
کانوڑ یاترا کا معاملہ پہنچا سپریم کورٹ، کیو آر کوڈ کے بہانے شناخت کو لازمی بنانے کے خلاف عرضی داخل
پرائمری اسکولوں کے بعد ثانوی اسکولوں پر خطرے کے بادل ،یوپی میں سرکاری اسکول بند ہونے سے غریبوں کی تعلیم متاثر ہونے کے اندیشے
محمد ارشد ادیب
چھانگر بابا کے قریبی ٹھیکے دار نے ہی اسے پھنسادیا، یو پی، ایس ٹی ایف سمیت کئی ایجنسیاں مالی لین دین کی جانچ میں مصروف
مدھیہ پردیش میں بھائی بہن کا رشتہ داغدار ،بھائی نے بہن کی آبرو لوٹ لی
شمالی بھارت میں ان دنوں کانوڑ یاترا پر وبال مچا ہوا ہے۔ 11 جولائی سے ساون مہینے کا آغاز ہو چکا ہے اس کے ساتھ ہی اتر اکھنڈ کے ہریدوار سے گنگا جل لانے والے شیو بھکت جنہیں عرف عام میں بھولے کہا جاتا ہے کانوڑ یاترا پر نکل پڑے ہیں۔ کہنے کو تو یہ بھولے ہیں لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ان کی یاترا ہندو احیا پرستی کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ شمالی ریاستوں میں برسر اقتدار سیاسی جماعتیں ان کی کھل کر حمایت و سرپرستی کر رہی ہیں۔ پہلے کانوڑ یاتری سڑک کے کنارے چپ چاپ پیدل چلا کرتے تھے لیکن آج کل ان کے ساتھ ڈی جے سے سجی ہوئی گاڑیاں چلتی ہیں، ان کی پوشاکیں اور تیور بھی بدل چکے ہیں۔
میں ہندو ہوں کانوڑ یاترا کا نیا پوسٹر
قومی دارالحکومت دلی این سی آر سے متصل مغربی اتر پردیش کے میرٹھ اور سہارنپور سے لے کر اتراکھنڈ کے ہریدوار تک تقریباً 200 کلومیٹر کے دائرے میں ساون کے پورے ماہ کانوڑیوں کا ہجوم رہتا ہے جس کا دائرہ پچھلے کچھ برسوں سے کافی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اتر پردیش کے دیگر علاقوں میں بھی کانوڑ یاترائیں نکلنے لگی ہیں۔ بریلی میں ہندو مہا سبھا نے ایک نئی مہم شروع کی ہے جس کے تحت کانوڑ روٹ پر لگنے والی دکانوں اور ہوٹلوں پر "میں ہندو ہوں” کے پوسٹر لگائے جا رہے ہیں۔ ہندو مہاسبھا کے زونل پریسیڈنٹ پنکج پاٹھک کا کہنا ہے کہ میں ہندو ہوں کی مہم سے ہندوؤں میں ذات پات کا فرق ختم ہوگا اور کانوڑ روٹ پر کوئی نام بدل کر کسی کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ انہوں نے میرٹھ اور مظفر نگر میں دکانوں کے باہر نام اور موبائل فون نمبر کے ساتھ شناختی تختیاں لگانے کی پرزور حمایت کی ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پچھلے سال نام کی تختی لگانے کے سلسلے میں واضح ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ شناختی تختیاں لگانا ضروری نہیں ہے البتہ ہوٹلوں میں کھانے پینے کی چیزوں پر فوڈ سیفٹی ایکٹ کے تحت پوری تفصیلات درج ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ریاستی حکومت نے اس بار کیو آر کوڈ لگانے کے نام پر دکانداروں کی شناخت کو ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پروفیسر اپوروانند اور آکار پٹیل کی جانب سے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر کردہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کا موجودہ فرمان سپریم کورٹ کی ہدایت کے ساتھ ساتھ شہریوں کے بنیادی حقوق اور وقار کے بھی خلاف ہے۔ ادھر اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی بھی کہہ چکے ہیں کہ سبھی دکانداروں کے پاس کم از کم ایک شناختی کارڈ اور فوڈ لائسنس ہونا چاہیے تاکہ عقیدت مند اپنی یاترا کے تقدس کی حفاظت کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یاترا کے روٹ پر مسلمان کوئی کاروبار یا تجارت نہیں کر سکتے ہیں۔
کانوڑ روٹ پر دہشت
اتر پردیش کے ڈی جی پی نے کانوڑ یاترا کی تیاری کے سلسلے میں میرٹھ زون میں پڑوسی ریاستوں کے اعلی عہدیداروں کی اہم میٹنگ بلائی تھی جس میں یاترا کو پرامن بنائے رکھنے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے اس کے باوجود ساون کے آغاز سے ہی کانوڑیوں کے ذریعے گاڑیوں اور ہوٹلوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ ہریدوار-روڑکی روڈ پر صرف گاڑی ٹچ ہونے پر توڑ پھوڑ کی گئی۔ توڑ پھوڑ میں ملوث کانوڑیوں کا کہنا تھا کہ گاڑی سے ان کی کانوڑ کھنڈت ہو گئی۔ اسی طرح کی ایک اور واردات میں کانوڑیوں نے مظفر نگر کے پاس ایک ہندو خاتون کے ہوٹل میں زبردست توڑ پھوڑ اور تباہی مچائی اور اسٹاف کے ساتھ مارپیٹ کی۔ ہوٹل کی مالکن کا کہنا ہے کہ کھانے میں پیاز کا ٹکڑا نظر آنے سے کانوڑیے بھڑک گئے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی اس کے باوجود اس کے ہوٹل کو تاراج کر دیا گیا۔ اب سوالات اٹھ رہے ہیں کہ جب پولیس نے کانوڑ روٹ پر اتنے سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں تو توڑ پھوڑ کی کھلی چھوٹ کیسے مل رہی ہے، اور مجرمانہ وارداتوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟
یو پی میں پرائمری اسکولوں کے بعد ثانوی اسکول بھی خطرے میں
50 سے کم طلبہ والے اسکولوں کے انضمام کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو سنگل بنچ سے منظوری ملنے کے بعد نزدیکی اسکولوں میں ضم کر دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس فیصلے کے بعد تقریباً پانچ ہزار اسکول طلبہ سے خالی ہو چکے ہیں جبکہ 2014 سے لیکن 2024 تک صرف اتر پردیش میں 25 ہزار سے زیادہ اسکول ضم کے نام پر بند ہو چکے ہیں۔ اساتذہ انجمنوں اور طلبہ سرپرستوں کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس فیصلے کی پرزور مخالفت کر رہی ہیں، اس کے باوجود ریاستی حکومت مسلسل اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ سہارن پور کے ایک بلاک میں ایک اسکول ایسا بھی ضم ہوا ہے جس میں طلبہ کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ریاستی حکومت نے پرائمری اسکولوں کے انضمام میں کامیابی ملنے کے بعد ثانوی اسکولوں پر بھی سختی شروع کر دی ہے۔ سو سے کم تعداد والے اسکولوں کو طلبہ کی تعداد بڑھانے کی ہدایت دی گئی ہے بصورت دیگر کم تعداد والے اسکولوں کو دوسرے اسکولوں میں ضم کر دیا جائے گا۔ اتر پردیش کے ریاستی وزیر مملکت برائے تعلیم کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کی ابھی کوئی تجویز نہیں ہے ابھی انضمام کا عمل چل رہا ہے۔ دوسری جانب سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے الزام لگایا ہے کہ انضمام میں وہ اسکول بند کیے جا رہے ہیں جہاں بی جی پی ہارتی ہے اس سے ووٹروں اور خاص طور پر خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے دور جانا پڑے گا۔ اگر وہ نہیں جا سکیں تو ان کا فرضی ووٹ بھی ڈلوایا جا سکتا ہے، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی اور وسائل کو بہتر استعمال کرنے کے مقصد سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم تو بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ سرکاری اسکولس بند ہونے کے بعد غریب اور متوسط طبقات کے بچے پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگی تعلیم کیسے حاصل کر پائیں گے؟ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں جہاں آبادی کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے اور سرکاری راشن پر ان کا گزارا ہوتا ہے۔ ریاست میں بڑے پیمانے پر شراب خانے کھل رہے ہیں جس پر کئی سیاسی جماعتیں فکر مندی ظاہر کر چکی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کو ضم کرنے یا بند کرنے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن ریاستی حکومت ان سوالوں کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے کانوڑ یاترا نکلوانے میں مصروف ہے۔ ریاست میں تعلیمی ماحول بنانے کی بجائے کانوڑ یاترا میں نکلنے والے بے روزگار نوجوانوں پر پھول برسائے جا رہے ہیں۔ جبکہ اعلیٰ ذات کے ہندو انہیں برابری کا درجہ دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ ضلع بارہ بنکی کے رام نگر تھانہ علاقے میں ایک ایسا ہی معاملہ سامنے آیا جب شیلیندر گوتم نام کے دلت نوجوان نے الزام لگایا ہے کہ لودھیشور مہادیو مندر میں جل چڑھانے کے دوران اس کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ پولیس نے اس معاملے میں دو برہمن نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے اس کیس کی تفتیش چل رہی ہے۔
جلال الدین عرف چھانگر بابا کی کہانی
ضلع بلرام پور کے جلال الدین عرف چھانگور بابا کی کہانی آہستہ آہستہ باہر آ رہی ہے۔ یو پی پولیس کی ایس ٹی ایف نے چھانگر بابا کو مبینہ طور پر تبدیلی مذہب کا ریکٹ چلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اب چھانگر بابا کی کہانی میں ایک نیا کردار سامنے آیا ہے، وہ ہے وسیع الدین خان اور ببو چوہدری۔ پیشے سے ٹھیکیدار ببو بابا کا قریبی رہ چکا ہے۔ اس کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابا کی خاص عقیدتمند نسرین رہرا کی زیر تعمیر حویلی بنانے کا ٹھیکہ ببو کو ہی ملا ہوا تھا۔ 2021 میں لین دین کے جھگڑے میں بابا نے ببو چودھری کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا جس کے بعد ببو چودھری نے جھانگر بابا کی شکایت وزیر اعظم کے دفتر میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کر دی۔ پی ایم او دفتر کی ہدایت پر ای ڈی و دیگر ایجنسیاں فوراً ہی سرگرم ہو گئیں اور ایس ٹی ایف نے چھانگر بابا کے ساتھ نسرین کو بھی گرفتار کر لیا۔ نسرین کی حویلی بلڈوزر سے مسمار کر دی گئی اور بابا کی بے نامی جائیدادوں کی کھوج جاری ہے۔ پولیس کے مطابق بابا اور ان کے قریبی ساتھیوں کے مختلف بینک کھاتوں میں کروڑوں روپے کا غیر قانونی لین دین ہوا ہے۔ ای ڈی اس کی جانچ کر رہی ہے۔ بابا پر ایک غیر مسلم لڑکی کا مذہب تبدیل کروا کے مسلم نوجوان سے نکاح کرانے کا بھی الزام ہے جس کی جانچ چل رہی ہے۔ دراصل جلال الدین عرف چھانگور بابا جھاڑ پھونک کے ذریعے بلرام پور سے ممبئی تک کافی اثر و رسوخ بنا چکے تھے لیکن ایک دوست کی بے وفائی نے ان کی قلعی کھول دی۔ چھانگر بابا پر نوین رہرہ کے خاندان کو مسلمان بنانے کا بھی الزام ہے۔
مدھیہ پردیش میں بھائی بہن کا رشتہ ہوا داغدار
مدھیہ پردیش میں مندسور کے رہنے والے کیلاش پرجاپتی نے بھائی بہن کے رشتے کو شرمسار کر دیا ہے۔ کیلاش اپنی شادی شدہ بہن کو سسرال سے رخصت کروا کر لایا، اس نے بہن کو بتایا کہ دادی کی طبیعت خراب ہے کوٹا چلنا ہے۔ راجستھان کے کوٹا میں اس نے ہوٹل کرائے پر لیا اور رات میں اپنی بہن کو ہوس کا شکار بنا ڈالا۔ مندسور کی گروتھ تھانہ پولیس نے واردات کی تصدیق کی اور کہا کہ تفتیش جاری ہے۔ کاوش عزیز کے ایکس ہینڈل پر کی گئی اس پوسٹ پر حیران کن تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ونے یادو نے لکھا "یہ تو بہت ہی گھٹیا انسان نکلا جس نے بھائی بہن کے رشتے کو ہی تار تار کر دیا۔ اس کو تو سولی پر چڑھا دینا چاہیے” آلوک پال نے لکھا” یہ واردات بے حد ڈراونی اور دل دہلانے والی ہے۔ جرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہر مجرم کے لیے سخت قانون ہونا چاہیے”تشویش کی بات یہ ہے کہ اس خبر پر بھی صارفین میں ہندو-مسلم کی تکرار کیوں ہو رہی ہے؟
شمال میں ترقی کی الٹی رفتار
شمالی ریاستوں میں ان دنوں مانسونی بارشیں تباہی مچائی ہوئی ہیں۔ کہیں پل بہے جا رہے ہیں تو کہیں سڑکیں دھنسی جا رہی ہیں۔ جبکہ اتر پردیش کے ضلع بریلی میں ایک انوکھا معاملہ منظر عام پر آیا ہے جب بریلی کے ایوب خان چوراہے پر بلدیہ نے اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت فٹ اوور برج بنایا۔ پیدل چلنے والوں کے لیے بنائے گئے اس لوہے کے پل پر تقریباً 10 کروڑ روپے کا خرچ آیا ہے لیکن برج پر خودکار سیڑھیاں نہ ہونے کے سبب کوئی بھی مسافر اسے استعمال نہیں کر رہا تھا۔ پل کو تعمیر ہو کر تقریباً دو سال ہو چکے ہیں لیکن یہ آج بھی سفید ہاتھی بنا ہوا مسافروں کا منہ چڑا رہا ہے۔
یو پی کے ضلع امبیڈکر نگر میں ایک ویران سرکاری مکان سے 22 لاکھ 48 ہزار روپے کے پرانے نوٹ برآمد ہوئے ہیں۔ یہ مکان اے سی ایم او ڈاکٹر برہما نارائن تیواری کو الاٹ ہوا تھا۔ 11 سال پہلے اس کی موت ہو چکی ہے۔ اس کے بیڈ اور اٹیچی سے یہ رقم برآمد ہوئی ہے۔ روہت پانڈے نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "بے چارہ کتنی محنت سے غریبوں کا خون چوس کر پیسہ بنایا ہوگا لیکن خرچ نہیں کر پایا” ایک دوسرے صارف نے لکھا بے چارہ یہ سی ایم او ایک بھی پیسہ اوپر نہیں لے جا سکا۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025