کہا جاتا ہےکہ کوئی اقوام متحدہ بھی ہے

امن عالم کے علمبرداروں نے اپنے ہونٹ سی لئے اور خاموش تماشائی

ندیم خان / بارہمولہ کشمیر

دہشت گرد اسرائیل صرف مجاہدینِ حماس کا نہیں بلکہ مکمل غزہ کا خاتمہ چاہتا ہے
ظلم تو اس دنیا میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، مگر اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ صرف ظلم نہیں بلکہ قیامت صغریٰ ہے۔ جنگوں میں ظلم کے علم برداروں نے ہمیشہ انسانیت اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی ہیں، لیکن جو صورت حال غزہ کی پٹی میں رہنے والی آبادی کو در پیش ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ جو اندھی قوتیں معصوم بچوں، ہسپتالوں میں پڑے ہوئے مریضوں اور ضعیف العمر، معذور مردو خواتین کو تک ان کے بستروں اور پناہ گاہوں میں بموں کا نشانہ بناکر نیست و نابود کر رہی ہوں، انہیں انسان ماننا کیسے ممکن ہے؟ ایسے خون خوار درندوں اور ان کی پشت پر کھڑے بے ضمیروں کو مہذب تو کیا اولاد آدم بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خود کو اعلیٰ تہذیب کا علم بردار قرار دیتے ہیں اور اندھے، بہرے لوگ تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں اسلحے کے ساتھ میڈیا کی غیر محدود قوت بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کوئی اقوام متحدہ بھی ہے، جہاں دنیا کو درپیش مسائل کا حل نکلتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو دنیا میں ہر جگہ رنگ و نسل، قومیت، مذہب اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہو کر کام کرتا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہاں سب برابر ہیں، دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانوں پر ظلم ہو یا انسان مشکلات کا شکار ہوں اقوام متحدہ فوری طور پر حرکت میں آتا ہے اور پھر مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اس ادارے میں شامل بڑے ممالک آزادی اظہار رائے، مذہبی آزادی اور انسانی جانوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان بڑے ممالک میں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں، وہاں تو جانوروں کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے، یہ ادارہ  دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور دنیا میں کہیں بھی امن خطرے میں ہو یا عالمی امن کو خطرات لاحق ہوں سب مل کر کسی بھی بڑے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جا تے ہیں۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو کہی اور سنائی جاتی ہیں لیکن جب غزہ کے موجودہ حالات  پر نظر ڈالی جاتی ہے، فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت کے مناظر سامنے آتے ہیں تو شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ نہ تو اقوام متحدہ کے کام اپنے اعلانات اور دعوؤں کے مطابق ہیں، نہ ہی عالمی طاقتوں کے فیصلوں کا معیار انسانیت کی بنیاد پر ہے۔ یہاں واضح طور پر مذہبی تقسیم ہے۔ دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے، مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی روکنے والا نہیں، نہ تو کوئی مظلوم مسلمانوں کی مدد کرتا ہے نہ ہی کوئی ظلم کرنے والوں کو روکتا ہے۔ الٹا عالمی طاقتیں مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم برداروں کا ضمیر اس وقت مر جاتا ہے جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے یا فلسطین میں ہسپتالوں پر بمباری ہوتی ہے یا فلسطین میں معصوم بچوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں یا خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اس وقت کوئی نہیں بولتا۔ اس وقت جتنا ظلم فلسطین میں ہو رہا ہے اور جنگ بندی یا انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کا مطالبہ کرنے والی قراردادوں کی عدم منظوری نے اقوام متحدہ کے اراکین میں اس تقسیم کو بے نقاب کر دیا ہے جس کے سبب یہ ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے۔ عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ کی غیر مشروط حمایت سے اسرائیل کو اپنی وحشیانہ فوجی مہم جاری رکھنے کے لیے کھلی چھوٹ مل گئی۔ سلامتی کونسل کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس نے بھاری اکثریت سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کو منظوری دی۔ صرف امریکہ اور مٹھی بھر ممالک نے ہی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اگرچہ یہ قرارداد اخلاقی اور سیاسی وزن رکھتی ہے اور اس کا مقصد اسرائیل اور اس کے حامیوں پر سفارتی دباؤ بڑھانا ہے، لیکن یہ کسی کو پابند نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرارداد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ پیش رفت امریکہ کی بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کو ظاہر کرتی ہیں کیونکہ اس کے متعدد مغربی اتحادی فوری جنگ بندی کی حمایت کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں بعض یورپی ممالک نے انسانی بحران اور فلسطینیوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے وہیں امریکہ نے اسرائیل سے بمباری بند کرنے یا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی اقدامات کے تباہ کن نتائج کا امریکہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
ایک امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسرائیل کو ایک ‘خیر خواہانہ’ مشورہ دیا ہے۔ لکھا ہے کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ علاقے میں غم و غصہ اور امریکی حکومت کی مایوسی بڑھ جائے گی۔ یعنی اس نے جو ہدف حاصل کرنا ہے ‘جلدی کر لے‘ پھر التفات دل بائیڈن رہے نہ رہے اور اسرائیل نے ہدف کا ایک حصہ تو حاصل کر ہی لیا ہے۔ اگرچہ اس کی قیمت اس کے حساب سے یقیناً زیادہ (ہمارے حساب سے بہت کم) ہے۔ اس نے غزہ شہر پر تقریباً قبضہ کر لیا ہے۔ غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور شمالی غزہ کو آبادی سے خالی کرانے میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ارادے اس کے پوری پٹی پر قبضہ کرنے کے ہیں جیسا کہ یاہو نے کہا کہ غزہ خالی رہے گا اور اس کی سیکیورٹی ہم سنبھالیں گے۔ ساتھ ہی اس نے مغربی کنارے میں بھی قتل و غارت گری بڑھا دی ہے۔ شوٹ ایٹ سائٹ کے حکم کے تحت بلا اشتعال فائرنگ سے اب تک وہ 160 سے زیادہ فلسطینی (ایک مہینہ میں) ہلاک کرچکا ہے۔ قیمت کا تخمینہ لگانا آسان نہیں کہ اسرائیل اعداد و شمار چھپا رہا ہے، لیکن کچھ باتوں کی تصدیق ادھر ادھر سے ہو گئی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کے مرکاوا ٹینک سو کی تعداد میں تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے اور اسے کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا کہ اس جیسا مضبوط اور تباہ کن ٹینک دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں ہے حتیٰ کہ امریکہ کے پاس بھی نہیں ہے۔ ایک مرکاوا ٹینک پر ساڑھے تین ملین ڈالر لاگت آتی ہے۔ انڈین کرنسی میں گویا ایک ٹینک انتیس کروڑ پندرہ لاکھ اکیس ہزار روپے کا ہوا۔ اسرائیل نے بڑی محنت سے کل سات سو مرکاوا ٹینک بنائے تھے جن میں ایک سو سے کچھ زیادہ غزہ کی اس جنگ میں تباہ ہو گئے۔ سات سو میں سے ایک سو باقی بچے چھ سو۔ مرکاوا کے علاوہ دوسرے ٹینک اور آرمر گاڑیاں جو تباہ ہو چکی ہیں ان کی تعداد بھی کم و بیش ایک سو ہے۔
اسرائیلی رویہ کچھ اور ہے اور اس کا ہدف بھی وہ اب کھلے لفظوں میں کہتا ہے کہ غزہ کی آبادی میں سے اسے کچھ زندہ نہیں چاہیے۔ جس نے زندہ رہنا ہے وہ مصر چلا جائے لیکن مصر نے تو غزہ کا ایک بھی آدمی لینے سے انکار کر دیا ہے، تو اب فائنل سلیوشن کیا ہے، یہ جاننے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ایک وزیر ایلیاہو نے کہا کہ غزہ پر ایٹم بم چلا کر یہ فائنل سلیوشن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ فلسطین کا پرچم اٹھانے والے کسی بھی شخص کو روئے ارض پر زندہ رہنے کا حق نہیں اور یہ کہ غزہ کے سبھی لوگ حماس ہیں۔ فرانس میں صیہونی یہودیوں کی ایک سپیس میں کہا گیا کہ غزہ کے تمام بچے ملبے میں دبا کر مار دیے جائیں۔وزیر اعظم نیتن یاہو کے ایک ترجمان نے اپنے ٹویٹ میں کہا جو تادمِ تحریر ڈیلیٹ بھی نہیں کیا گیا کہ غزہ کے بچوں کو ہلاک کرنا درست ہی نہیں، ہم پر فرض بھی ہے اس لیے کہ یہی بچے کل کو بڑے ہو کر حماس بن جائیں گے چنانچہ ہم بچوں کا نہیں مستقبل کی حماس کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ٹویٹ میں اس نے ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں چار پانچ ننھے منے حماس مردہ حالت میں، خون آلود جسم کے ساتھ ایک ساتھ پڑے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کو تجویز دی گئی کہ یہودیوں کا اجتماعی قتل ضرور کیا جائے لیکن بچوں کو چھوڑ دیا جائے تو تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ انہیں چھوڑا تو بڑے ہو کر یہ بدلہ لیں گے۔ اسرائیل کے اشرافیہ گھرانوں کی وہ سیلفی نما ویڈیوز بھی وائرل ہیں جن میں ان کی خواتین مرے ہوئے بچوں کو اٹھائے ماتم کرتی ہوئی فلسطینی عورتوں کی نقالی کر رہی ہیں اور پھر خود ہی ٹھٹھہ مار کر ہنستی اور ان کا مذاق اڑاتی اور خوش ہوتی ہیں۔ ان کے بچے بھی اس ناٹک میں شریک ہو کر مزاحیہ گیت گاتے اور زخمی فلسطینی بچوں کی ”نقل“ اتارتے ہیں۔ چنانچہ اسرائیلی اہداف واضح ہیں اور حتمی فیصلے میں اسی نے غالب آنا ہے۔ امریکہ کا حل اسرائیل کی ضد کے آگے ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
اب ایسی صورتحال میں کون امن کا علم بردار ہے اور کون امنِ عالم کا قاتل یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے۔
***

 

***

 اسرائیلی رویہ کچھ اور ہے اور اس کا ہدف بھی وہ اب کھلے لفظوں میں کہتا ہے کہ غزہ کی آبادی میں سے اسے کچھ زندہ نہیں چاہیے۔ جس نے زندہ رہنا ہے وہ مصر چلا جائے لیکن مصر نے تو غزہ کا ایک بھی آدمی لینے سے انکار کر دیا ہے، تو اب فائنل سلیوشن کیا ہے، یہ جاننے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ایک وزیر ایلیاہو نے کہا کہ غزہ پر ایٹم بم چلا کر یہ فائنل سلیوشن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ فلسطین کا پرچم اٹھانے والے کسی بھی شخص کو روئے ارض پر زندہ رہنے کا حق نہیں اور یہ کہ غزہ کے سبھی لوگ حماس ہیں۔
اسرائیلی وزیر ایلیاہو


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023