کہانی

اثر

رئیس احمد کمار، کشمیر

ریٹائرمنٹ کے سات سال بعد بھی اس نے اپنی مقامی مسجد کا کبھی رخ نہیں کیا۔ پانچ مرتبہ اذان اس کی سماعتوں سے ٹکرانے کے باوجود بھی بے اثر رہی۔ دن بھر لوگوں سے گپ شپ مارنا اور دکانوں کے چبوتروں پر وقت ضائع کرنا اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا خاص مشغلہ بنایا ہوا تھا۔ جس دن بین الاقوامی کرکٹ میچ ہوتا تھا اس دن وہ خود کو زیادہ ہی مشغول رکھتا تھا خاص کر ہندوپاک کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنا وہ کبھی نہیں چھوڑتا تھا۔ کرکٹ کمنٹری کا وہ بچپن سے ہی بڑا شوقین تھا۔ بیوی اور بچوں کے اصرار پر بھی وہ کبھی نماز پڑھنے نہیں جاتا تھا۔ فلمیں دیکھنا، ٹیلی ویژن پر دنیا بھر کی سیاسی خبریں سننا وغیرہ اس کی عادت بن چکی تھی۔ صبح بھی وہ تاخیر سے جاگتا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنا بیشتر وقت ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتا تھا۔ اس عادت سے اس کی بیوی اور بچے کافی تنگ آچکے تھے۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔
ایک دن اس کے بڑے بیٹے کا دوست جو اس کے ساتھ دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور دونوں کا ہاسٹل بھی ایک ہی تھا ان کے پاس آیا اور تین دن تک اس نے وہاں قیام کیا۔ اس کا بڑا بیٹا ان دنوں ملائشیا گیا ہوا تھا کیونکہ وہاں اسے کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو میں شامل ہونا تھا۔ اس لیے مہمان کی خاطر داری باپ کو ہی نبھانی پڑی۔ مہمان صوم و صلاۃ کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کردار اور اوصاف کا مالک تھا۔ باپ نے مہمان نوازی بہت اچھی طرح کی۔ اس کو اردگرد کے نظارے دکھائے اور اس کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے دو تین دوستوں سے بھی ملوایا۔ مغرب کی اذان ہوئی، مہمان نے نزدیکی مسجد کے بارے میں دریافت کیا تاکہ وقت پر باجماعت نماز ادا کر سکے۔ باپ نے اس کی رہنمائی کی، خود بھی وضو بنایا اور مسجد میں داخل ہوا۔ گھر پہنچتے ہوئے عشاء کی اذان ان کے سماعتوں سے ٹکرائی۔ مہمان نے نماز مسجد میں ادا کرنا چاہا، باپ اس کے ساتھ نکلا اور نماز عشاء بھی ادا کی۔ دوسرے روز جب مسجد سے فجر کی اذان دی گئی تو مہمان نیند سے جاگا اور وضو بنانے کے بعد کچھ رکعتیں وہیں پر ادا کرنے لگا۔ دوست کا باپ بھی جاگ اٹھا اور وضو بنا کر دونوں مسجد کی طرف فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے چل دیے۔ مسجد سے واپس آنے کے بعد جب دونوں کے سامنے چائے رکھی گئی تو دوست کی ماں نے کہا۔۔۔۔ بیٹا تمہاری عادات بہت اچھی ہیں اور کم عمری میں ہی تم نے نمازوں کی پابندی شروع کر دی ہے اللہ تمہاری عمر دراز کرے۔
مہمان۔۔۔۔ ماں جی! میں کم عمر کہاں ہوں۔ اسلم بھائی اور میں، ہم دونوں زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکے ہیں جب ہم دونوں دہلی میں زیر تعلیم تھے تب ہماری عمر پچیس سال تھی۔ آدمی تیس سال کا ہو چکا ہو اور نماز و روزوں کی پابندی نہ کرتا ہو، ایسا تو ایک مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ اس عمر میں بھی وہ نمازوں کا پابند نہ بنا تو آخر کس عمر میں وہ صوم و صلاۃ کا پابند بنے گا؟ زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں، کب یہاں سے رخصت ہونا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے جتنا جلدی ممکن ہوسکے نمازوں اور روزوں کے علاوہ دوسری عبادتوں کی مکمل پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق سے دوسروں کو متاثر کرنا چاہیے۔ وہی زندہ رہنے کا مقصد و مدعا ہے۔
تین روز کے بعد جب مہمان واپس ہوا تو اگلے روز سے ہی دوست کے باپ نے نمازوں کی پابندی کی، کبھی کبھی اذانیں بھی دینے لگا اور تین مہینے بعد ہی اسے مسجد کمیٹی نے اسے خزانچی مقرر کر دیا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024