کاکا سعیدعمری تعلیم کے میدان میں گہرے نقوش چھوڑ گئے

مولانا ایک عظیم داعی اور اتحادامّت کے علم بردار تھے

نئی دلی: (دعوت نیوز ڈیسک)

امیر جماعت اسلامی ہند، صدر مسلم پرسنل لا بورڈ اور مختلف قائدین کا اظہار تعزیت
معروف عالم دین اور جنوبی ہند کی عظیم درس گاہ دارالسلام عمرآباد کے ناظم مولانا کاکا سعید احمد 11؍ مئی 2024 کو انتقال کرگئے۔ ان کی رحلت نے علمی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔ ملک کے معروف اسکالروں، مختلف جماعتوں کے رہنماوں اور دینی وملی اداروں کے منتظمین و قائدین نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے پیاماتِ تعزیت روانہ کیے ہیں:
جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ان کی وفات سے ملت اسلامیہ ہند ایک مخلص عالم، منتظم اور سماجی خدمت گار سے محروم ہو گئی ہے۔ ان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا بڑا خسارہ ہے۔ کاکا سعید احمد جنوبی ہند کی مشہور تعلیم گاہ دارالسلام عمر آباد کے طویل عرصے تک ناظم رہے۔ ان کے دور نظامت میں اس مدرسے نے خوب ترقی کی اور علمی دنیا میں ایک منفرد مقام بنایا۔
وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بھی نائب صدر تھے۔ ان کا تعلق عمر آباد کی کاکا فیملی سے تھا جس کی تعلیم اور خدمتِ خلق کے میدان میں عظیم خدمات ہیں۔ ان کے دادا کاکا محمد عمر نے جو بہت بڑے تاجر چرم تھے، 1924 میں جامعہ دار السلام کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ کاکا سعید احمد صاحب مرحوم کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا توسع اور اعتدال تھا، جو عین اسلام کا مزاج ہے۔ وہ ملت کے تمام اداروں اور جماعتوں کی مثبت خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ہر طرح کے دینی وملی کاموں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ دعوت دین کی گہری تڑپ رکھتے تھے۔ دعوت کے موضوع پر ان کے زیر سرپرستی جو تربیتی ورکشاپ منعقد ہوا کرتے تھے وہ بڑے مفید ہوتے تھے، اور ان کے ذریعے داعی علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد تیار ہوئی۔ جماعت اسلامی ہند کے تئیں کاکا سعید مرحوم کے خلوص اور تعاون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت کی خدمات کے وہ بڑے قدردان تھے۔ سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری سے، جو ان کے ادارے کے فارغ التحصیل تھے، ان کا خصوصی تعلق تھا۔ مجھ سمیت جماعت کے دیگر ذمہ داروں کی وہ ہمیشہ سرپرستی اور ہمت افزائی فرماتے رہے۔ امیر جماعت نے دعا کی کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی رحلت سے ملت میں جو بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے اسے اپنے فضل خاص سے پُر فرمائے۔
کاکا سعید آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قدیم رکن اور طویل عرصہ سے بورڈ کے سینئر نائب صدر رہے تھے۔ ان کی وفات پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا کہ وہ ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے، علم و عمل کا حسین امتزاج تھے، انہوں نے تعلیم کے میدان میں بڑی محنت کی، ان کے زیر اہتمام جامعہ دارالسلام عمرآباد کو بڑی ترقی حاصل ہوئی، اس جامعہ کا بنیادی مقصد دینی اور عصری تعلیم کا امتزاج اور مسلک ومشرب کی سطح سے اوپر اٹھ کر دین اور علم دین کی خدمت کرنا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اسی راہ پر قائم رکھا اور اس سلسلے میں انتہا پسند نقطہ نظر رکھنے والے حضرات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ان کی زندگی کا ایک اہم پہلو برادران وطن میں دعوت اسلام کا کام تھا، انہوں نے جامعہ دارالسلام کے بعض نو مسلم فضلاء کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے کام کو ایک تحریک بنا دیا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ تشہیر اور کریڈٹ حاصل کرنے سے گریز کیا۔ ملک بھر میں ان کی اس داعیانہ کوشش کا فیض پہنچا۔ وہ اتحاد ملت کے بہت مضبوط اورطاقت ور داعی تھے اور اپنی نجی مجلس اور عوامی محفل دونوں میں اتحاد ملت کے نقیب تھے۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی تمام تحریکوں میں پوری دلچسپی کے ساتھ شریک رہتے تھے، ان کی وفات یقیناً ملت اسلامیہ کے لیے بڑا حادثہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور بلند درجات سے نوازے۔آمین
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے بھی مولانا کاکا سعید عمریؒ کے انتقال پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ نے ان سے بڑا کام لیا، وہ اتحاد ملت کے بڑے علم بردار تھے، بورڈ کی نشستوں میں دلچسپی کے ساتھ حاضر ہوتے اور اپنی رائے پیش کرتے تھے۔وہ خاموشی سے کام کرنے کے عادی تھے۔ ملت کی اٹھان اور ترقی کے لیے ہرممکن بے لوث کوشش کرتے رہے۔ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے تا دیر محسوس کیا جائے گا۔
مولانا محمد رضی الاسلام ندوی سکریٹری اسلامی معاشرہ جماعت اسلامی ہند نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا ’’میرے علی گڑھ پہنچنے کے زمانے میں وہ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے سکریٹری تھے، جب ان سے تعلق استوار ہوا تو اس میں برابر اضافہ ہوتا گیا۔ کاکا سعید صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی بہت محبت اور اپنائیت سے ملتے اور قدر افزائی کرتے۔ ان کی دو خوبیاں انہیں ملت کی سرکردہ شخصیات میں بلند مقام عطا کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں دعوتِ دین کے کام سے بہت دل چسپی تھی۔ انہوں نے جامعہ میں اس کا باقاعدہ شعبہ قائم کر رکھا تھا اور اس میدان میں کام کرنے والوں کی تربیت کے لیے اساتذہ مقرر کر رکھے تھے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی تربیت کا بھی معقول انتظام کیا تھا۔ دوسری خوبی یہ کہ وہ وحدتِ امت کے داعی اور عَلم بردار تھے۔ وہ تمام ملی اداروں اور دینی جماعتوں کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ان کی فکر میں بڑا توسّع اور اعتدال پایا جاتا تھا ۔
مولانا کاکا سعید سے اپنے ربط وتعلق کو یاد کرتے ہوئے مولانا رضی الاسلام ندوی نے کہا ’’جامعہ دار السلام عمرآباد میں مجھے کئی بار حاضری کا موقع ملا ہے۔ بعض مواقع پر مولاناجلال الدین عمری کی رفاقت میں اور بعض دفعہ تنہا۔ ہر موقع پر جامعہ کے اساتذہ کے علاوہ کاکا سعید صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور بعض دفعہ ان کی پُر تکلّف ضیافت سے بھی شاد کام ہوا۔ میں نے دیکھا کہ مولاناجلال الدینعمری اور کاکا سعید صاحب دونوں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ادب و احترام اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ایک دفعہ مولاناجلال الدین عمری نے اپنے وطن (پتّگرام) کی زیارت کا پروگرام بنایا تو مجھے اپنا رفیقِ سفر بنایا۔ اس موقع پر بھی عمر آباد حاضری ہوئی۔ جماعت اسلامی ہند کا ایک اجتماعِ عام ممبرا (مہاراشٹر) میں ‘فَفِرّوا الی اللہ’ کے مرکزی عنوان سے ہوا تھا۔ اس میں شرکت کے بعد میں عمر آباد گیا تھا۔ ایک بار طلبہ جامعہ کے سالانہ پروگرام میں مجھے مہمان خصوصی بنایا گیا تھا۔ چند برس قبل جماعت کی طرف سے اس کے قیام کے 75 برس مکمل ہونے پر بعض خصوصی پروگرام منعقد ہوئے تھے۔ اس موقع پر بھی جامعہ میں میری حاضری ہوئی تھی۔ ہمیشہ کاکا سعید صاحب نے عزت و تکریم کا معاملہ کیا۔ تمام طلباء کو جمع کرکے ان سے خطاب کا موقع دیا، اپنے دفتر میں تمام اساتذہ کو جمع کیا اور ان کی موجودگی میں تبادلہ خیال کیا۔‘‘
کویت میں ہندوستانی برادری کی معروف شخصیت محمد ہوشدار خان نے اپنے تعزیتی پیام میں کہا کہ لوگ ایک با وفا، با اخلاق، با ایمان اور پر خلوص شخصیت سے محروم ہوگئے۔ ان کے انتقال سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا اگرچہ ناممکن تو نہیں، مشکل ضرور ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم جب بھی کویت تشریف لاتے، اتوار کی ہفتہ واری دینی مجلس میں شرکت فرماتے اور دینی و اصلاحی نصیحتوں سے فیض پہنچاتے ۔مرحوم کی کمی کا احساس ہم سب کو ہوتا رہے گا۔ انہوں نے کاکا سعید عمری رحمہ اللہ پر ایک خصوصی نمبر کی اشاعت کی تجویز پیش کی جس میں مرحوم کے متعلقین کے تاثرات بھی شامل ہوں۔
***

 

***

 مولانا کاکا سعید عمری ایک نظر میں
مولانا کاکا سعید احمد عمری رحمہ اللہ ایک ممتاز عالم دین اور علم وعلماء کے قدردان تھے۔ آپ کی پیدائش 12؍اکتوبر 1936کو عمرآباد میں ہوئی۔ والدہ کی و صیت کے مطابق آپ کا داخلہ جامعہ دارالسلام میں 1949 میں ہوا۔ فراغت مارچ 1956 میں حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ حدیث میں شیخ الحدیث مولانا محمد نعمان اعظمیؒ ہیں جو میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ اور ڈپٹی نذیر احمد کے تلامذہ میں سے تھے۔
مولانا نے پوری زندگی علم وکتاب اور حرکت وعمل کے ساتھ گزاری۔ 1958 میں آپ جامعہ کے شریک معتمد عمومی بنائے گئے جب کہ آپ کی عمر صرف 22 سال تھی اور 1988 سے آپ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے جامعہ کی ساری ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے۔ اس کے علاوہ دین وملت کی تعمیر وترقی کے لیے بھی آپ سرگرم ِعمل رہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تاسیسی ونائب صدر، اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی اور آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر کی حیثیت سے بڑی اہم خدمات انجام دیں۔ نیز خدمتِ خلق کے باب میں جملہ سہولیات سے لیس جامعہ ہسپتال کی نئی عمارت قائم کی اور ہندوستان بھر میں تقریباً ساڑھے چار سو مساجد کی تعمیر آپ کے لیے ان شاء اللہ ذخیرہ آخرت ثابت ہوں گی۔ یقیناً مولانا کی حیات مستعار اس شعر کے مصداق تھی :
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
پسماندگان میں نائب معتمد عمومی مولانا کاکا انیس احمد عمری کے علاوہ تین صاحبزادے جناب کاکا امین احمد،جناب کاکا فہیم احمد اور جناب کاکا ندیم احمد، تین صاحبزادیاں اور متعدد پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور ہزاروں متعلقین ہیں۔ مولانا کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے ملک وبیرون ملک سے شرکت کی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024