کمرہ عدالت اور موجودہ حکومت

بلی کا بکرا: صحافت کے بعد اب عدلیہ کی باری ہے

ڈاکٹر سلیم خان

بھارت کے چار ستونوں میں سے آخری ستون کی آخری سانسیں چل رہی ہیں
’ یہ اندر کی بات ہے عدلیہ ہمارے ساتھ ہے‘ کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟
دنیا کے ہر آمر کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی حریت فکر اور اظہار رائے کی آزادی سے سخت نفرت ہے، اس لیے انہوں نے سب سے پہلے تو اپنی ہی پارٹی اور پھر سنگھ پریوار کا گلا گھونٹ دیا۔ فی الحال ان کی کسی حرکت پر تنقید کرنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ بی جے پی میں سبرامنیم سوامی اور سنگھ کے پروین توگڑیا استثناء ہیں لیکن اب وہ بیچارے نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ اس کے بعد مودی اور شاہ کی جوڑی نے میڈیا کو نشانہ بنایا اور اس کو پوری طرح ’اپنے آقا کی آواز‘ (ہز ماسٹرس وائس) میں بدل دیا۔ دنیا میں ہندوستانی میڈیا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سرکار کے بجائے حزب اختلاف سے سوال کرتا ہے اور دن رات حکومت کی مدح سرائی میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے بعد حزب اختلاف کی صوبائی حکومتوں کی توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوا۔ ارکان اسمبلی کو ڈرانے دھمکانے کے بعد خرید لیا گیا، بصورتِ دیگر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے روانہ کردیا گیا۔ اس کی تازہ ترین مثال نتیش کمار اور ہیمنت سورین ہیں۔ موجودہ حکومت کا اگلا نشانہ عدلیہ ہے کیونکہ انتظامیہ تو ہمیشہ ہی سرکار کا باج گزار رہا ہے۔اس طرح نظام حکومت کے چار چار ستونوں میں سے تین تو مودی اور شاہ کے قبضے میں آ ہی چکے ہیں اور اب عدلیہ کو زیر دام لانے کا عمل خاموشی کے ساتھ جاری ہے۔
عدلیہ پر مقننہ کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے نائب صدر مملکت جگدیپ دھنکڑ نے ایک بار کہا تھا کہ اول الذکر انتخاب نہیں لڑتا اس لیے عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ دراصل مقننہ کی مضبوطی نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انتخاب لڑنے والے میں کسی خاص صلاحیت یا مہارت کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ چائے بیچنے والا بھی جعلی ڈگری بتاکر وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ عدلیہ کے اندر ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انتخاب میں کامیاب ہونے کے لیے جھوٹے وعدے، بہتان تراشی ،ظلم وجبر اور دنگا فساد کروانا پڑتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہوتی، اس لیے انہیں کسی مخصوص طبقے کی خوشامد کرنے یا کسی اور کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اگر چاہیں تو سرکاری سانڈ کی ناک میں نکیل ڈال سکتے ہیں لیکن لالچ اور خوف ان کے پیر کی زنجیریں ہیں جن کو توڑے بغیر وہ عدل و انصاف کے قیام نیز، انسانی حقوق کا تحفظ کا فرضِ منصبی نہیں ادا کرسکتے۔
موجودہ حکومت نے سیاستدانوں کی طرح ان کو بھی بلیک میل کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اسی لیے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے خلاف شکایت کرنے والی ملازمہ کے فون میں پیگاسس ڈال کر ان کی جاسوسی کی گئی اور ان کے ہاتھوں بابری مسجد کے حوالے سے عظیم ناانصافی کروائی گئی۔ جسٹس رنجن گوگوئی ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف کھلے عام پریس کانفرنس کرکے اپنا احتجاج درج کرایا تھا۔ جنوری 2018 میں رونما ہونے والا نہایت سنگین معاملہ تھا جب ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ کے چار ججوں نے عدالتِ عظمیٰ کے طریقہ کار پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہ بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ہی ختم ہو جائے گی۔اس انقلابی قدم سے سکتے میں آکر مرکزی حکومت نے اسے عدلیہ کا اندرونی معاملہ کہہ کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی لیکن یہ معاملہ عدلیہ تک محدود نہیں بلکہ سرکار کا تھا۔ اس کی جانب ان ججوں کے ذریعہ پیش کردہ مثال میں اشارہ موجود تھا۔ ان ججوں کو سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کا معاملہ ایک جونیئر بنچ کے سپرد کرنے پر شدید تحفظات تھے۔
مذکورہ مقدمہ میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس وقت کے قومی صدر اور اب وزیر داخلہ امیت شاہ کلیدی ملزم تھے۔ وہ اس معاملے میں جیل کی ہوا بھی کھا چکے تھے اور اس میں بری ہوئے بغیر انہیں وزیر داخلہ بنانا ممکن نہیں تھا۔ مودی کے لیے یہ مقدمہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس مقدمے کا فیصلہ سنانے سے قبل جج لویا ایک شادی میں شرکت کے دوران پراسرار حالت میں فوت ہو گئے۔ جسٹس لویا کے اہل خانہ نے یہ الزام لگایا تھا کہ انہیں اس کیس سے دستبردار ہونے کے لیے کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ پیشکش کس نے اور کیوں کی ہوگی، یہ جاننے کے لیے شرلاک ہومز ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جج حضرات کی پریس کانفرنس سے ذرا پہلے سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس لویا کی پراسرار موت ایک سنگین معاملہ ہے اور عدالت نے مہاراشٹر حکومت سے اس معاملے سے متعلق تمام دستاویزات کو فوراً عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔آگے چل کر وہ معاملہ جس طرح سے نمٹایا گیا اس سے ججوں کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
سپریم کورٹ میں اس وقت کے چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس جستی چاملیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوزف نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بنچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان لوگوں کا مقصد عدالت عدلیہ میں بدعنوانیوں کو اجاگر کرنا تھا۔ ججوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ’’ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتا رہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی۔‘‘ لیکن پانچ سال بعد ہر کوئی محسوس کر رہا ہے کہ عدلیہ کی جان طوطے میں اور پنجرے کی چابی سرکار کے پاس چلی گئی ہے۔جسٹس رنجن گوگوئی کو زیر دام لانے کے معاملے میں کامیابی کے بعد سرکار کا حوصلہ بڑھ گیا اور اس نے باقاعدہ سازش کرکے عدلیہ کے پر کترنے کی کوشش شروع کردی۔ ان میں سے ایک تو الیکشن کمیشن سے چیف جسٹس کو نکال باہر کرنے کا عمل تھا۔اس پر عدلیہ نے آنکھ دکھائی تو قانون بناکر اسے پھوڑ دیا گیا۔
دوسرا معاملہ کالیجیم کے نظام کو لاحق خطرہ تھا۔ پچھلے سال کالیجیم کے معاملے میں وزیر قانون کرن رجیجو کی کھلے عام غیر ذمہ دارانہ تنقید اور نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کے ذریعہ مرکزی حکومت کی حمایت نے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس روہنٹن فالی نریمن کو یہ یاد دلانے پر مجبور کیا کہ عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا وزیر قانون کا ‘فرض’ ہے، چاہے وہ ’صحیح ہو یا غلط‘۔ نریمن نے نائب صدر کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ اپنی جگہ موجود ہے اور "خدا کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہو گا‘‘۔ کالجیم کے ذریعہ تجویز کردہ ناموں پر مرکز کی حصہ داری پر انہوں نے کہا کہ یہ ’’جمہوریت کے لیے مہلک‘‘ ہے اور حکومت کو جواب دینے کے لیے 30 دن کی مہلت کا مشورہ دیا، ورنہ سفارشات خود بخود منظور ہو جائیں گی۔ نریمن نے کہا "ایک بار پانچ یا اس سے زیادہ جج آئین کی تشریح کر دیں تو آرٹیکل 144 کے تحت ایک اتھارٹی کے طور پر آپ (وزیر قانون) کا فرض ہے کہ اس فیصلے پر عمل کریں۔ آپ چاہیں تو اس پر تنقید کر سکتے ہیں۔ ایک شہری ہونے کے ناطے میں اس پر تنقید کر سکتا ہوں، کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ میں آج ایک شہری ہوں، آپ ایک اتھارٹی ہیں اور ایک اتھارٹی کے طور پر آپ اس فیصلے کے ذمہ دار ہیں، پابند ہیں، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط‘‘۔ جگدیپ دھنکڑ نے کے عدلیہ کو اپنی حدود کا علم ہونا چاہیے والے بیان کے جواب میں سابق جسٹس نریمن نے کہا تھا کہ ”اس(کالیجیم ) اصول کو دو بار تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، اور وہ بھی چالیس سال پہلے۔ اس کے بعد سے کسی نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ لہٰذا ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے وہاں رہنے والی ہے‘‘۔ آزاد اور بے خوف ججوں کے بغیر دنیا کا تصور کرتے ہوئے، نریمن نے سختی سے متنبہ کیا تھا کہ اگر یہ بدل گیا تو ہم "ایک نئے تاریک دور کے پاتال میں داخل ہو جائیں گے۔ اگر آپ کے پاس آزاد اور نڈر جج نہیں ہیں تو الوداع کہیں۔ کچھ نہیں بچا‘‘۔جسٹس نریمان جن بے خوف ججوں کا رونا رورہے تھے ان کی دگر گوں حالت کا اندازہ لگانے کے دہلی کے سابق جج ایس مرلی دھر کی مثال چشم کشا ہے۔ موصوف نے دہلی فساد کی ویڈیو دیکھنے کے بعد پولیس سے صرف اتنا پوچھنے کی جرأت کی تھی کہ بی جے پی رہنما کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کب داخل ہوگی؟
جج مرلی دھرکا اس جرأتِ رندانہ کے عوض سزا کے طور پر راتوں رات تبادلہ کرکے پنجاب ہریانہ کورٹ میں بھیج دیا گیا۔ ان کی یہ کینہ پروری وہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ کالیجیم نے بھی انہیں سپریم کورٹ میں ترقی دے کر جج بنانے کی سفارش کرنےکی ہمت نہیں کی، یہاں تک کہ تین سال بعد اگست 2023 میں وہ سبکدوش ہوگئے اور کوئی کچھ نہیں کرسکا۔ اس لیے جسٹس فالی نریمن کی یہ تشویش صد فیصد درست ہے کہ ’’درحقیقت، میرے مطابق، بالآخر اگر یہ قلعہ منہدم ہوگیا، یا گرنے والا ہے، (اگر یہ ہوجائے) تو ہم ایک نئی کھائی میں داخل ہو جائیں گے۔ ایک ایسا تاریک دور جس میں لکشمن (آنجہانی کارٹونسٹ آر کے لکشمن) کا عام آدمی اپنے آپ سے صرف ایک سوال کرے گا – اگر نمک کا ذائقہ ختم ہو گیا ہے تو نمکین کہاں سے آئے گا؟‘‘ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کی ہوس میں ملک کو تاریک ترین دور میں پہنچانے کا ارادہ کرلیا ہے۔مودی سرکار کی خراب نیت کے تناظر میں ایوانِ بالا کے رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر قانون کپل سبل نے بھی حکومت پر عدلیہ کو قبضے میں لینے کا الزام لگایا تھا۔
بابری مسجد کے قضیہ کی پیروی کرنے والے مشہور وکیل دشینت دوے، جنہوں نے سپریم کورٹ میں رام مندر کا نقشہ پھاڑ کر اپنی ہمت وجرأت کا ثبوت دیا تھا کہتے ہیں کہ انتظامیہ کی عدلیہ کے کاموں میں بڑے پیمانے پر مداخلت افسوسناک ہے۔ ججوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کچھ غیر معمولی جج تو ہیں لیکن بیشتر نہایت مشکوک قسم کے ہیں بلکہ اچھے تو بہت کم ہیں۔ انہوں نے معمولی بنیادوں پر حزب اختلاف کے رہنماوں، سماجی کارکنان اور کامیڈین تک کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں ضمانت سے محروم کرنے پرتشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق جمہوریت، پریس کی آزادی اور اختلاف رائے کے حق پر موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ پندو نصیحت تو خوب کرتے ہیں مگر فیصلے کا وقت آتا ہے تو وہ بھی اپنے پیش رو ججوں سے مختلف نہیں نکلتے۔ اس کی تازہ ترین مثال چنڈی گڑھ میں 5؍ فروری کو میئر کے انتخاب پر ان کا تبصرہ ہے جس میں انہوں نے اسے جمہوریت کا مذاق اور قتل تک قرار دے کر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکم نہیں دیا۔ ہائی کورٹ نے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ قتل تھا جن لوگوں کی خوشنودی کی خاطر وہ جرم سرزد ہوا یعنی جنہوں نے سپاری دینے کے بعد اس کا کھلے عام جشن منایا ان کے خلاف جسٹس چندر چوڑ کیوں خاموش رہے؟ ویسے یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ وہ جسٹس لویا والی بنچ میں بھی موجود تھے اور بابری مسجد کا فیصلہ تو انہیں کا لکھا ہوا ہے۔
ڈاکٹر عمر خالد ستمبر 2020 سے جیل میں بند ہیں۔ ان پر دلی کے فسادات میں ملوث ہونے کا الزام ہے حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ انہیں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کے سبب فسادات کے معاملے میں پھنسا دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ 9 ماہ کے دوران 11 مرتبہ ان کے ضمانت کی درخواست ملتوی ہوئی ہے۔ کیا یہ عدالتِ عظمیٰ کو زیب دیتا ہے کہ وہ اس طرح ایک بے قصور نوجوان کو ہراساں اور پریشان کرے۔جنوری 2024 میں سنجیو بھٹ کی عمر قید کی سزا کی احمد آباد ہائی کورٹ نے توثیق کردی۔ یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ 1990 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور 2011 تک ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا۔ آگے چل کر جب انہوں نے ناناوتی اور مہتا کمیشن کے سامنے 2002 گجرات فساد میں مودی سرکار کے خلاف گواہی دی تو فوراً ان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی گئی۔ جام نگر کی ضلعی عدالت نے جون 2019 میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی اور اب عدالتِ عالیہ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یہ اپنے سیاسی آقاوں کی قدم بوسی نہیں تو کیا ہے؟ اسی طرح کے فرشی سلام کی مثال راہل گاندھی مقدمہ کے وقت بھی سامنے آئی تھی جہاں ضلعی عدالت کے فیصلے اور ہائی کورٹ کی توثیق کو سپریم کورٹ نے دیوار سے دے مارا تھا۔
2019 میں اقتدار سنبھالنے سے قبل رافیل معاملے میں سپریم کورٹ نے مودی سرکار کو کلین چٹ دے دی تھی۔ آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرکے ایک صوبے کا درجہ گھٹا کر اسے یونین ٹیریٹری بنانے پر ابھی حال میں سپریم کورٹ نے مہر ثبت کردی ہے۔ گزشتہ ماہ اسے نوٹ بندی میں بھی کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا۔ اڈانی کے خلاف آنے والی ہنڈنبرگ کی رپورٹ سپریم کورٹ کے خیال میں درست نہیں تھی۔ گیان واپی محلے میں واقع جامع مسجد کے معاملے میں ضلعی عدالت نے نا انصافی کی۔ سپریم کورٹ نے اسے ہائی کورٹ بھیجا۔ اس نے نئی تاریخ تو دی مگر پوجا پاٹ پر پابندی لگانے سے انکار کردیا۔ یہ تو گویا اوپر سے نیچے تک سیٹنگ والی بات ہوگئی یعنی’ یہ اندر کی بات ہے عدلیہ ہمارے ساتھ ہے‘ والا نعرہ درست ہوگیا۔ اس لیے دشینت دوے کہتے ہیں عدلیہ بہت کمزور ہوچکاہے۔ آئین عدالت کو جتنی آزادی دیتا ہے وہ اتنا بھی آزاد نہیں ہے۔ دس سالوں میں سرکار کوئی اہم مقدمہ نہیں ہاری۔ اچھے ججوں کو بولنے کی تلقین کرکے انہوں نے ایمرجنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا’ اس وقت سپریم کورٹ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا بنیادی حقوق کو سلب کیا جا سکتا ہے تو جسٹس ایچ آر کھنہ کے علاوہ سبھی نے مثبت جواب دیا تھا اور ان لوگوں میں موجودہ چیف جسٹس کے والد ماجد وائی وی چندر چوڑ بھی شامل تھے۔ دشینت دوے کے مطابق اگر بانیان قوم نے ہمارے اس موجودہ عدلیہ کو دیکھا تو یقیناً تعجب کریں گے۔ وہ سوچیں گے کہ کیا ہم نے ملک کو اس حالت کے لیے آئین دیا تھا؟ ویسے موجودہ حکومت کو بانیان قوم کی اس حالت پر افسوس نہیں بلکہ خوشی ہوگی کیونکہ یہ پہلے بھی ان کے دشمن تھے، اب بھی ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔

 

***

 دشینت دوے کہتے ہیں عدلیہ بہت کمزور ہوچکاہے۔ آئین عدالت کو جتنی آزادی دیتا ہے وہ اتنا بھی آزاد نہیں ہے۔ دس سالوں میں سرکار کوئی اہم مقدمہ نہیں ہاری۔ اچھے ججوں کو بولنے کی تلقین کرکے انہوں نے ایمرجنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا’ اس وقت سپریم کورٹ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا بنیادی حقوق کو سلب کیا جا سکتا ہے تو جسٹس ایچ آر کھنہ کے علاوہ سبھی نے مثبت جواب دیا تھا اور ان لوگوں میں موجودہ چیف جسٹس کے والد ماجد وائی وی چندر چوڑ بھی شامل تھے۔ دشینت دوے کے مطابق اگر بانیان قوم نے ہمارے اس موجودہ عدلیہ کو دیکھا تو یقیناً تعجب کریں گے۔ وہ سوچیں گے کہ کیا ہم نے ملک کو اس حالت کے لیے آئین دیا تھا؟ ویسے موجودہ حکومت کو بانیان قوم کی اس حالت پر افسوس نہیں بلکہ خوشی ہوگی کیونکہ یہ پہلے بھی ان کے دشمن تھے، اب بھی ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024