کہیں بے آبرو ہوکر تو نہیں نکلیں گے؟

عہدوں سے سبکدوشی میں عمر کی قید سب کے لیے یکساں ہے!

ڈاکٹر سلیم خان

کیا سنگھ پریوار کے لیے بھی ’مکافاتِ عمل‘ کی گھڑی قریب آچکی ہے؟
للن پٹیل سے کلن جوشی نے پوچھا بھیا تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے ۔ دس بار فون کیا تشویش ہوئی تو دوڑا دوڑا آیا ۔ خیریت تو ہے؟
للن بولا یار اس میں اتنی فکر کی کیا بات ہے ؟ میں تھوڑی 75 کا ہورہا ہوں ۔ میری عمر تو ابھی صرف 44برس ہے۔
تمہیں پتہ ہوگاکہ اپنے چھتیس گڑھ میں پارٹی دستور کے مطابق منڈل صدر کو 45سال کی عمر میں سبکدوش کیا جاتا ہے اس لیے بوریا بستر باندھ لو۔
کیا فرق پڑتا ہے اگلے سال ضلعی صدر60سال کے ہوکر سبکدوش ہوجائیں گے تو میں ان کی جگہ براجمان ہو جاؤں گا،چھوڑوں گا نہیں کیا سمجھے ؟
بھیا یہ سمجھ لو کہ اس عہدے کے کئی امیدوار ہیں۔ اس ایک سال میں تم کو ان کا پتہ صاف کرنا ہے ورنہ وہ ہاتھ مارلیں گے اور تم ہاتھ ملتے رہ جاوگے۔
للن نے کہایار یہ تو بہت ناانصافی ہے کہ رکن پارلیمنٹ کے لیے 75تک عیش اور ہمارے لیے 45 کی حد! یہ تو سراسر ظلم ہے۔
بھیا ایم پی کے لیے تو 75سال کی حد ہے مگر وہ الٹ پلٹ کر پی ایم ہوجائے تولامحدودہوجاتا ہے ۔ غضب بھید بھاؤ ہے۔
دیکھو بھائی ہمارے پردھان جی ہم سب کی طرح انسان تو ہیں نہیں ۔ وہ تو غیر حیاتیاتی ’مہا مانو‘ ہیں ان پر کوئی حد بندی کیسے ہو سکتی ہے ؟
کلن بولا بھائی عظیم انسان بھی تو انسان ہی ہوتا ہےنا؟ فرشتہ تو نہیں ہوجاتا؟ کیا پردھان جی پر بڑھاپے کے اثرات نمایاں نہیں ہورہے ہیں۔
کیسی بات کرتے ہو کلن ۔ وہ تو اب بھی جوان ہیں ۔ ان کاچھپن انچ کا سینہ اب بھی پھولا ہوا ہے ۔
مگر اس کے نیچے پھولے ہوئے پیٹ میں اقتدار سے چپکے رہنے کی بھوک مٹتی ہی نہیں ورنہ ازخود جھولا اٹھاکر چل دیتے کسی کو طنز کرنے کا موقع نہیں دیتے
ہاں بھیا مجھے تو ڈر ہے ’ کہیں بے آبرو ہو کر تونہیں نکلیں گے؟‘ اگر ایسا ہوا تو مجھے بہت دکھ ہوگا ۔
بھائی دھیرج رکھو میں نے راحت اندوری کے شعر سے اپنے آپ کو بہلا لیا ہے ۔ چاہو تو تم بھی سن لو۔
للن بولااچھا تب تو مجھے بھی سناو میں پرسوں سے بہت بے چین ہوں۔ مجھے بھی راحت کے شعر سے راحت دو۔
عرض کیا ہے:
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں مالک مکان تھوڑی ہیں؟
پردھان جی پر عمر کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں ۔ سائپرس میں ٹیلی پرومپٹر بند ہوا تو دومنٹ انگریزی نہیں بول سکے۔ ہندی میں شکریہ ادا کرناپڑا۔
کلن نے کہا جی ہاں ان کو نامیبیا کا نام لینے میں جتنی دقت پیش آرہی تھی اس سےآسانی سے تو ساڑھے سات سال کا بچہ بول سکتا ہے۔
ویسے بھائی بڑھاپے میں انسان بچہ بن جاتا ہے۔ ان کو وہاں ڈھول بجاتے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔
ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہوگا اسی لیے اپنے سرسنگھ چالک نے مورو پنت پنگلے کی سوانح حیات کااجرا کرتے وقت ایک زبردست نصیحت کر دی ۔
للن نے سوال کیا اچھا انہوں نے اب کیا دھماکہ کیا؟ آج کل تو ایران سے بھی زیادہ خطرناک میزائل اپنے موہن بھاگوت چھوڑ رہے ہیں۔
بھائی وہ بولے کہ جب لوگ شال اوڑھانے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ سبکدوش ہونے کا وقت آگیا ہے اوراب دوسروں کو موقع دینا چاہیے۔
یار ایک بات بتاو بھاگوت جی خود پردھان جی سے 6 دن قبل 75 سال کے ہوجائیں گے تو کیا میں ان کو شال اوڑھا دوں تو وہ راستہ ناپ لیں گے؟
دیکھو بھائی یہ ضابطہ بی جے پی میں ہے سنگھ میں نہیں کیا سمجھے۔ سنگھ اپنے طریقے سے کام کرتا ہے اس لیے تم اس کو یہاں مت گھسیٹو ۔
کیوں نہیں گھسیٹوں ۔ تمہیں پتہ ہے دوسرے کو نصیحت کرنے سے قبل کوئی انسان اگر خود عمل نہ کرے تو بڑی فضیحت ہو جاتی ہے۔
کلن نے بگڑ کر سوال کیا ارے بھیا سنگھ اور پارٹی میں فرق ہے ۔ تم سمجھتے کیوں نہیں؟
کیا فرق ہے ؟ سنگھ سے ہی تو ہمارے سارے رہنما آتے ہیں ۔تو کیا بی جے پی میں آتے ہی ان کی سینگ کاٹ دی جاتی ہے؟
نہیں بھیا یہاں آتے ہی سینگ اگ آتی ہے ۔ ابھی تم ہی دیکھو ہم انتخاب لڑتے ہیں سنگھ الیکشن نہیں لڑتا۔
سنگھ الیکشن نہیں لڑتا تو کیا ہوا لڑواتا تو ہے اور پھر سنگھ کے اندر جس کو منتری سنتری بننا ہوتا ہے وہ چولا بدل کر پارٹی میں آجاتا ہے۔
کلن نے پوچھا،اچھا یہ بتاو کیا ہم سب ایک ہی ہندوتوا پریوار کے چٹے بٹے نہیں ہیں ؟ اور پھر بڑھاپا تو قدرت کا قانون ہے جو سب پر لاگو ہوتا ہے؟
جی ہاں اسی لیے توا یک ضابطہ بناکر اڈوانی اور جوشی وغیرہ کو 2014میں مارگ درشک منڈل کے اندر بھیجنے کے بعد 2019میں ٹکٹ کاٹ دیا گیا۔
کلن بولا ہاں بھائی مجھے معلوم ہے پردھان جی نے تو اپنی چہیتی آنندی بین پٹیل سمیت نجمہ ہبت اللہ کو بھی یہ حدپار کرنےپر سبکدوش کردیا تھا ۔
امیت شاہ نے سمترا مہاجن کو عمر کے سبب ٹکٹ نہ دینے کو پارٹی کا فیصلہ کہا تھا۔ 2024میں ریٹا بہوگناوغیرہ کی بھی اس بنیاد پرچھٹی ہوئی۔
کلن نے بگڑ کر سوال کیا تو کیا تمہارا مطلب ہے پردھان جی بھی اتنی ہی شرافت سے ستمبر میں جھولا اٹھا کر چل دیں گے؟
بھیا دیکھو شرافت سے یا ذلالت سے جانا تو پڑے گا۔ اس لیے کہ یہاں ہر آنے والے کو جانا پڑتا ہی ہے۔ اب وہ کیسے جائے یہ اس کی مرضی۔
کلن نے پھر پوچھا اچھا یہ بتاو کہ اس عمر میں پردھان جی نے اقتدار چھوڑ بھی دیا تو وہ بے چارے کیا کریں گے ؟
ارے یہ بھی کوئی سوال ہے؟ لاکھوں لوگ بوڑھے ہوجانے پر کیا کرتے ہیں؟ وہ کسی ہمالیہ پربت جاکر دھنی رما سکتے ہیں ۔
ہاں یار ووٹنگ کے دن مندروں سے نشر ہونے والی ویڈیوز کو دیکھ کر کئی لوگوں کا من بدل جاتا تھا ۔ان کےآشرم کی ویڈیوز سے پارٹی کا فائدہ ہوگا۔
مفاد پرست! تم کو اس میں بھی اپنا فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تنہائی میں ان پر کیا گزرے گی یہ نہیں سوچتے؟
ہاں یار یہ بات بھی ہے۔ ان کے بعد آنے والا سب سے پہلے تو آشرم سے کیمرے ہٹائے گا اور کسی چینل نے نافرمانی کی تو اس پر ای ڈی کا چھاپہ ۰۰۰
ارے بھیا پردھان جی اپنے ہی خاص آدمی کو راج پاٹ سونپ کر جائیں گے اور وہ ان کی کھڑاویں گدی پر رکھ کر بھرت کی طرح حکومت کرے گا۔
کلن بولا بھیا یہ مت بھولو کہ یہ کل یگ ہے ۔ اس میں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ خود پردھان جی نے اپنے گرو کے ساتھ کیا کِیا تم بھول گئے؟
جی ہاں یار ایک بھری مجلس میں سب سے ملے اور ان سے منہ پھیر لیا۔ وہ منظر دیکھ کر تو میری بھی آنکھوں میں پانی آگیا تھا ۔
ارے بھائی اس سے بڑی بے عزتی رام مندر کے افتتاح پر ہوئی جب رام رتھ نکال کر مندر تحریک چلانے والے کو دوردرشن پر مجبور کردیا گیا ۔
ہاں یار پردھان جی نے جو مثالیں قائم کی ہیں ان کی یہی سب یادیں انہیں ستارہی ہوں گی ۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی اسی کو کہتے ہیں۔
کلن بولا یار ایک ترکیب ہے جس سے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اچھا وہ کیا ؟
پردھان جی صدر مملکت بن کر صدارتی محل میں عیش کریں ۔ سرکار کا کام کاج کسی اور کو سونپ دیں ۔
للن نے سوال کیا اچھا یہ بتاو کہ خود پردھان جی نے اڈوانی کے بجائے دروپدی مرمو جیسی غیر معروف خاتون کو صدر کیوں بنا دیا ؟
ارے بھائی سیدھی بات ہے وہ اپنے کام میں دخل اندازی نہیں چاہتے تھے۔
واہ بہت خوب! تو کیا پردھان جی کا جانشین ان کی دخل اندازی کو برداشت کرے گا؟ بھیا اقتدار کی میان میں دوتلواریں نہیں ہوتیں کیا سمجھے؟
جی ہاں مگر دروپدی مرمو کو اس لیے بھی لایا گیا تھا تاکہ ان کے ذریعے قبائلی رائے دہندگان کو رجھایا جاسکے ۔
للن نے پھر پوچھا لیکن بھیا پھر بھی جھارکھنڈ میں تو ہم لوگ جے ایم ایم سے ہار گئے ۔
بھائی وہ تو ہیمنت سورین کی گرفتاری کا ردعمل تھا لیکن اڈیشا اورچھتیس گڑھ میں تو جیتے نا ؟ مرمو کا کچھ تو فائدہ ہوا؟ پردھان جی سے کیا ملے گا؟
یار یہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔ کیا وشوگرو مرمو سے بھی گئے گذرے ہوگئے ہیں؟
للن بولا ہاں یار مجھے بھی لگتا ہے کہ لوگ ان کو ٹیلی ویژن پردیکھ دیکھ کر اوب گئے ہیں اور اگر انہوں نے من کی بات جاری رکھی تو مسئلہ ہوجائے گا۔
کلن بولا بھیا تم تو کیجریوال کی زبان بول رہے ہو لیکن تمہیں پتہ ہے امیت شاہ نے اس پر صاف کہا تھا کہ 2029تک وہی رہیں گے ۔
کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ راجناتھ تو 2034تک پرامیدہیں ،تم ہی بولو 85 سالہ بزرگ سب سے زیادہ نوجوانوں کے ملک کی قیادت کیسے کرے گا؟
ارے بھیا ہندی میں رہنما کو نیتا اور اداکار کو ابھی نیتا کہتے ہیں۔کیا امیتابھ بچن ہنوز اداکاری نہیں کرتا وہی پردھان جی بھی کرتےہیں اور کریں گے۔
لیکن یار یہ ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے سر سنگھ چالک کی بات درست لگتی ہے۔ پردھان جی کب تک جونک کی مانند کرسی سے چپکے رہیں گے ۔
کلن نے کہا یار تمہاری اس بات پر مجھے ارتضیٰ نشاط کا ایک شعر یاد آگیا ۔
کیا بات ہے آج کل خوب شاعری ہورہی ہے۔ خیر شعر سناو وہ بہت عمدہ شاعر تھے۔
ہاں تو سنو وہ فرماتے تھے:
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
للن نے سوال کیا ارے بھائی وہ کون سا کام ہے جو پردھان جی نہیں کرسکتے۔
کیا کیا گنواؤں للن وہ بے چارے نہ تومنی پور جاتے ہیں اور نہ یوگا کرناان کے بس میں ہے۔ اس بار ان کی تصاویرکو دیکھ کر رونا ہنسنا دونوں آیا۔
للن بولا لیکن ہمارے دیش میں سیاست سےکون ریٹائر ہوتا ہے؟
کیوں سونیا گاندھی سبکدوش نہیں ہوئیں ۔ ان سے قبل راہل گاندھی نے شکست کی ذمہ داری قبول کرکے صدارت سے استعفیٰ دیا تھا ۔
ہاں یار اس بار اکثریت کھودینے پر جے پی نڈا کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا مگر وہ اپنی مدت کار ختم ہونے کے دو سال بعد بھی کرسی سے چپکے ہوئے ہیں ۔
وہ کیوں استعفیٰ دیتے ؟پارٹی کے پرچار منتری تو خود پردھان منتری تھے ۔ اس لیے شکست کی ذمہ داری قبول کرکے انہیں ریٹائر ہوجانا چاہیے تھا۔
للن بولا بھیا ہمارے سنگھ پریوار کے اندر جب تک دھکا دے کر نکالا نہ جائے ہم لوگ اپنے سے استعفیٰ نہیں دیتے ۔
اچھا تو کیا اس روایت سے انحراف کوئی جرم ہے؟ پردھان جی ایک اچھی روایت شروع بھی تو کرسکتے تھے ۔ ان کو کس نے روکا تھا؟
بھائی دیکھو شرد پوار83 سال کے ہیں اور82 برس کےکھرگے بھی تو پارٹی کے صدر بنے ہوئے ہیں ۔ ان کو کوئی کچھ نہیں بولتا ؟
ایسا ہے تو نڈا کی جگہ پردھان جی کو بٹھا دو کیونکہ 91 سال کے دیوے گوڑا اور 86 سال کے فاروق عبداللہ نے بیٹوں کو وزیر اعلیٰ بنایا خود نہیں بنے
لیکن بھیا پردھان جی کا کوئی بیٹا تھوڑی ہے جو اس کو اپنا ولی عہد بناتے ۔ جشودھا بین کو یوں ہی چھوڑدینے کی غلطی کا احساس انہیں اب ہورہا ہوگا ۔
یار کیوں نا پارلیمانی انتخاب لڑنے کے لیے جو 25سال عمر کی قید ہے اسے ہٹا کر سبکدوشی کی عمر 75 برس کردی جائے تاکہ جھگڑا ہی ختم ۰۰۰۰۰۔
یار دیکھو ایسا تو امریکہ میں بھی نہیں ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی عمر 78سال ہے اور بائیڈن تو 81 برس ہونے پر بھی لڑنا چاہتے تھے۔
کلن ہنس کر بولایار یہ مثال غلط ہے ۔ وہاں دوبار سے زیادہ کوئی صدر نہیں بن سکتا لیکن پردھان جی تو یہاں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے ۔
لیکن بھیا ہم لوگوں نے خود کئی لوگوں کے لیے اس ضابطے کو توڑا ہے تو پردھان جی پر اسے سختی سے لاگو کرنے کی کیا تُک ہے؟
ارے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس ضابطے سے سارے بڑے رہنما ٹھکانے لگا دیے گئے اس سے کچھ لوگوں کو استثناء مل گیا ؟ تعجب ہے؟؟
ارے بھیا یدیورپا کو تو بدعنوانی کا الزام ہونے باوجود وزیر اعلیٰ بنایا گیا نیز یوگیش پٹیل، ناگیندر سنگھ اور جگناتھ سنگھ رگھونشی کو الیکشن لڑایا گیا۔
یار یہ تو بہت بری بات ہے۔ اس کا مطلب تو صاف ہے کہ پردھان جی نے اپنے حریفوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے یہ چال چلی تھی ۔
للن بولا لگتا تو ایسا ہی ہے لیکن اب وہ اپنے جال میں خود پھنس چکے ہیں اس لیے سنگھ ان کی چھٹی کرکے رہے گا ۔
یار مجھے سنگھ کی کامیابی پر شبہ ہے کیونکہ تمہیں یاد ہے نڈانے کہا تھا کہ پہلے ہم سنگھ کی حمایت پر منحصرہوا کرتے تھےاب نہیں ہیں۔
بات تو صحیح ہے اب ہمارے پاس ساری ایجنسیاں ہیں ۔ ای ڈی سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب ہماری کٹھ پتلیاں ہیں۔
تو کیا تمہارا مطلب ہے کہ ان ایجنسیوں کے سبب ہم لوگ آر ایس ایس سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔کیا سو سال کے بعد یہ مادرِ تحریک بیکار ہوچکی ہے؟
بھیا مجھے تو ڈرہے اس صد سالہ جشن کے دوران کہیں ہمارے جڑواں ٹاورس یعنی مودی اور بھاگوت بھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی مانند نہ ڈھے جائیں۔
ہاں یار سوویت یونین کے مٹ جانے پر خود کو زمین کا واحد سوپر پاور سمجھ کر امریکی بھی بڑی دھوم دھام سے نئی صدی کاجشن منا رہے تھے ۔
للن بولا لیکن کلن مجھے نہیں لگتا کہ ہم سنگھ پریوار سے کبھی بھی بے نیاز ہوسکیں گے۔
کیوں نہیں۔ اب تم ہی سوچو کہ جو کام الیکشن کمیشن اور ای وی ایم مشین کرسکتی ہے کیا وہ سنگھ کے بس کا روگ ہے؟
لیکن بھائی اقتدار تو ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتا ۔ جب ہم حزب اختلاف میں ہوں گے اور ایجنسیاں دشمنوں کے ہاتھ میں ہوں گی تب کیا ہوگا؟
کلن بگڑ کر بولا ایسا کبھی نہیں ہوگا کلن ۔ اب ہندوستان میں ہمیشہ ہمارا ہی اقتدار رہے گا ۔
یار تاریخ گواہ ہے نہ اشوک رہے اورنہ موریہ ۔ خلجی رہے نہ مغلیہ ۔جب کانگریس اور جنتا دل سے اقتدار چھن گیا تو مکافاتِ عمل سے ہم کیسےبچیں گے؟
بھیا تم سے تو بات کرنا بیکار ہے۔ تم تو خوش ہونے ہی نہیں دیتے اپنی منطق اور حجت سے موڈ خراب کردیتے ہو۔
للن بولا بھائی میں آئینہ دکھاتا ہوں تو تم جیسے لوگ اپنا چہرہ دیکھ کر ڈر جاتے ۔ اس میں میرا یا آئینے کا کوئی قصور نہیں ہے۔
ہاں بھائی مان لیا کہ ہمارا چہرا ہی بگڑا ہوا ہے مگر یہ بولو کہ کیا ہر وقت آئینہ دکھانا ضروری ہے؟ کیا کوئی خوبصورت تصویر نہیں دکھا سکتے؟
للن نے ہنس کر کہا بھیا تم تو برا مان گئے معذرت چاہتا ہوں ۔ یہ روحی کنجاہی کا شعر سنو اور مجھے اجازت دو:
ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے
موقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025