کلام اللہ میں قول، کلمہ اور کلام کی معنویت
اللہ نے اپنے ملفوظ کو ’قول یا کلمہ‘ نہیں کہا ہے بلکہ صرف ’کلام ‘کہا ہے۔ اور پھر ان کلمات کے درمیان جو لطیف فرق ہے قرآن میں اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے
ابوفہدندوی
قرآن میں متقارب المعنیٰ الفاظ ’کلام‘ ’کلمہ‘ اور ’قول‘ اس سیاق میں آئے ہیں کہ قرآن کو بعض جگہ ’قول‘ کہا گیا ہے، بعض جگہ ’کلمہ‘ اور بعض دوسری جگہوں پر ’کلام‘ کہا گیا ہے۔ اگر ہم قرآن میں ان لفظوں کے توارد کی نوعیتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں ان کے محل استعمال میں کافی فرق محسوس ہوگا اور قرآن کی معجز بیانی کی عجیب وغریب حقیقت بھی منکشف ہوگی۔
اس حوالے سے یہ واضح فرق نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اللہ نے ’کلام‘ اور ’کلمہ‘ کی اضافت یا نسبت اپنی طرف یعنی لفظ اللہ کی طرف کی ہے۔ جبکہ ’قول‘ کی اضافت اور نسبت پورے قرآن میں کہیں بھی اپنی طرف نہیں کی ہے۔
لفظ ’کلام‘ کی لفظ ’اللہ‘ کی طرف اضافت کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (التوبة: ٦)
ترجمہ: ’’اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکے، پھر اس کو اس کے لیے محفوظ جگہ پر پہنچادو، کیونکہ یہ لوگ ’’حق‘‘ سے ناواقف ہیں‘‘
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرة: ٧٥)
ترجمہ:’’مسلمانو! کیا تمہیں (یہودیوں سے) یہ توقع ہے کہ وہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے، حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام (تورات) سنتے تھے اور پھر جان بوجھ کر اس میں تحریف کر ڈالتے تھے باوجود اس کے کہ وہ حقیقت حال کو سمجھتے اور جانتے تھے‘‘
لفظ ’کلام‘ کی نسبت یائے متکلم کی طرف:قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ (الأعراف: ١٤٤)
ترجمہ: اللہ نے فرمایا اے موسیٰ میں نے تمہیں اپنے پیغام اور کلام کے لیے منتخب کر کے لوگوں پر سرفراز کیا ہے، تو جو کچھ (ہدایات) میں تمہیں دوں اسے لے لو اور شکر گزار بندے بن کر رہو۔
سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖيُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَهِ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَهُ مِن قَبْلُ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا (الفتح: ١٥)
ترجمہ: جب تم غنیمت حاصل کرنے کے لیے (خیبر کی طرف) نکلوگے تو (حدیبیہ میں) پیچھے رہ جانے والے کہیں گے کہ ہمیں بھی ساتھ لے لو۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں، ان سے کہہ دو کہ تم ہمارے ساتھ نہیں آسکتے، اللہ نے یہ بات پہلے ہی واضح فرما دی ہے۔ تو وہ (جواب میں) کہیں گے کہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (اسی لیے ہمیں خیبر میں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے، بات یہ نہیں ہے کہ تم ان سے حسد کرتے ہو) بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ دین کے معاملے میں زیادہ سمجھ نہیں رکھتے‘‘
مذکورہ آیات میں سے صرف پہلی آیت میں ’کلام اللہ‘ سے مراد قرآن ہے۔ بعد والی دو آیتوں میں تورات مراد ہے اور آخری آیت فرمان یا حکم کے معنیٰ میں ہے۔
لفظ ’کلام‘ کے بالکل برعکس لفظ ’قول‘ کی نسبت یا اضافت رسول اللہ ﷺ اور جبرئیل امین کی طرف کی گئی ہے۔ یا پھر عام لوگوں کی بات کو لفظ ’قول‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول، جبرئیل اور عام لوگوں میں سے کسی کی بات کو یا جملوں کو ’کلام‘ نہیں کہا گیا، چنانچہ جبرئیل امین کے حوالے سے فرمایا گیا: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (الحاقة: ٤٠) ترجمہ: ’’یہ (قرآن) ایک معزز فرشتے کا بیان ہے‘‘
اور نبی ﷺ کے تعلق سے فرمایا گیا: إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (المزمل: ٥)۔ ترجمہ: ’’ہم جلد ہی تم پر عظیم کلام نازل کرنے والے ہیں‘‘
حالانکہ قرآن کوبحیثیت مجموعی ’قول‘ بھی کہا گیا ہے۔ ارشادہے: إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطارق: ١٣) ترجمہ: ’’بے شک یہ (قرآن) قول فیصل ہے‘‘ یعنی حق وباطل (توحید وشرک) کے حوالے سے صاف، واضح اور دو ٹوک بیانیے کا حامل ہے۔
جب مشرکین قریش کی طرف سے نبی ﷺ کو شاعر اور کاہن کہا گیا اور یہ کہا گیا کہ شیطان ان کے پاس آتا ہے تو اللہ نے ان الزامات کی تردید فرمائی۔ فرمایا کہ ایسا مہتم بالشان کلام کسی شاعر و کاہن کا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی شیطان اس کلام کے آس پاس پھٹک سکتا ہے۔ یہاں قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ اللہ نے نفی کے وقت بھی ’’کلام ‘‘ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ ہر جگہ لفظ ’’قول‘‘ ہی استعمال کیا ہے۔ درج ذیل مثالیں دیکھیں:وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ (الحاقة: ٤١) ترجمہ: ’’اور یہ (قرآن) کسی شاعر کا قول نہیں ہے، مگر تم کم ہی یقین کرتے ہو‘‘
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (الحاقة: ٤٢)
ترجمہ:’’ اور نہ ہی یہ (قرآن) کسی کاہن کا قول ہے، بات یہ ہے کہ تم کم ہی نصیحت پکڑتے ہو‘‘
وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ (التكوير: ٢٥)
ترجمہ: ’’ اور نہ ہی یہ (قرآن) شیطا ن مردود کا قول ہے‘‘
مذکورہ آیات میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کسی شاعر، کاہن اور شیطان وغیرہ کا بنایا ہوا یا گھڑا ہوا کلام نہیں ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے منفی پیرایہ بیان میں بھی لفظ ’کلام‘ استعمال نہیں فرمایا بلکہ لفظ ’قول ‘کا ہی استعمال کیا ہے، جس طرح سورۂ الحاقہ آیت ۴۰ میں جبرئیل کے ذریعہ قرآن پہنچانے کو ’قول‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
البتہ ایک جگہ سورہ نحل آیت ۴۰ میں ’قولنا‘ فرمایا گیا ہے:
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ّ(النحل:40)
ترجمہ: ’’جب ہم کوئی نئی چیز تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو بس ’کن‘ کہتے ہیں اور اسی لمحے وہ چیز وجود پذیر ہوجاتی ہے‘‘
مگر یہاں پیرایہ بیان ذرا مختلف ہے اور اس ’قول‘ سے مراد قرآن یا اللہ کی صفت کلام نہیں ہے، بلکہ ’قول‘ یہاں حکم، بات یا فیصلے کے معنیٰ میں ہے اور لفظ اللہ کی طرف راجع ضمیر منفصل کے ساتھ آیا ہے۔سورہ یٰسن میں اسی معنیٰ کے لیے ’قول‘ کے بجائے ’امر‘ کا لفظ آیا ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ [يس : 82]
ترجمہ: ’’اس کی قدرت تو ایسی ہے کہ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرنا چاہتا ہے تو بس ’کن‘ کہتا ہے اور وہ چیز اسی لمحے میں وجود پذیر ہوجاتی ہے‘‘
نہ صرف یہ کہ اللہ نے قرآن کو ’کلام‘ کہا ہے اور کلام کی نسبت اپنی طرف کی ہے بلکہ مجرد صفتِ کلام کے حوالے سے جب بھی اور جہاں بھی بات کی ہے ’کلام‘ اور اس کے مشتقات ہی استعمال کیے ہیں۔ ذیل کی مثالوں پر غور کریں:
وَكَلَّمَ اللَهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا (١٦٤)
ترجمہ: ’’ اور اللہ نے موسیٰ سے تو کلام بھی فرمایا ہے‘‘
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِحِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (٥١)
ترجمہ: ’’کسی انسان کے اندر اتنی سکت نہیں کہ اللہ براہ راست اس سے ہم کلام ہو (اور وہ برداشت کرسکے) اس لیے اللہ (انبیاء سے سے یا تو وحی کے ذریعہ کلام کرتا ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ اپنے مقرب فرشتے کو بھیجتا ہے، پھر وہ فرشتہ اللہ کے حکم سے (نبی کے قلب پر) پر وہی کچھ اِلقا کرتا ہے جو کچھ اللہ چاہتا ہے۔ بے شک وہ بڑے مرتبے والا اور حکمت والا ہے‘‘
وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (١٧٤)
ترجمہ: ’’قیامت کے دن اللہ نہ تو ان سے بات کرے گا اور نہ ہی ان کا تزکیہ فرمائے گا‘‘
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ
ترجمہ: ’’ہم نے ان رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے، تو ان میں بعض تو وہ ہیں جن سے ہم نے کلام کیا ہے اور بعض وہ ہیں جن کو ہم نے دوسرے اعتبارات سے بلند مرتبہ بنایا ہے‘‘
کلام، قول اور کلمہ….. ان تینوں میں سب سے خاص اور جامع لفظ ’کلام‘ ہے۔ اللہ نے اپنے ملفوظ کو ’قول یا کلمہ‘ نہیں کہا ہے بلکہ صرف ’کلام‘ کہا ہے۔ اور پھر ان کلمات کے درمیان جو لطیف فرق ہے قرآن میں اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لفظوں کو ترادفا استعمال میں لایا گیا ہو بلکہ تفصیل ِ مطلب اور تکمیل معانی کی خاطر لفظوں کو برتا گیا ہے۔
نحوی اصطلاح کے اعتبار سے ’’کلام‘‘ وہ مرکب لفظ ہے جو مفید معنیٰ کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ اس کے برعکس جتنے بھی الفاظ ہیں جیسے کلمہ، کَلِم، جملہ اور وقول وغیرہ ان میں سے کسی کے لیے بھی مفید کی شرط نہیں ہے، غیر مفید مفرد ومرکب الفاظ اور جملے بھی ان میں شامل ہیں، مگر ’کلام ‘ صرف مفیدِ مطلب جملوں کو ہی کہا جا سکتا ہے۔
لسان العرب میں ہے :
’’الکلام ماکان مکتفیا بنفسہ، وھو الجملۃ، والقول مالم یکن مکتفیا بنفسہ، وھو الجزءمن الجملۃ‘
البتہ قول اور کلمہ کو مجازا کلام کی جگہ پر بھی استعمال کرتے ہیں، اسی لیے ایسا ہے کہ قرآن میں بعض مقامات پر اللہ نے ’کلمہ‘ کی نسبت بھی اپنی طرف کی ہے، مگر اس سے مراد کلام اللہ نہیں لیا گیا ہے اور اللہ کی صفتِ کلام کی طرف اشارہ نہیں ہے۔مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔ قرآن میں ہے:
مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق:۲۹) ترجمہ: ’’ہمارے یہاں فرمان بدلے نہیں جاتے اور نہ ہی ہم اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرتے ہیں‘‘
لیکن یہاں بھی ’القول‘ بات، امر، فرمان، حکم اور فیصلے کے معنیٰ میں ہے۔
مذکورہ تمام الفاظ میں ’قول‘ سب سے عام لفظ ہے، قرآن کو اس معنیٰ میں قولِ رسول اور قولِ جبرئیل کہا گیا ہے کہ یہ جبرئیل امین اور رسول اللہ (ﷺ) کی زبان سے دہرایا ہوا کلام ہے۔ قرآن کے امت تک پہنچنے میں کہیں ایک اور کہیں دو واسطے ہیں۔کہیں فرشتہ اور نبی اور کہیں صرف نبی کی ذات واحد۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ،عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ، بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵)
’’ یہ (قرآن) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ایک امانت دار روح (جبرئیل) کے ذریعے فصیح عربی زبان میں تمہارے قلب پر اتارا گیا ہے تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دو ‘‘
قرآن میں ان لفظون کے سیاق اور استیراد سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ لفظ ’کلام‘ میں تخلیق کا مفہوم ہے اور قول میں نقل کا۔ لہذا قرآن اللہ کی صفت ہے اور رسول اور فرشتے کا قول ہے، جبرئیل امین اور رسول اللہ ﷺ دونوں اللہ کے کلام کے ناقل ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ دوسری حیثیت میں کلام اللہ کے شارح بھی ہیں۔
کلام کرنا بے شک اللہ کی ازلی صفت ہے، مگر کلام کا صدور غیر مؤقت نہیں ہے، کیونکہ ازلی صفت بھی ہمہ وقت معرض اظہار میں نہیں رہتی، بلکہ وقت کے اعتبار سے ظہور کرتی ہے، تاہم یہ فرق ضرور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ چیزوں کی نسبتیں انسانوں کے تعلق سے دوسری نوعیت کی ہیں اور اللہ کے تعلق سے دوسری نوعیتوں کی ہوسکتی ہیں، بہت ممکن ہے کہ ان نوعیتوں کا ہمیں شعور نہ ہو۔ خود وقت کی نسبت اللہ کی طرف دوسری نوعیت کی ہے اور انسانوں کی طرف دوسری نوعیت کی۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (الحج:47) ’’تمہارےرب کے یہاں (عرش پر) تمہارے ایک دن کی مقدار ایک ہزار سالوں کی مقدار کے برابر ہے‘‘
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (٤) ’’فرشتے اور روح (جبرئیل) ایک ایسے دن میں اس (اللہ) کی طرف جاتے ہیں جس کی مقدار (دنیا کے دنوں کے حساب سے) پچاس ہزار سال کے برابر ہے‘‘
ان آیات سے انسان اور اللہ کی طرف وقت کی نسبتوں میں نوعی فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ وقت کی نسبت جب انسانوں کی طرف ہو تو وقت کی نوعیت مختلف ہوت ہے اور جب اللہ کی طرف اس کی نسبت ہو تو اس کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔ انسان وقت کی قید میں ہے اور اللہ وقت کی قید سے آزاد ہے۔
قرآن میں وارد لفظ ’قول‘ کی تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بقیہ دو لفظوں یعنی کلمہ اور کلام کے مقابلے میں ’قول‘ اور اس کے مشتقات بہت عام ہیں اور ہر کسی کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور ہر طرح کے تخاطب کے لیے آئے ہیں۔ قول کی چند مثالیں دیکھیں:
فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِبِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (البقرة: ٥٩)
ترجمہ: ’’مگر ان ظالموں نے (ہماری) بات کو بدل کر کچھ کا کچھ کر دیا تو ہم نے ان ظالموں پر آسمان سے عذاب بھیج دیا، کیونکہ وہ نافرمانیاں کیے جا رہے تھے‘‘
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (البقرة: ٢٠٤)
ترجمہ:’’ اے نبی! بعض لوگ بات بات پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں تو ان کی باتیں تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہیں حالانکہ وہ دین حق کے بدترین دشمن ہوتے ہیں‘‘
وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ(آل عمران: ١٤٧)
ترجمہ: ’’ان کی التجا (اپنے رب سے) بس یہی تھی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہم سے جو زیادتیاں ہوئی ہیں ان کو معاف فرما دے، ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد فرما‘‘
لَّقَدْ سَمِعَ اللَهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَبِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (آل عمران: ١٨١) ترجمہ: جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی ہیں، اللہ نے ان کی یہ بات سن لی ہے۔ سو ہم ان کی اس بات کو لکھ رکھیں گے اور ان کے اس گناہ کو بھی لکھ لیں گےکہ انہوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا اور (روز حساب ہم ان سے کہیں گے ) لو! جہنم کے عذاب کا مزہ چکھو‘‘
وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
(يونس: ٦٥)
ترجمہ: ’’ اے نبی! تمہیں ان کی باتیں غمزدہ نہ کریں، عزت تو تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے، وہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے‘‘
حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا (الكهف: ٩٣)
ترجمہ: ’’جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایک ایسی قوم ملی جو مشکل ہی سے اس کی کوئی بات سمجھ سکتی تھی‘‘
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (فصلت: ٣٣)
ترجمہ: ’’بھلا اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں‘‘
’قرآن میں کہیں بھی لفظ ’قول‘ کی اضافت اسم علم یعنی اللہ کی طرف نہیں آئی مگر جمع متکلم کے ضمیر کی طرف آئی ہے (جو اللہ کے لیے ہے) اور یہ قرآن میں صرف ایک جگہ ہے:إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (النحل: ٤٠)
ترجمہ: ’’جب ہم کوئی نئی چیز تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو بس ’کن‘ کہتے ہیں اور اسی لمحے وہ چیز وجود پذیر ہوجاتی ہے‘‘
تاہم یہاں اللہ کی صفت کلام کے حوالے سے بات کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ’قول‘ یہاں بیان (Statement) کے معنیٰ میں ہے۔
قرآن میں کلمہ کی جمع ’کلمات‘ بھی بار بار آیا ہے۔ اس لفظ کی نسبت بھی لفظ اللہ اور رب کی طرف ملتی ہے، مگر اس سے بھی قرآن مراد نہیں ہے جس طرح مذکورہ آیت (سورۂ نحل :۴۰) میں ’’قولنا‘‘ سے مراد قرآن نہیں ہے۔ چند آیات دیکھیں:
قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الکہف:۱۰۹)
ترجمہ: ’’اےنبی! کہہ دو کہ اگر سارا سمندر روشنائی بن جائے بلکہ مزید ایک اور سمندر بھی اس میں شامل کردیا جائے (پھر میرے رب کی تعریف لکھی جائے) تو دونوں سمندر ختم ہوجائیں گے مگر میرے رب کے کلمات (تعریف )ختم نہیں ہوں گے‘‘
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَهِ إِنَّ اللَهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (لقمان :۲۷)
ترجمہ:’’ روئے زمین پر جتنے بھی درخت ہیں اگر ان سب کو قلم بنالیا جائے اور سارا سمندر روشنائی بن جائے بلکہ اس میں مزید سات سمندر شامل کر لیے جائیں ( پھر ان سے اللہ کی تعریف اور احسانات لکھے جائیں) تو تمام قلم اور تمام روشنائی ختم ہوجائے مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘
ان آیات میں بھی ’کلمات ‘سے مراد قرآن نہیں ہے اور نہ ہی صفت کلام کلا اظہار مقصود ہے۔
قول اور کلمہ کی بہ نسبت لفظ ’’کلام‘‘ صرف قرآن کے لیے ہی آیا ہے اور کلام کی نسبت اللہ نے صرف اپنی طرف یعنی اسم علم کی طرف ہی کی ہے، کلام کی نسبت یا اضافت اسم علم کے علاوہ کسی اور لفظ کی طرف نہیں کی، نہ شخص کی طرف نہ صفت کی طرف اور نہ ہی اسم مصدر کی طرف۔ البتہ یائے متکلم کی طرف جس سے نفس ذات ہی مراد ہے کلام کی نسبت ملتی ہے:
قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ (الاعراف:۱۴۴)
ترجمہ: ’’اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ میں نے تمہیں اپنے پیغام اور کلام کے لیے منتخب کر لیا ہے، تو جو کچھ میں تمہیں دوں اسے لے لو اور شکر ادا کرو‘‘
قرآن میں انسانی کلام کی طرح مترادفات کا استعمال نہیں ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں جو آخری دو لفظ ہیں وہ مترادفات کے طور پر نہیں آئے ہیں بلکہ یہ دونوں مل کر ایک معنیٰ کی تکمیل کرتے ہیں۔ رحمان مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحیم صفت کا، الرحمان صفت ِرحمت کی وسعت ومبلغ کو بتانے کے لیے ہے اور الرحیم صفتِ رحمت میں دوام اور تسلسل کو بتانے کے لیے ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت کائنات کی تمام انواع کو وسیع اور عام ہے، ہمیشہ کے لیے ہے اور بے تحاشا ہے۔ یہ دونوں لفظ مل کر رحمت الٰہی کی معنویت کی سہ گانہ پہلؤوں سے تکمیل کرتے ہیں۔ غالبا اسی لیے بعض مترجمین نے ان الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ ’رحمان ورحیم ‘ ہی لکھا ہے۔ جبکہ بعض دوسرے مترجمین نے صفت رحمت میں وسعت ودوام کے معنیٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترجمہ کیا ہے۔ ان دونوں الفاظ کا اردو میں جو بہت ہی معروف ترجمہ ہے ’’جو بڑا ہی مہربان اور نہایت رحم والا ہے‘‘ وہ زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔پھر نہ صرف یہی اہم بات ہے کہ قرآن میں مترادف الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی لفظ اگر مختلف جگہوں پر مختلف سیاق میں آیا ہے تب بھی ہر جگہ اس کے ایک ہی معنیٰ نہیں ہیں، جیسے قرآن میں وحی کا لفظ ہے، بے شک رسول اللہ کی طرف وحی اور شہد کی مکھی کی طرف وحی کے ایک ہی معنیٰ نہیں ہیں اور نہ ہی اس لفظ سے ہر جگہ ایک طرح کا اظہار مقصود ہے۔ اسی طرح قرآن میں لوہے اور پانی کے لیے ایک ہی لفظ ’نزلنا‘ استعمال ہوا ہے مگر اس کے مختلف خلفیات اور پس منظر اس کے معانی کو مختلف بناتے ہیں۔ بے شک پانی کا نزول قرآن کے نزول سے بہت مختلف ہے۔
***
***
قرآن میں انسانی کلام کی طرح مترادفات کا استعمال نہیں ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں جو آخری دو لفظ ہیں وہ مترادفات کے طور پر نہیں آئے ہیں بلکہ یہ دونوں مل کر ایک معنیٰ کی تکمیل کرتے ہیں۔ رحمان مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحیم صفت کا، الرحمان صفت ِرحمت کی وسعت ومبلغ کو بتانے کے لیے ہے اور الرحیم صفتِ رحمت میں دوام اور تسلسل کو بتانے کے لیے ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت کائنات کی تمام انواع کو وسیع اور عام ہے، ہمیشہ کے لیے ہے اور بے تحاشا ہے۔ یہ دونوں لفظ مل کر رحمت الٰہی کی معنویت کی سہ گانہ پہلؤوں سے تکمیل کرتے ہیں۔ غالبا اسی لیے بعض مترجمین نے ان الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ ’رحمان ورحیم ‘ ہی لکھا ہے۔ جبکہ بعض دوسرے مترجمین نے صفت رحمت میں وسعت ودوام کے معنیٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترجمہ کیا ہے۔ ان دونوں الفاظ کا اردو میں جو بہت ہی معروف ترجمہ ہے ’’جو بڑا ہی مہربان اور نہایت رحم والا ہے‘‘ وہ زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023