کلبرگی میں قومی تجارتی میلہ۔ امنگ‘حوصلہ‘اختراعیت اور ترقی کا پیغام

دولت پر مٹھی بھر افراد کی اجارہ داری فساد کا سبب۔ امیرجماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی کا خطاب

 

 

سید خلیق احمد، مدیر انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ

’’مسلمان متمول صحابہ کی سنت کو اختیار کرتے ہوئے دولت کو دنیوی واخروی فلاح کا ذریعہ بنائیں‘‘
’’ویاپار اتسو 2023‘‘ میں ہزارہا افراد نے 300 سے زائد اسٹالس کا مشاہدہ کیا۔ ترکیہ کے اتاشی مصطفی کمال البائرک اور ممتاز شخصیتوں کی شرکت
کرناٹک کی سرزمین کلبرگی (سابقہ نام گلبرگہ) پر وسیع پیمانے پر قومی تجارتی نمائش اختتام پذیر ہوئی۔ اس تجارتی میلہ کا انعقاد رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کیا تھا۔ اس تجارتی میلے میں تین سو سے زیادہ اسٹالس لگائے گئے تھے جو تعلیم، صحت، غذا، بیوٹی، فیشن، گھریلو اشیا، آئی ٹی، کنسٹرکشن، روبوٹک، بیگ و جوتے، گفٹ، ہربل، آرٹ، زرعی آلات اور صنعتی سازو سامان سمیت بہت سی دیگر اشیا سے متعلق تھے۔ اس نمائش میں ہزاروں کی تعداد میں ان لوگوں نے بھی دلچسپی لی جو تجارت کے ذریعہ اپنے کیریئر کی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تجارتی میلہ ’’ویاپار اتسو 2023‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا۔ نمائش 12؍ جنوری سے شروع ہوئی اور اپنے اہداف کی تکمیل کے ساتھ 15 ؍جنوری 2023 کو اختتام پذیر ہوئی۔ مائیکرو انڈسٹریز یا اسٹارٹ اپ والوں کے لیے یہ ایک زریں موقع تھا۔ رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذریعہ منعقد نمائش کو شاہین گروپ آف انسٹیٹیوشن نے اسپانسر کیا تھا۔
واضح ہو کہ رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری تاجروں و صنعت کاروں کی ایک متحرک تنظیم ہے جس کا دفتر نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقہ میں واقع ہے۔ تجارتی نمائش کے افتتاح کے موقع پر جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی نے تاجروں سے اپیل کی کہ وہ منصفانہ اور دیانتدارانہ تجارتی طریقوں کے ذریعہ دولت کمائیں اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔
یہ بتاتے ہوئے کہ رفاہ ایک تحریک ہے اور اس کا بنیادی مقصد منصفانہ ذرائع سے دولت کمانے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ اسلام کے دو اہم ستون زکوٰۃ اور حج ہیں جو اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتے جب تک آپ دولت مند نہ ہوں۔ یہ دونوں دینی اعمال صرف ان لوگوں پر واجب ہیں جن کے پاس وافر مقدار میں رقم ہے۔ امیر جماعت نے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے بھی پیسے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا اگر آپ کے پاس کافی رقم نہیں ہے تو آپ زکوٰۃ ادا نہیں کر سکتے اور نہ حج کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عشرہ مبشرہ میں سے چار حضرات عبدالرحمن بن عوف، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ اور زبیر بن العوام (رض) ارب پتی تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی ملکیت کی مالیت سو بلین امریکی ڈالر تھی۔ اگر ہندوستانی کرنسی کی موجودہ قیمت کی بنیاد پر حساب لگایا جائے تو یہ مالیت اسی ہزار کروڑ روپے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ساری دولت حضرت عبدالرحمٰن نے صرف کاروبار کے ذریعے حاصل کی تھی اور انہوں نے اپنی کمائی کا بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا اور اپنے پیچھے بہت زیادہ دولت چھوڑ گئے تھے۔
ارب پتی اصحاب رسول کی مثالیں دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ رفاہ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ انسانیت کی بھلائی کے لیے چار اصحاب رسول کی روایات کو زندہ کیا جائے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کاروبار اور صنعت آخرت کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ امیر جماعت نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ کاروبار اور کاروباری اداروں میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں۔
اپنی بات کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن جو اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے حضرت محمد ﷺ پر نازل شدہ آخری ہدایت ہے، خود لوگوں کو منصفانہ ذرائع سے دولت حاصل کرنے اور دوسروں کی مدد کے لیے خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
انہوں نے قرآن مجید سے متعدد حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ایک امیر کو چاہیے کہ وہ اپنا مال دوسروں پر خرچ کر کے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ دنیاوی چیزوں میں اپنا حصہ کمانا نہ بھولیں، کیونکہ دنیوی چیزیں صرف اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے نہیں ہیں۔ جناب سعادت اللہ حسینی نے مسلم آبادی کے ایک بڑے حصے کے درمیان پائی جانے والی ایک بڑی غلط فہمی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ دولت کمانا اور آرام دہ زندگی گزارنا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسلامی تعلیمات کی اس طرح کی منفی یا رجعت پسندانہ تفہیم نے دولت کمانے اور بڑھانے کے معاملے میں مسلمانوں کی حوصلہ شکنی میں اضافہ کیا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے اس رویے نے مسلم برادری کو معاشرے کی ترقی اور ترقی میں حصہ لینے سے بھی روک رکھا ہے، کیونکہ کوئی بھی ترقی پیسے کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
یہ بتاتے ہوئے کہ کاروبار پر مٹھی بھر لوگوں کی اجارہ داری اور ذخیرہ اندوزی یا دولت کا صرف چند ہاتھوں میں ارتکاز فساد اور بگاڑ کا سبب ہے۔ انہوں نے رفاہ کے اراکین سے کہا کہ وہ نئے لوگوں کو تربیت اور مدد دے کر کاروبار میں شامل کریں۔
جناب سعادت اللہ حسینی نے بتایا کہ قرون وسطیٰ کے دور میں استنبول، یروشلم اور بغداد میں بہت سے مسلمان تاجروں نے اپنے اپنے شہروں کی خوبصورتی کے لیے اپنی جائیدادوں کو وقف کیا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان شہری سہولیات اور جمالیات کا کس طرح خیال رکھتے تھے اور ان کو برقرار رکھنے کے لیے پیسہ خرچ کرتے تھے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تجارتی میلہ یا نمائش انبیاء کی سنت (روایت) ہے، رفاہ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ایس امین الحسن نے کہا کہ تجارتی میلوں کا آغاز حضرت سلیمان علیہ السلام نے کیا تھا اور وہ کھلے عام بین الاقوامی تجارتی نمائش منعقد کرتے تھے۔ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ایس امین الحسن نے کہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بین الاقوامی تجارتی میلے کے لیے دو سمندری بندرگاہیں قائم کی تھیں۔
اسلامی اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ ایک بہت کامیاب تاجر تھے۔ آپ یمن اور شام میں تجارتی میلوں میں شریک ہوئے۔
یہاں گلبرگہ میں رفاہ کے تجارتی میلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تجارتی میلوں نے نیٹ ورکنگ فراہم کی ہے جو کاروبار کو فروغ دینے اور بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ رفاہ مسلم خواتین کو کاروبار میں فروغ دینے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جو مذکورہ تجارتی نمائش میں بہت سی خواتین کی جانب سے اپنے اسٹالس لگانے سے بالکل واضح ہے۔ یہاں کچھ کاروباری خواتین ممبئی سے اپنی مصنوعات کی نمائش کے لیے آئی تھیں۔
آر سی سی آئی کے سکریٹری افضل بیگ نے کہا کہ مسلمان عام طور پر ملک میں کاروباری طریقوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن وہ خود اس کے اصولوں کو تبدیل کرنے، منصفانہ تجارتی طریقوں کو فروغ دینے اور صارفین کے استحصال کو روکنے کے لیے کاروباری سرگرمیوں میں فعال طور پر شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آر سی سی آئی ایماندار اور منصفانہ کاروباری طریقوں کو متعارف کرواکے تجارت کے موجودہ استحصالی ضابطے کو تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ افضل بیگ نے کہا کہ آر سی سی آئی نے چین اور بنگلہ دیش میں تجارتی شو میں حصہ لیا ہے اور آئندہ ماہ دبئی بزنس شو میں شرکت کرنے کا منصوبہ ہے۔
جماعت اسلامی ہند کرناٹک کے امیر حلقہ ڈاکٹر محمد سعد بلگامی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے تاجروں سے اپیل کی کہ وہ اپنے کاروباری معاملات میں دھوکہ دہی، جھوٹ، استحصال اور ذخیرہ اندوزی سے گریز کریں اور سود سے اجتناب کریں جو ایک دینی و اخلاقی جرم اور غریب لوگوں کے استحصال کا ذریعہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کرناٹک کے سکریٹری یوسف کنی نے لوگوں سے کہا کہ وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے کاروباری طریقوں پر عمل کریں جو اپنا سامان بہت کم منافع پر بیچا کرتے اور خریداروں کو ان کی مصنوعات میں اگر کوئی نقص ہوتا تو اس کے بارے میں آگاہ کرتے تھے۔
ممبئی میں جمہوریہ ترکیہ کے قونصلیٹ جنرل کے کمرشیل اتاشی مصطفی کمال البائرک نے بتایا کہ ترکیہ سالانہ تقریباً 8 بلین امریکی ڈالر کی اشیاء ہندوستان سے درآمد کرتا ہے اور تقریباً 2.5 بلین امریکی ڈالر کی اشیاء برآمد کرتا ہے۔ تجارتی نمائش کے افتتاحی پروگرام کی نظامت اسلم جاگیردار نے کی تھی جو یہاں کے تجارتی نمائش کے روح رواں تھے۔ مختلف ریاستوں کے تاجروں اور صنعت کاروں نے تقریباً تین اسٹالس لگائے تھے۔ آرٹ اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے شو کے حصے کے طور پر ایک ہند-روس پینٹنگ شو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ شرکاء میں نیشنل ایوارڈ یافتہ ایاز الدین پٹیل بھی شامل تھے۔
عام طور پر تجارتی میلوں میں پینٹنگز کی نمائش کا انعقاد بہت کم ہوتا ہے کیونکہ تجارتی نمائش میں آنے والے کاروباری، اشیائے صرف کے بارے میں جاننے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تاہم، یہاں رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام چار روزہ ’’ویاپار اتسو 2023‘‘ میں ایازالدین پٹیل جیسے قومی ایوارڈ یافتہ مصوروں کی پینٹنگز کی نمائش کے لیے ایک سیکشن رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ روسی خاتون فنکاروں کی کچھ پینٹنگز بھی تھیں جنہوں نے تجارتی شو میں منعقدہ لائیو پینٹنگ مقابلے میں بھی حصہ لیا۔
پینٹنگ گیلری میں دیکھنے والوں کی بھیڑ نے مقامی لوگوں کی آرٹ اور ثقافت میں دلچسپی کا ثبوت پیش کیا۔ یہ ایازالدین پٹیل اور سید محمد شعیب کی پینٹنگز تھیں جو زیادہ تر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں۔ ایازالدین پٹیل کی پینٹنگز میں سے ایک میں تاج محل کو دکھایا گیا جسے ریلوے قلیوں کے ذریعے لے جایا جا رہا تھا۔ پینٹنگ میں دکھایا گیا کہ تاج محل کو کرناٹک کے کلبرگی لایا جا رہا ہے۔
ایازالدین پٹیل نے بتایا کہ انہیں یہ خیال اس وقت آیا جب یو پی کے کچھ سیاست دانوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی ریاست میں تاج محل نہیں چاہتے کیونکہ یہ ان کے لیے غلامی کی علامت ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ تاج محل کی بنیاد 1631 میں رکھی گئی تھی اور اس یادگار کو مکمل ہونے میں کئی سال لگے تھے۔ اس پینٹنگ میں قلیوں کی گاڑی پر 1631 لکھا ہوا تھا۔ بھارت میں ریلوے کی طرف سے ہر رجسٹرڈ قلی کو بیچ نمبر الاٹ کیا جاتا ہے۔
قلیوں کو تاج محل کو پولیس کی حفاظت میں لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے کرناٹک کی حدود محض 696 کلو میٹر دور ہے۔ کلبرگی یا گلبرگہ جس نے تاج کو پناہ دینے کی پیشکش کی ہے جیسا کہ پینٹنگ میں دکھایا گیا ہے، اس جگہ سے صرف 24 کلو میٹر دور ہے جہاں قلی اکھڑے ہوئے تاج محل کے ساتھ پہنچے ہیں۔
یہ صرف ایک مصور کے تخیل کی پرواز ہے لیکن ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے پھیلی نفرت پر مبنی سیاست کی حالت پر ایک چبھتا ہوا تبصرہ بھی ہے۔ اس پینٹنگ میں ان کبوتروں کو بھی دکھایا گیا ہے جنہیں تاج محل کے دیدار کے لیے آنے والوں نے کھانا کھلایا تھا، وہ اُڑ رہے تھے کیونکہ ان کا ذریعہ معاش ختم کر دیا گیا تھا اور انہیں کسی دور دراز جگہ لے جایا گیا تھا۔ یہ جانوروں کے تئیں لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے حسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایک اور پینٹنگ جس نے لوگوں کی توجہ حاصل کی وہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے متعلق ہمارے معاشرے کی عمومی بے حسی کے بارے میں تھی۔ پینٹنگ میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کے چاروں طرف خاردار تاروں کا گھیرا ہے اور ایک بہت بڑا ہجوم اس کی حالت زار کا تماشائی ہے۔ ہجوم میں سے کوئی بھی اس کی مدد کے لیے آگے نہیں آتا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصیبت میں گھری خواتین کے تئیں معاشرے کا عمومی شعور مر چکا ہے۔ یہ ہندوستانی معاشرے کی اخلاقی پستی پر خاص طور پر خواتین کے تئیں ایک عبرتناک تبصرہ ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم کے کچھ حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ بات کافی حد تک مناسب ہے اور قومی دارالحکومت دلی میں ایک دلخراش واقعہ میں ایک خاتون کو کار نے روند دیا اور کئی کلومیٹر تک اسے گھسیٹا گیا یہاں تک کہ وہ دم توڑ گئی لیکن نہ تو مجرمین نے گاڑی روکی اور نہ ہی کسی اور نے گاڑی کا تعاقب کرکے خاتون کی جان بچانے کی کوشش کی۔ اس مصوری کا سبق یہ ہے کہ جب کوئی خاتون سرعام ظلم کا نشانہ بنتی ہے تو عام طور پر لوگ محض خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ پینٹنگ، مصیبت میں خواتین کے بارے میں ہمارے ردعمل کے بارے میں لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سے ہندوستانی سماج کے بارے میں کئی سوالات اٹھتے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ کیا ہم واقعی مہذب ہیں؟
پینٹنگ گیلری کے ایک حصے میں گلبرگہ میں مسلم دور حکومت کے سکوں کی نمائش بھی کی گئی۔ سکے جمع کرنے والے محمد اسماعیل نے مسلم حکومت کے مختلف ادوار کے سکوں کے ذریعے ہندوستان کے اس حصے کی مسلم تاریخ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اصحاب کہف کی ایک قرآنی کہانی کی یاد دلاتا ہے وہ ان سکوں سے پہچانے گئے تھے جو انہوں نے دکاندار کو کھانا خریدنے کے لیے دیا تھا۔ چونکہ سکے تین سو سال یا اس سے زیادہ پرانے تھے اس لیے اس وقت کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کا زمانہ کس دور سے تھا۔ اصحاب کہف کی کہانی، جو تقریباً تین سو سال یا اس سے زیادہ کے بعد سامنے آئی تھی، اس لیے اسے اللہ کی قدرت اور معجزہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
پینٹنگ گیلری یہ بھی بتاتی ہے کہ آرٹ کس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ کچھ غیر مسلم فنکاروں نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا، خاتون آرٹسٹ شریانسی نے خانہ کعبہ پر اپنی پینٹنگز مرکوز کیں جو کہ مسلمانوں کا سب سے مقدس مذہبی مقام ہے جس کی طرف رخ کرکے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔وائی سبایانیلا نے مسجد نبوی کے سبز گنبد کو اپنے فن میں پیش کیا تو ویر شیٹی ایم پاٹل نے گلبرگہ کے قلعہ میں واقع جامع مسجد کو اپنی پینٹنگ کا حصہ بنایا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مصوروں نے اسلام کا کچھ بنیادی علم بھی حاصل کیا تھا کیونکہ ان مقامات کی پینٹنگ ان کے اسلام کو سمجھے بغیر ممکن نہیں تھی۔ شاہد پاشا جیسے کچھ مسلم مصور بھی ہیں جنہوں نے رامائن کے تھیم پر پینٹنگ کی ہے۔ ایسے فنکاروں کے فن پاروں کو شامل کرکے اور پینٹنگ کی نمائش کا اہتمام کرکے، آر سی سی آئی نے کاروبار کو فروغ دیتے ہوئے، برادریوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جو واقعی ایک اچھا کام تھا جس کے لیے رفاہ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری بجا طور پر پذیرائی کی مستحق ہے۔
رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین ایس امین الحسن نے نمائش سے قبل اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا جو لوگ امنگ، حوصلہ اور جرات کے پر لگا کر اڑنا چاہتے ہیں گلبرگہ تجارتی نمائش ان کے لیے بہترین موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ نمائش میں جہاں تاجر اپنے اپنے اسٹالس لگائیں گے وہیں تجارت کے میدان میں نیا قدم رکھنے والے افراد ان کے تجربات اور صلاح و مشوروں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ایس امین الحسن نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ تجارتی نمائش نئے تاجروں کی زندگی میں تبدیلی لانے والی سنگ میل ثابت ہوگی۔ رفاہ چیمبر آف کامرس کی ویب سائٹ http://www.rifah.org/ سے مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کوآرڈِنیٹر عبدالسلام نے بتایا کہ مذکورہ تجارتی نمائش کے سات اہم مقاصد تھے۔
(۱) چھوٹے اور مقامی تاجروں کو شہر و تعلقہ سے قومی سطح پر لانا۔ (۲) مینوفیکچررز اور ٹریڈرس کا آپسی رابطہ مستحکم کرنا۔ (۳) گلبرگہ کو جو کہ کرناٹک کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے، معاشی بلاک بنانا۔(۴) تجارت پیشہ خواتین کو مواقع مہیا کرنا (۵) تجارت کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کو مارکیٹ کی صورتحال سے آگاہ کرنا اور ان کے لیے بازار کی تلاش میں مدد کرنا۔ (۶) پیداوار و بازار سے متعلق روایتی تاجروں کو تجارت کی نئی راہوں سے روشناس کروانا۔ (۷) تجارت سے متعلق حکومت کی مختلف اسکیمات سے چھوٹے تاجروں کو آگاہ کروانا تاکہ وہ اپنی تجارت کو نئی راہوں اور کشادہ بازار کے لائق بنا سکیں۔
***

 

***

 ایک پینٹنگ جو مرکز توجہ بن گئی۔۔۔۔
پینٹنگ گیلری میں ایاز الدین پٹیل کی ایک پینٹنگ سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بن گئی جس میں تاج محل کو دکھایا گیا تھا جو دنیا کا ساتواں عجوبہ ہےجسے ریلوےکے قلیوں کے ذریعے لے جایا جارہا تھا۔ پینٹنگ میں دکھایا گیا کہ تاج محل کو کرناٹک کے کلبرگی لایا جا رہا ہے۔ایازالدین پٹیل نے بتایا کہ انہیں یہ خیال اس وقت آیا جب یو پی کے کچھ سیاست دانوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی ریاست میں تاج محل نہیں چاہتے کیونکہ یہ ان کے لیے غلامی کی علامت ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ تاج محل کی بنیاد 1631 میں رکھی گئی تھی اور اس یادگار کو مکمل ہونے میں کئی سال لگے تھے۔ اس پینٹنگ میں قلیوں کی گاڑی پر 1631 لکھا ہوا تھا۔ بھارت میں ریلوے کی طرف سے ہر رجسٹرڈ قلی کو بیچ نمبر الاٹ کیا جاتا ہے۔ قلیوں کو تاج محل کو پولیس کی حفاظت میں لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے کرناٹک کی حدود محض 696 کلو میٹر دور ہے۔ کلبرگی یا گلبرگہ جس نے تاج کو پناہ دینے کی پیشکش کی ہے جیسا کہ پینٹنگ میں دکھایا گیا ہے، اس جگہ سے صرف 24 کلو میٹر دور ہے جہاں قلی اکھڑے ہوئے تاج محل کے ساتھ پہنچے ہیں۔یہ صرف ایک مصور کے تخیل کی پرواز ہے لیکن ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے پھیلی نفرت پر مبنی سیاست کی حالت پر ایک چبھتا ہوا تبصرہ بھی ہے۔ اس پینٹنگ میں ان کبوتروں کو بھی دکھایا گیا ہے جنہیں تاج محل کے دیدار کے لیے آنے والوں نے کھانا کھلایا تھا، وہ اُڑ رہے تھے کیونکہ ان کا ذریعہ معاش ختم کر دیا گیا تھا اور انہیں کسی دور دراز جگہ لے جایا گیا تھا۔ یہ جانوروں کے تئیں لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے حسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023