک میں اپنے ان کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ کبھی حجاب تو کبھی حلال پر پابندی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اس سے بات نہیں بنتی تو تبدیلی مذہب کا قانون اور لوجہاد پر ہنگامہ کیا جاتا ہے۔ اس پر بھی لوگوں نے دھیان نہیں دیا تو مہاراشٹر کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ سارے حربے ناکام ہوگئے تو ریزرویشن بڑھا کر مختلف طبقات کی منہ بھرائی کی کوشش کی جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023