تحریر: عائض عودہ
ایک قیدی رہنما جس نے نہ صرف اسرائیلی تاریخ کا مطالعہ کیا بلکہ مزاحمت کے طریقے بھی وضع کیے تھے
یہ مضمون فلسطینی رہنما یحییٰ سنوار کی زندگی، جدوجہد اور شہادت پر مبنی ہے، جس میں ان کے ناول "کانٹے اور گلاب” کو بنیاد بنا کر ان کی شخصیت اور مزاحمتی کردار کو اجاگر کیا گیا ۔یحییٰ سنوار ایک انقلابی رہنما، ادیب اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کے اہم قائد تھے۔ وہ نہ صرف میدان جنگ میں سرگرم رہے بلکہ قلم کے ذریعے بھی اپنی قومی جدوجہد کو دنیا تک پہنچانے کا کارنامہ سر انجام دیا۔
غزہ پر اسرائیل-امریکہ کی نسل کش جنگ کے ایک سال بعد حماس کے رہنما یحییٰ سنوار رفح کے علاقے تل السطان میں جنگ کے دوران شہید ہوگئے۔ فلسطینیوں (اور عمومی طور پر عربوں) کے لیے وہ اصول پرست انسان تھے، جو واضح اور دلیرانہ انداز میں فلسطینیوں کے اس حق کا دفاع کرتے تھے کہ وہ اسرائیلی تسلط سے آزاد زندگی گزار سکیں۔ قومی سطح کے دیگر رہنماؤں جیسے حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصر اللہ اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور دیگر کی طرح وہ قتل نہیں کیے گئے بلکہ جنگ کے دوران شہادت پائی، وہ انجام جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سپاہیوں کی قیادت کی جنہوں نے 7 اکتوبر کو غزہ سے نکل کر قید کے ڈھانچے کو توڑا، اسرائیل کی جنوبی کمان کو غیر فعال کیا، جنگی قیدی پکڑے اور انہیں غزہ لے گئے تاکہ ان قیدیوں کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ یہ فلسطینی آزادی کی جنگ کی پہلی گونج ثابت ہوئی۔
میں نے سنوار کا دو حصوں پر مشتمل ناول "کانٹے اور گلاب” اس امید پر پڑھا کہ یہ متن غزہ کے اس غیر معمولی شخص کی کچھ جھلک پیش کرے گا، جس کی تحریک نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل-امریکہ کی نسل کشی کا مقابلہ کیا جو 14 ماہ سے جاری ہے۔ سنوار نے یہ ناول جیل میں لکھا، جب وہ 1989 میں دو اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے والے کچھ فلسطینیوں کے قتل کے الزام میں چار عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 27 سال تھی۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ آیا وہ کبھی رہا ہوں گے یا نہیں (اگرچہ انہیں یقین رہا ہوگا کہ فلسطینی مزاحمت اپنے قیدیوں کو کبھی نہیں بھولتی) اور اسی لیے انہوں نے اس ناول کے ذریعے اپنی قوم سے مخاطب ہونے کی کوشش کی۔ (جیسا کہ ہوا، وہ 2011 میں 22 سال قید کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوئے، ایک ایسا تبادلہ جس کے مذاکرات میں انہوں نے خود حصہ لیا تھا۔) یہ ناول 2004 میں مکمل ہوا، وہی سال جس میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین جو معذور اور وہیل چیئر پر تھے، شہید کیے گئے۔
آج کے قارئین کے لیے غزہ میں جاری نسل کشی ایک طرح سے اس ناول کا تسلسل محسوس ہوتی ہے، کتاب کے واقعات اور موجودہ حالات کے درمیان واضح ربط نظر آتا ہے جو ناول کی گہرائی اور اثر کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
ناول کا آغاز 1967 میں ہوتا ہے جب سنوار کا مرکزی کردار پانچ سالہ احمد، خود کو اسرائیلی قبضے کے تحت زندگی گزارتے ہوئے پاتا ہے۔ یہ کہانی 2001 یا اس کے آس پاس دوسری انتفاضہ کے دوران ختم ہوتی ہے۔ احمد اور اس کے غریب خاندان پر گزرنے والے واقعات کے ذریعے سنوار مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں جن میں سے صرف چند ایک یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں: براہ راست اسرائیلی قبضہ اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کا قیام، قید کا تجربہ، اسلامی تحریک کا عروج، آزادی کے سپاہی کا کردار اور غداروں کی لعنت۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سنوار غزہ کی نوجوان نسل کے لیے اسرائیلی تسلط کی وحشت کو ایک تاریخی ریکارڈ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی اسرائیلیوں کی نائٹ پٹرولنگ کے سایہ میں گزرتی زندگی، مردوں کی گرفتاریاں، طویل کرفیو اور 1970 کی دہائی کے آغاز میں گھروں کی بڑے پیمانے پر تباہی کا ایک لرزا دینے والا ریکارڈ ۔
غزہ ایک پناہ گزین آبادی کا مسکن تھا، جسے UNRWA کی خدمات کی ضرورت تھی تاکہ وہ زندہ رہ سکے مگر یہ مزاحمت کا مرکز بھی تھا جہاں محلوں میں اسرائیلی گشتیوں کے بغیر اطلاع داخل ہونے پر شک پیدا نہ کرنے والے بے ضرر جملے بلند کیے جاتے تھے تاکہ جنگجوؤں کو خطرے سے آگاہ کیا جا سکے۔ سنوار اس وقت ہونے والی بحثوں کا ذکر کرتے ہیں جب اسرائیل نے غزہ کے لیے اپنے مزدور بازار کو کھولا۔ لوگ اپنی آمدنی کی ضرورت کو تسلط سے کسی بھی قسم کے تعلق کے انکار کے مقابلے میں تولتے تھے؛ عملی ضروریات غالب آئیں اور جلد ہی اسرائیل میں کام کرنا معمول بن گیا۔ سنوار یہ سب کچھ کوئی اخلاقی فیصلہ دیے بغیر ہی بیان کرتے ہیں۔ برسوں بعد پی ایل او نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے اور سنوار، احمد کے خاندان میں فلسطینی اتھارٹی کے حامیوں اور اسلام پسندوں کے درمیان گرما گرم بحثوں کو بیان کرتے ہیں۔ آج غزہ اور مغربی کنارے میں جاری لڑائیاں اس شرم ناک سودے کے ناگزیر نتائج ہیں۔
اسرائیلی قید خانے مقبوضہ فلسطینیوں کی زندگیوں پر سایہ فگن ہیں۔ (1967 سے 2012 تک مقبوضہ علاقوں کی تقریباً 40 فیصد مرد آبادی اسرائیلی قید کا سامنا کر چکی ہے) سنوار قید خانوں میں استعمال کیے جانے والے اذیت کے طریقوں اور دیگر قیدیوں کو مخبر کے طور پر استعمال کرنے کے عمل کو بیان کرتے ہیں تاکہ قیدیوں کے ساتھ زیادہ آرام دہ بات چیت کے دوران معلومات حاصل کی جا سکیں۔ وہ یہ بیان اس ضرورت کی وضاحت کے طور پر کرتے ہیں کہ ہوشیار رہنا ضروری ہے اور کبھی غفلت نہ برتیں، جیسے کہ (نوجوان) قارئین کو وہ بقا کے اصول بتا رہے ہوں، جو خود کو ایسی صورت حال میں پا سکتے ہیں۔ قید خانے سیاسی تعلیم، تنظیم اور مزاحمت کے مراکز بھی ہیں، وہ مقامات جہاں رہنما تیار ہوتے ہیں۔
یحییٰ سنوار کی شخصیت اور ناول کا پس منظر
یحییٰ سنوار نے جیل میں صرف زندہ رہنے سے بڑھ کر بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور اتنی مہارت حاصل کی کہ اسرائیلی رہنماؤں کی سوانح عمریاں پڑھ سکیں اور متون کا عربی میں ترجمہ کر سکیں۔ اسرائیلی تاریخ اور سوانح عمریوں میں ان کی دل چسپی نے انہیں ان اسرائیلیوں کے لیے ایک سخت جاں حریف بنا دیا جن سے انہیں سابقہ پیش آیا۔ موجودہ نسل کشی کے سات ماہ بعد ایک اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا ’’سنوار ہمیں لیموں کی طرح نچوڑتا ہے؛ وہ اسرائیل کے سیاسی اور عسکری نقشے کو ہم سے بہتر سمجھتا ہے۔‘‘
آج اسرائیل فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کر کے اذیت گاہوں میں لے جاتا ہے، جہاں مزاحمت کی معلومات حاصل کرنا کم اہم ہے اور فلسطینی جسموں کو اذیت دینے کا ہیجان انگیز جوش زیادہ اہم۔ پہلے اسرائیلی عوام جیلوں کی حقیقت سے لا علم رہ سکتی تھی لیکن اب اسرائیلی جلاد فلسطینی جسموں پر اپنی بربریت کی لائیو اسٹریمنگ کرتے ہیں، جسے اذیت پسند اسرائیلی ناظرین مزید دیکھنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔
سنوار کا تجزیہ طالب علمانہ سرگرمیوں کا ایک منفرد اندرونی منظر پیش کرتا ہے، جہاں نوجوان مرد مسلسل خطرات سے گھرے ماحول میں اپنا سیاسی راستہ متعین کر رہے ہیں۔ جب مصر نے فلسطینی طلبہ کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تو فلسطینیوں نے غزہ میں اپنی پہلی یونیورسٹی قائم کی۔ احمد اور اس کا کزن اسی یونیورسٹی میں داخل ہوئے جو بظاہر ایک ہائی اسکول جیسی تھی اور جہاں تدریسی عملہ بھی نہایت محدود تھا۔ چند دہائیوں میں غزہ میں 17 اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہو چکے تھے مگر اپریل 2024 تک یہ تمام یا تو مکمل طور پر مٹا دیے گئے یا شدید تباہی سے دوچار ہوئے، جبکہ کم از کم 95 اساتذہ اکثر ان کے پورے خاندانوں سمیت قتل کر دیے گئے۔ اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں نسل کشی اور ماحولیاتی تباہی کے ساتھ علمی و تعلیمی قتل کو بھی شمار کریں۔
ناول میں احمد کا بھائی محمود فتح سے وابستہ ہے؛ دوسرا بھائی محمد اور احمد کا چہیتا کزن ابراہیم، اسلام پسند ہیں۔ سنوار 1970 کی دہائی میں اسلام پسندوں پر تنقید کو کھل کر بیان کرتے ہیں کہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینی عوام کا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے تھے (جس کی شناخت کے لیے ایک سخت جدوجہد کی گئی تھی) اور مسلح جدوجہد کو اپنانے میں سست تھے۔ اسرائیل نے ابتدائی طور پر ان کے منظم ہونے کو برداشت کیا، کیونکہ وہ اسلام پسند تحریک کو فلسطینی عوام کو دو متضاد کیمپوں میں تقسیم کرنے کے ایک آلے کے طور پر دیکھتا تھا۔ دوسرے حصے میں اسلام پسند اپنے ہتھیار بنانا شروع کر دیتے ہیں اور جہاں ممکن ہو، اسرائیلیوں پر حملے کرتے ہیں۔ زیادہ تر فوجیوں اور آبادکاروں پر، لیکن غیر جنگجو بھی نشانے پر ہوتے تھے۔
سنہ 2024 میں اس ناول کو پڑھتے ہوئے جب حماس کی قیادت میں فلسطینی مزاحمت سخت آزمائشوں کے باوجود اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ کے دوسرے سال میں داخل ہو چکے ہیں۔ وہ جنگ جسے امریکہ کی مالی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اس دوران 14 ماہ گزر جانے کے باوجود اسرائیل اپنے کسی ایک بھی جنگی ہدف کو حاصل نہیں کر سکا۔ تنظیم کی ارتقائی پیش رفت پر نظر ڈالیں تو حماس آج مختلف قسم کے دیسی ساختہ ہتھیاروں سے جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے جنگجو نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ آزادی کی کسی اور جدوجہد، نہ الجزائر، نہ ویتنام، نہ جنوبی افریقہ، کو اتنے کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا، جتنا فلسطینی مزاحمت کاروں کو درپیش ہے۔
اسلامی تحریک کے ارتقاء کو بیان کرتے ہوئے سنوار ایک مثالی انقلابی شخصیت کے جوہر کو احمد کے آئیڈیلز اس کے بھائیوں اور چچا زاد ابراہیم کی شخصیت میں مجسم کرتے ہیں۔ تقویٰ اس کردار کی اصل بنیاد ہے جس کے ساتھ ایثار، نظم و ضبط اور زہد بھی لازمی صفات ہیں۔ قیادت کے متمنی شخص کے لیے گہری سنجیدگی، عمدہ سماعت اور بہترین مذاکراتی صلاحیتیں ضروری ہیں۔ دیانت داری اور غیر متزلزل اخلاقی اصول اس کی شخصیت کے بنیادی ستون ہیں۔ ابتدا میں یہ تصویر کشی مجھے کسی حد تک آئیڈیل محسوس ہوئی مگر گہرے غور و فکر کے بعد احساس ہوا کہ آج کے مجاہدین نہ صرف اپنی مہارت اور عزم کا عملی ثبوت پیش کر رہے ہیں بلکہ ایک ایسے ضابطہ اخلاق کی پاسداری بھی کر رہے ہیں جس سے ان کے دشمن ناواقف ہیں۔
مغربی رہنما، ماہرین اور کارپوریٹ میڈیا فلسطینی مزاحمت کرنے والوں کو بدنام کرتے ہیں، لیکن ’’حماس کی دہشت گردی‘‘ کے سرکاری بیانیے میں بیان کردہ کئی تفصیلات اسرائیلیوں کے بیانات خود مزاحمت کرنے والوں کی ویڈیوز سے متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر ابتدائی تبادلے میں رہا ہونے والے کچھ اسرائیلی قیدیوں نے اپنے محافظوں کے بارے میں مثبت باتیں کہیں کہ شدید بمباری کے دوران انہیں تحفظ دیا گیا، انسانی سلوک کیا گیا اور جو کچھ ان کے محافظوں کے پاس موجود تھا وہ انہیں کھلایا گیا۔ جب انہیں ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا تو وہ نسبتاً پُرسکون نظر آئے، کم از کم ان فلسطینی قیدیوں کے مقابلے میں جو جیل سے رہا ہونے کے بعد صاف ظاہر کرتے تھے کہ انہوں نے وزن کم کیا ہے اور اپنے ساتھی قیدیوں کی اذیت ناک حالت پر فکر مند تھے۔
مجاہدین کی اصولی مزاحمت کی ایک اور مثال: مزاحمتی گروپوں کی جاری کردہ ویڈیوز میں ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں، جن میں زخمی اور ہلاک شدہ اسرائیلی فوجیوں کے طبی انخلا کے مناظر بھی شامل ہیں۔ (یہ مزاحمتی ویڈیوز’ الیکٹرانک انتفاضہ‘ کے ہفتہ وار ویب کاسٹ میں دکھائی دیں اور زیر بحث لائی جاتی ہیں۔)
مجاہدین کبھی بھی انخلا میں رکاوٹ نہیں ڈالتے، حالانکہ ان کے نشانے پر موجود اسرائیلی فوجی ان کی براہِ راست نظر میں ہوتے ہیں۔ یہ حقیقتاً غیر معمولی بات ہے، خاص طور پر جب اسے اسرائیلی فوجیوں کے وحشیانہ طرزِ عمل سے موازنہ کیا جائے جو مریضوں کو قتل کرتے ہیں، بچوں کے سروں میں گولیاں مارتے ہیں، ہسپتالوں پر بمباری کرتے ہیں اور سڑکوں سے اغوا کیے گئے مرد و خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔
ناول میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے والے فلسطینیوں کا ذکر بار بار آتا ہے۔ سنوار نے دکھایا کہ جب اسرائیلی حکام کے ساتھ تعاون کا ثبوت ملتا ہے تو معاشرتی بحران پیدا ہوتا ہے: ایسے افراد کو آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ وہ نہ صرف مزاحمت بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ناول میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ افراد اکثر بے بس فلسطینی ہوتے ہیں جنہیں حرکت کے اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی ہے یا جو کسی اخلاقی لغزش کا شکار ہو کر بلیک میلنگ کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آج مزاحمت کرنے والوں کے لیے خطرہ ایسے ادارے سے ہے جو اسرائیلی قبضے کو سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ فلسطینی اس وقت غصے سے بھر جاتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی (PA) کے اہلکار ان ہی مہاجر کیمپوں پر چھاپے مارتے ہیں جہاں کے مجاہدین نے اسرائیلی فوجی حملوں کو ناکام بنایا تھا۔
یحییٰ سنوار کو نہ صرف ان کی زندگی اور ان کے قیادت کردہ مزاحمتی تحریک کے لیے یاد رکھا جائے گا بلکہ ان کی موت کے طریقے کے لیے بھی۔ وہ لڑائی کے دوران شہید ہوئے، ان کا سر کفایہ سے ڈھکا ہوا تھا تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے (ممکنہ طور پر وہ زندہ گرفتار ہونے سے بچنا چاہتے تھے)۔ ایک اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں شہید ہوئے جس نے انہیں پہچانا نہیں، ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جائی گئی اور اسرائیلیوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ یہ تفصیل ان کی شخصیت کو واضح کرتی ہے: وہ شخص جس نے اپنے مجاہدین کی طرح سختیوں کو جھیلا، اپنے ناول میں اپنی قوم کے دکھوں کو بیان کیا اور ایک بے رحم نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔
***
***
یحییٰ سنوار کو نہ صرف ان کی زندگی اور ان کے قیادت کردہ مزاحمتی تحریک کے لیے یاد رکھا جائے گا بلکہ ان کی موت کے طریقے کے لیے بھی۔ وہ لڑائی کے دوران شہید ہوئے، ان کا سر کفایہ سے ڈھکا ہوا تھا تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے (ممکنہ طور پر وہ زندہ گرفتار ہونے سے بچنا چاہتے تھے)۔ ایک اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں شہید ہوئے جس نے انہیں پہچانا نہیں، ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جائی گئی اور اسرائیلیوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ یہ تفصیل ان کی شخصیت کو واضح کرتی ہے: وہ شخص جس نے اپنے مجاہدین کی طرح سختیوں کو جھیلا، اپنے ناول میں اپنی قوم کے دکھوں کو بیان کیا اور ایک بے رحم نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025