کارکنانِ تحریک اسلامی نظام ’عدل وقسط‘ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں

دشوار کن حالات میں ’جرأت‘ کے ساتھ اقامت دین کا سفرجاری رکھیں۔ اجتماع ارکان 2024 کا پیغام

محمد مجیب الاعلیٰ

غزہ کے مجاہدین کا جذبہ قربانی اور استقامت امّت کے لیے مشعل راہ۔ امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کا خطاب
رقت انگیز ماحول میں پندرہ ہزار ارکان جماعت اسلامی ہند کا اللہ کی خوشنودی کی خاطر مقصد و نصب العین کے تقاضے پورا کرنے کا عہد
جماعت اسلامی ہند کا تین روزہ کل ہند اجتماعِ ارکان 2024 وادی ہدیٰ، حیدرآباد میں امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کے اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ یہ مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرض ہے کہ وہ دنیا میں حق و انصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو جائیں اور ظلم و ناانصافی کی جگہ عدل وقسط کے نظام کو قائم کریں۔ اس ملک کی اور یہاں کے باشندوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں فساد و خلفشار سے بچا کر امن و سلامتی کا راستہ دکھایا جائے۔ نیز، شعوری ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ تحریک اسلامی کا ہر رکن و کارکن چار کاموں۔ دعوت، اصلاح، تزکیہ اور خدمت کو اپنے اوپر لازم کرلے۔ وطن عزیز کے سنگین حالات اسی وقت تبدیل ہوں گے جب رائے عامہ میں مثبت تبدیلی کے لیے ہمّت وحوصلہ اور استقامت کے ساتھ ہم یہ کام کریں گے۔ 15 تا 17 نومبر وادی ہدیٰ کے پر فضا مقام پر منعقدہ اس اجتماع میں ملک بھر سے پندرہ ہزار ارکان شریک تھے اور اجتماع کے دوسرے دن جماعت کے کارکنان، ذیلی تنظیموں ایس آئی اور جی آئی او کے وابستگان اور متوسلین کے لیے ایک عمومی سیشن رکھا گیا تھا جس میں شہر، اضلاع اور آس پاس کے علاقوں سے مزید بیس ہزار افراد شریک ہوئے۔
اجتماع کے اختتامی سیشن میں ماحول اس وقت جذباتی ہوگیا جب پندرہ ہزار مندوب اراکین نے کھڑے ہوکر اللہ سے کیے گئے اپنے اس عہد کی تجدید کہ وہ ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کے اقرار سے لازم آنے والے تقاضوں کو مرتے دم تک پورا کریں گے اور اپنے کسی مفاد کی پروا کیے بغیر محض خوشنودی رب کی خاطر ہر حال میں اپنے نصب العین ’’اقامت دین‘‘ پر جمے رہیں گے۔‘‘ تجدید عہد کے دوران ارکان جماعت اس وقت اشک بار ہو گئے جب نائب قیم جماعت جناب محی الدین شاکر عہد نامے کے ان الفاظ پر پہنچے کہ ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے یہ عہد اللہ کو حاضر وناظر جان کر کیا ہے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میں بحثیت رکن اپنی ذمہ داریوں کو ادا کروں گا اور جو کوتاہیاں ہوئی ہیں میں ان کا ازالہ کروں گا۔ خواہ سمندر منہ پھیر لیں اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں لیکن میں اپنے عہد کی پابندی کروں گا۔ اے ہمارے رب! ہمیں طاقت دے کہ ہم اس عہد کو پورا کرسکیں‘‘
امیر جماعت اسلامی ہند نے اس موقع پر ارکان جماعت کو سراپا ’جرأت ‘ بن جانے کی تلقین کی اور ملک کے موجودہ تناظر اور جماعت کے میقاتی منصوبے کے متعلق کہا کہ ’جرأت‘ کا پہلا لفظ ’ج‘ ہے جس سے میری مراد ’جدوجہد‘ ہے۔ ہمیں اپنے نصب العین کے حصول کے لیے پیہم جدوجہد کرنی ہے۔ ’ ر‘ کا مطلب رفاقت ہے۔ یعنی ہمارے رفقائے جماعت کے درمیان غیرنمعمولی محبت و الفت ہو نیز، باہمی تعلقات میں ’’رحماء بینہم‘‘ کی اسپرٹ موجزن ہو۔ تیسرے لفظ ’الف‘ سے مراد ’استقامت‘ ہے یعنی پورے صبر و ثبات اور استقلال کے ساتھ اس مشن کو انجام دیتے رہنا ہے اور آخری لفظ ’ت‘ کا مطلب ہے’تربیت‘۔ تحریک اسلامی کا کارکن اپنی جدوجہد کے کسی مرحلہ میں بھی تربیت ذات سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ ہمیں شیطان کے وار سے خبردار رہنا چاہیے کہ وہ اکثر دین کے داعیوں کو اپنی اصلاح و تربیت سے غافل کر دیتا ہے۔
جناب سید سعادت اللہ حسینی افتتاحی سیشن میں اجتماع کے مرکزی موضوع ’’کونوا قوامین بالقسط شہداء اللہ‘‘ پر سیر حاصل گفتگو کی اور کہا کہ رسولوں کی بعثت کا مقصد عدل وقسط کاقیام ہے۔ اس میں عدل و اعتدال دونوں پہلو شامل ہیں اور یہی پوری اسلامی شریعت کی روح ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدل و اعتدال ایک ہی چیز ہے۔ جب عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں، جب انسانی مزاج، روّیے اور اعمال بگڑتے ہیں تو بے اعتدالیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس بگاڑ کی اصلاح اللہ کے دیے گئے نظام عدل و قسط کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدل وقسط اسلامی پالیسی کا عنوان ہے تو اعتدال اسلامی مزاج کا عنوان ہے۔ لہٰذا فکر کی سلامتی اور فکر کا اعتدال شرط لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں عدل کا بحران ہے جس نے طرح طرح کی فکری بے اعتدالیوں کو جنم دے کر انسانی زندگی کو جہنم زار بنا دیا ہے۔ ملک کا ماحول بھی کچھ مختلف نہیں ہے جہاں نفرتیں بھڑکائی جارہی ہیں اور عداوتیں پنپ رہی ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ ہم قیام عدل وقسط کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور حالات سے مایوس ہوئے بغیر دیوانہ وار اقامت دین کا اپنا سفر جاری رکھتے منزل کی طرف رواں دواں رہیں۔ امیر جماعت نے اجتماع کے دوسرے دن وابستگان کے عمومی سیشن سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے بھی یہی نصیحت کی کہ جماعت اسلامی ہند کے تمام وابستگان اپنے کاموں کے دائرے کو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے تمام طبقات تک پہنچائیں۔ امیر جماعت نے اجتماع کے پیغام عمل کو یاد رکھنے کے لیے سال 2025 کے لیے "RISE” (اٹھ کھڑے ہوجاو) کا نعرہ دیا اور کہا کہ اس کے پہلے لفظ ’’R‘‘ کا مطلب ہے ’ریچ آؤٹ‘ یعنی بڑے پیمانے پر عوامی ربط ضبط کو بڑھایا جائے۔ دوسرا لفظ ہے ’I‘ اور اس کا مطلب ہے’انڈی ویجیول کنٹری بیوشن‘ یعنی اپنی ذات کو سماج کے لیے مفید تر بنانا، تیسرا لفظ ہے’ S‘ اس سے مراد ’شفٹ اِن پبلک اوپنین‘ یعنی عوامی رائے میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرنا ہے اور آخری لفظ ہے ’ E‘ جس کا مطلب ہے ’ انگیج منٹ‘ یعنی بڑیے پیمانے پر سماجی تعامل اور تعلقات پیدا کرنا۔ ان چاروں باتوں پر عمل کرتے ہوئے سال 2025 کو ہم RISE کا سال بنانے کا عہد کریں۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے امت مسلمہ کو مایوسی سے بچنے اور حالات میں مثبت تبدیلی کی کوششوں پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اور عالمی حالات سنگین ضرور ہیں، لیکن ان سے حوصلہ شکن ہونے کے بجائے منظم جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں امت مسلمہ ہر قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں حالات کا رونا رونے کے بجائے حالات کا رخ موڑنے اور اس میں تبدیلی لانے کی فکر کرنی ہوگی۔ یہ وقت امت مسلمہ کے لیے آزمائش اور امتحان کا ہے۔نفلسطین کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کے مجاہدین نے قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ یہاں کے معصوم بچے بھی اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ جذبہ قربانی اور حریت امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انبیائے کرام اور صحابہ کرام کی زندگیاں بھی آزمائشوں سے بھرپور تھیں، لیکن ان کی ثابت قدمی نے تاریخ کو بدل دیا۔
قبل ازیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند جناب ایس امین الحسن نے عالمی منظر نامہ اور تحریک اسلامی‘ کے عنوان سے خطاب کیا اور عالمی صورتحال کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ممالک کے درمیان تنازعات سے جنگوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ظالم طاقتوں کے لیے فلسطین تجربہ گاہ بن چکا ہے جہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں ہو رہی ہیں اور ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہو رہا ہے جبکہ انسانی حقوق کی دعوے دار مملکتیں ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ فلسطینیوں کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ نائب امیر جماعت اسلامی ہند محمد سلیم انجینئر نے ’’ملکی منظر نامہ اور تحریک اسلامی‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو اس میں بعض مثبت پہلو بھی دکھائی دیں گے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور عوام آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان نے معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ترقی کی ہے لیکن اخلاقی بحران میں اضافہ تشویش کا باعث ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں نفرت کے ماحول کو ہوا دے رہی ہیں۔ عوام کی اکثریت سیکولر ہے اور مٹھی بھر مفاد پرست طاقتیں صورتحال کو بگاڑنا چاہتی ہیں۔ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ بے گناہ افراد کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں برادران وطن سے تعلقات کو استوار کرنے اور اسلام کے امن و محبت کے پیام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات میں شکایتی یا جذباتی رد عمل اختیار کرنے کے بجائے ایک فعال و حکیمانہ اپروچ اختیار کرنے پر زور دیا۔ وابستگان جماعت کے اس سیشن کا مولانا اعجاز اسلم کے درس قرآن سے ہوا، معاون امیر حلقہ تلنگانہ، حافظ رشادالدین نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ ’ایس آئی او‘ کے قومی صدر رمیز ای کے نے معاشرے کی تعمیر نو میں طلبہ اور نوجوانوں کے کردار پر روشنی ڈالی جبکہ ’جی آئی او‘ کی نیشنل فیڈریشن کی صدر سمیہ روشن نے طالبات میں تحریک کے تیز رفتار فروغ کے موضوع پر اثر انگیز گفتگو کی۔ اس موقع پر جماعت کی مرکزی سکریٹری محترمہ رحمت النساء نے سماج میں خواتین کے درپیش چیلنجوں اور مواقعوں پر اظہار خیال کیا۔ اس گفتگو میں انہوں نے تحریکی سرگرمیوں میں خواتین کی موثر حصہ داری اور صالح و باصلاحیت نسلوں کی تیاری میں ان کے غیر معمولی کردار کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک میں خواتین کی شمولیت اور مختلف محاذوں پر ان کی خدمات میں بہت تیزی سے ترقی ہو رہی ہے جو ایک بہتر مستقبل کی نوید ہے۔
لیڈرشپ سیشن میں جماعت اسلامی ہند کی حرکیاتی شخصیات جناب پٹیل محمد یوسف رکن مجلس شوری حلقہ تمل ناڈو ، ڈاکٹر طہٰ متین رکن مرکزی مجلس شوریٰ، جناب واثق ندیم مرکزی معاون سکریٹری، جناب ایم عبدالسلام رکن مرکزی شوریٰ نے علی الترتیب اصلاح معاشرہ، تزکیہ و تربیت، ظلم کی مزاحمت اور تعلیمی ادارہ سازی کے میدانوں میں نتیجہ خیز سرگرمیوں کی متاثر کن روداد سے واقف کروایا۔
فکری سیشن میں ڈاکٹر حسن رضا رکن مرکزی مجلس شوریٰ نے ’’تحریکی فکر اور اس کی اساسیات‘‘ پر روشنی ڈالی جبکہ جناب ملک معتصم خاں نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے ’’امت کی تعمیر و ترقی اور تحریک اسلامی‘‘ کے زیر عنوان خطاب کیا۔ اسی سیشن میں مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے ’’عصر حاضر میں سیرت کی رہنمائی‘‘ کے موضوع پر ولولہ انگیز تقریر کی جبکہ مرکزی سکریٹری جناب شبیر عالم نے ’’دعوت، اصلاح، تربیت و خدمت: ہر رکن کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے ارکان جماعت پر چار لازمی بنیادی کاموں کی اہمیت کو واضح کیا۔ بعد ازاں الگ الگ میدانوں جیسے تعلیم اور تعلیمی نظام، میڈیا، علمی و تصنیفی کام، علماء میں کام، پروفیشنل حضرات اور تاجرین میں کام، قانونی مدد و رہنمائی، بچوں اور نوجوانوں میں کام، اوقاف کے امور، ادب، بلا سودی مالیات اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں کام کے میدانوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے متوازی سیشنس رکھے گئے تھے۔
تحریکی سیشن میں ملک کے مختلف حصوں سے منتخب مقامی اور ریاستی سطح کے ذمہ داروں نے اپنے کامیاب تنظیمی تجربات اور سماجی کاموں سے شرکاء اجتماع کو واقف کراویا اور آخر میں جناب محمد جعفر رکن مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے صدارتی تبصرے سے شرکاء کو مستفید کیا۔ اسی سیشن میں مولانا رضی الاسلام ندوی نے فقہی و مسلکی معاملات میں اعتدال پسندانہ رویہ کی ضرورت و اہمیت پر ارکان جماعت کو متوجہ کیا جبکہ قیم جماعت ٹی عارف علی صاحب نے ’’تحریکی تقاضوں میں اعتدال وتوازن‘‘ کے زیر عنوان فکر انگیز خطاب کیا۔ اجتماع میں مختلف سماجی، تعلیمی اور اقتصادی نیز اخلاقی و روحانی معاملات پر شرکاء کی رہنمائی کی گئی۔ ایک خصوصی نمائش ”IDRAK Tahreek Showcase” کے ذریعے ملک بھر میں جماعت اسلامی ہند، اس کے ذیلی اداروں اور تنظیمی کی جانب سے جاری وساری سو سے زائد کمیونٹی اور سماجی ترقی کے کامیاب پروجیکٹوں کو پیش کیا۔ اس موقع پر ناظم اجتماع جناب عبدالجبار صدیقی نے تمام شرکاء، مقامی انتظامیہ، پولیس، متعلقہ حکام اور ڈیڑھ ہزار سے زائد والینٹروں کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا، جن کی دن رات کی محنت اور تعاون اور اللہ رب العزت کی نصرت سے یہ تاریخی اجتماع کامیاب ہو سکا۔ ناظم اجتماع نے امید ظاہر کی کہ یہ اجتماع ماضی اور حال کو جوڑ کر تحریک کو ایک سنہرا مستقبل دینے کا نقیب ثابت ہو گا۔
(ادراک تحریکی شو کیس کی تفصیل مع تصاویر صفحہ 22 پر ملاحظہ کریں)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024