جاویدہ بیگم ورنگلی
معمولی نظر آنے والا دو حرفی لفظ ’’کل‘‘ بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ انسان کی پوری زندگی اسی ’کل‘ کے اطراف گھوم رہی ہے۔ اس کل کو انسان کی زندگی کا خلاصہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ ’کل‘ ایسا لفظ ہے جس سے بچوں کو آسانی سے بہلایا جاتا ہے۔ کل تم کو یہ لا دیں گے۔ کل نمائش دکھا لائیں گے۔ ’کل‘ شاپنگ کے لیے لے جائیں گے وغیرہ۔ اور بچے بڑی آسانی سے اس کل سے بہل جاتے ہیں۔ یہ کل دوسرے کل کا راستہ بناتا ہے۔ دوسرا تیسرے کل کا اور بچہ بھول جاتا ہے کہ اس سے کیا وعدہ کیا گیا تھا اور بڑے ہر محنت طلب کام سے بچنے کے لیے اس کل کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقالہ داخل کرنے کی تاریخ قریب آگئی ہے مگر ابھی لکھنا شروع نہیں کیا۔ انشاء اللہ کل سے شروع کریں گے۔ آج طبیعت کچھ نا ساز سی محسوس ہو رہی ہے۔ آج تو دوستوں کے ساتھ پکنک کا پروگرام ہے جس کو ہم سب دوستوں نے مل کر بہت دن پہلے بنایا تھا۔ اس لیے پکنک جانا بے حد ضروری ہے۔ کل سے ضرور لکھنا شروع کردیں گے۔ پکنک میں تو بہت مزا آیا مگر طبیعت بہت تھک گئی ہے۔ اس لیے آرام کرنا ضروری ہے۔ آج ایک قریبی عزیز کا انتقال ہو گیا جن کی نماز جنازہ پڑھنے جانا ہے۔ کئی دنوں سے بیماری کی خبریں مل رہی تھیں۔ ان کی مزاج پرسی کے لیے جانا تھا لیکن نہیں جا سکا۔ ان سے بڑا قریبی اور دلی تعلق تھا۔ کیا پتہ تھا کہ وہ اس قدر جلد چل بسیں گے۔
انسان سمجھتا ہے کہ وقت اس کے ہاتھ میں ہے جب چاہے اس کو استعمال کر سکتا ہے، جبکہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو آج گزر گیا وہ دوبارہ واپس نہیں آتا اور کل کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس دن سے زیادہ کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا۔ ایک دن میری عمر سے کم ہو جائے اور اس میں میرے عمل میں کوئی اضافہ نہ ہو۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں ’’اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے۔ جب ایک دن گزر جائے تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ گزر گیا۔ یہ کل ایسا دھوکا ہے جو انسان کو زیاں کا احساس ہونے نہیں دیتا کہ اس نے آج کو لا یعنی باتوں اور کاموں میں گزار دیا ہے اس کا احساس نہیں ہونے دیتا کہ اس نے اپنے سب سے قیمتی سرمایہ کو ضائع کر دیا ہے۔ سورہ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک خوبی یہ بھی بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پر ہیز کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا کہ اسلام کا حسن لغویات کو ترک کرنا ہے۔ انسان آج کا کام کل پر ٹال کر اپنا سارا وقت شکوے شکایات، غیبت، چغلی، ادھر ادھر کی لا حاصل باتوں میں گزارتا ہے۔ نہ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہے، نہ اپنے منصوبوں واعلیٰ عزائم کو بروئے کار لا کر علم وفن کے میدان میں کوئی کارہائے نمایاں انجام دے پاتا ہے۔ جس طرح انسان وقت کو حقیر سمجھ کر ضائع کر دیتا ہے وقت بھی اس کو حقیر بنا کر رکھ دیتا ہے۔ چھٹی صدی کے مشہور عالم علامہ جوزی نے اپنے صاحبزادے کو جو نصیحت نامہ لکھا ہے اس میں وہ فرماتے ہیں بیٹے! زندگی کے دن چند گھنٹوں اور گھنٹے چند گھڑیوں سے عبارت ہیں۔ زندگی کی سانسیں گنجینہ ایزدی ہیں۔ ایک ایک سانس کی قدر کرو کہ کہیں بغیر فائدہ کے گزر نہ جائے کہ کل قیامت کے دن زندگی کا دفینہ خالی پا کر اشک ندامت بہانے نہ پڑ جائیں۔ ایک ایک لمحہ کا حساب کرو کہ کہاں صرف ہوا۔ بے کار زندگی گزار نے سے بچو اور کام کرنے کی عادت ڈالو تا کہ آگے چل کر تم وہ کچھ پاسکو جو تمہارے کے لیے باعث مسرت ہو۔ یہ کل ہے جو انسان سے اس کا آج چھین رہا ہے اور اس کو کام چور کاہل، و سست بنا رہا ہے۔ یہ کل ہے جو انسان کی صلاحیتوں کو رو بہ عمل لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ کل پر تکیہ کرنے والوں کو زندگی کے میدان کے پہلی صف سے نکال کر آخری صف پہنچا رہا ہے۔ ایک کل اور ہے جس کو مستقبل کہا جاتا ہے، اس نے دل کا سکون ختم کر کے رکھ دیا ہے، اس کل کو شان دار بنانے کے منصوبے اور اس کے لیے دوڑ دھوپ، اس کے لیے ایک ایک پیسہ دیکھ دیکھ کر خرچ کیا جاتا ہے۔ ہر دم یہ خیال رہتا ہے کہ آج پیسہ جمع کیا جائے تو کل لڑکیوں کی شادی کے موقع پر اور لڑکوں کی تعلیمی اخراجات کے لیے کام آئے گا ورنہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ورنہ اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلا پائیں گے اور نہ لڑکیوں کی اعلی پیمانے پر شادیاں ہو پائیں گی نتیجے میں سماج میں کوئی مقام باقی نہیں رہے گا۔ اس کل کی فکر نے انسان کو پیسے کا پجاری بنا کر رکھ دیا۔ وہ پیسہ خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے، کل کے لیے جمع کرتا رہتا ہے۔ اس کے لیے جائز و نا جائز کی کوئی فکر نہیں ہے اور وہ صرف دولت کے انبار چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی شان دار مستقبل کی نشانی ہے۔ اس کل کے لیے دولت کے انبار پیدا کرتا ہے اور سانپ بن کر اس دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ دولت کو نہ اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے نہ حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر خرچ کرتا ہے۔ شان دار مستقبل یعنی کل نے انسان کو ایسا دیوانہ بنا کر رکھ دیا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا ہے کہ اس کا وہ کل کونسا ہے جس کی اس کو تیاری کرنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کل وہ ہے جس کی تیاری کرنے کے لیے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو مخاطب کر کے اس کل کی تیاری کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللٰهَ وَلۡتَـنۡظُرۡ نَـفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللٰهَؕ اِنَّ اللٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ۞ (الحشر:۱۸)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو کل کی تیاری کرنے کی بات کہی ہے، وہیں واضح انداز میں یہ بھی بتادیا کہ تمہارے ہر عمل کی بنیاد اللہ کا ڈر ہو۔ اللہ کا ڈر ہی وہ بنیاد ہے جس پر اعمال صالح کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ بنیاد کی مضبوطی پر ہی عمارت کی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔ بنیاد کمزور ہو تو ہر لمحہ عمارت کے ڈھے جانے کا خدشہ لگا رہے گا اور یہ عمارت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی بلکہ تکلیف کا باعث بنے گی۔ اس طرح انسان کا وہی عمل فائدہ پہنچائے گا جو صرف اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَنۡ يَّنَالَ اللٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمۡ لِتُكَبِّرُوا اللٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡؕ وَبَشِّرِ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اللہ کے رسول (ﷺ) کا ارشاد مبارک ہے، اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اور اس کے رسول کی طرف ہوئی اور جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف ہو کہ اسے حاصل کرے کسی عورت کی نیت سے کرے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔
اس کل کی تیاری کوئی معمولی تیاری نہیں ہے۔ اس دائمی کامیابی و نا کامی کا انحصار اسی کل کی تیاری پر ہے۔ یہ کل کوئی معمولی کل نہیں ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والا کل ہے، یہ آخرت کی دائمی زندگی ہے، حقیقت میں انسان کی اصل زندگی وہی ہے۔ یہ دنیا کی زندگی صرف آج ہی آج ہے، یہ آج سو سال کا بھی ہو سکتا ہے اور ایک لمحہ کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس آج کا، جس کے ایک پل کا بھروسا نہیں ہے اس کا کل کی دائمی وابدی زندگی سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ فرماتا ہے: كَاَنَّهُمۡ يَوۡمَ يَرَوۡنَهَا لَمۡ يَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِيَّةً اَوۡ ضُحٰٮهَا (النازعات: ۴۶) جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انہیں یوں محسوس ہو گا کہ (یہ دنیا میں یا حالتِ موت میں) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔
یہ ہے آج یعنی دنیا کی حقیقت جس میں کھو کر انسان کل یعنی آخرت کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ اس کل کو جس سے اس کی دائمی خوشیاں راحت بھری زندگی وابستہ ہے، اور اس کل کو بھول جانے کا انجام کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے: (ترجمہ) پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہو گا جس روز انسان اپنا سب کیا یاد کرے گا اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی (النازعات ۳۴-۴۱) کل کو بھول جانے کے نتیجہ میں کل انسان جس بات پر پچھتائے گا، قرآن اس طرح اس کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے: اور جہنم اس روز سامنے لائی جائے گی۔ اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟ وہ کہے گا کاش! میں نے اپنی اس زندگی کے لیے پیشگی سامان کیا ہوتا! پھر اس دن اللہ جو عذاب دے گا ویسا عذاب دینے والا کوئی نہیں اور اللہ جیسا باندھے گا ویسا باندھنے والا کوئی نہیں۔ (الفجر : ۲۶) اللہ تعالی جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اپنے بندوں کو کل کے اس پچھتاوے سے بچانے کے لیے انبیاء اور ہدایت نامے بھیجتا رہا ہے۔ اس کی آخری کڑی حضرت محمد (ﷺ)اور قرآن مجید ہے۔ آپ کا اسوہ مبارکہ اور قرآن تا قیامت دنیا کے تمام انسانوں کی رہبری و رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم اس کل کو بھول جاتے ہیں تو یہ ہماری اپنی بد نصیبی ہوگی۔ اس کے پچھتاوے سے اللہ ہم سب کو بچائے اور کل کی تیاری کرنے کی توفیق دے۔ آمین
***
انسان سمجھتا ہے کہ وقت اس کے ہاتھ میں ہے، جب چاہے اس کو استعمال کر سکتا ہے جبکہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو آج گزر گیا وہ دوبارہ واپس نہیں آتا اور کل کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024