!کاموں کے بوجھ تلے پِسی جارہی ہے بنت حوّا ۔۔
ملازمت کرنے والی خواتین کو گھراور دفترکےدرمیان توازن قائم رکھنے کا چیلنج درپیش
نوراللہ جاوید، کولکاتا
کام کے بوجھ کی وجہ سے پونے کی ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی موت سماج کے لیے لمحہ فکریہ
9اگست کو آرجی کارمیڈیکل کالج و اسپتال میں ایک جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے دردناک واقعے نے پورے ملک کو صدمے میں پہنچادیا ،ملک بھر میں احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ دراز ہوگیا یہاں تک کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا۔اسی درمیان ملیالم فلم انڈسٹری میں خاتون اداکاروں کے ساتھ جنسی زیادتی کی شکایات سامنے آنے لگیں اور تین سال قبل تشکیل دی گئی کوہیما کمیشن کی رپورٹ بھی منظر عام پر آئی جس نے نہ صرف ملیالم فلم انڈسٹری کے سیاہ چہرے کو بےنقاب کیا بلکہ شوبز کی دنیا کی اصل حقیقت کوہمارے سامنے پیش کردیا۔دیگر فلم انڈسٹری (تیلگو، تمل، بنگلہ) سے وابستہ خواتین بھی اس طرح کے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرنے لگیں ۔یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شوبز کی دنیا سے متعلق اس طرح کی خبریں آئی ہیں بلکہ بالی ووڈ میں بھی جو ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے، خواتین محفوظ نہیں ہے اور اب پونے کی ایک کارپوریٹ کمپنی ای وائی(EY) سے وابستہ ایک خاتون چارڈر اکاؤنٹنٹ کی کاموں کے بوجھ کی وجہ سے موت کامعاملہ سامنے آیا ہے۔اگرچہ یہ تین مختلف واقعات ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق اور رابطہ ظاہری طور پر نظر نہیں آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات خواتین کی جنسی، جسمانی، ذہنی اور معاشی استحصال کے تسلسل کا ایک حصہ ہیں۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ نام نہاد روشن خیالی، آزادی اور مساوات کے نعروں کے علم بردار خواتین کو سیکیورٹی اور ذہنی و جسمانی تحفظ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ماضی میں خواتین جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے استحصال کی شکار تھیں تو آج بھی خواتین جدیدیت اور نیو لبرل معاشی نظام کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس نظام کو خود خواتین نے شوق و ذوق کے ساتھ قبول کیا تھا اور اس کو اپنی ترقی کا معراج سمجھا تھا۔
عمومی طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ دیہی علاقے، پسماندہ طبقات اور کم تعلیم یافتہ خواتین سب سے زیادہ استحصال کی شکار ہوتی ہیں مگر مذکورہ بالا واقعات ترقی یافتہ سماج، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شہری علاقوں میں پیش آئے ہیں۔ اس لیے ان کی گونج بہت دور اور کافی دیر تک سنی جا رہی ہے۔قومی میڈیا سے لے کر سماج کے اعلیٰ طبقات تک یہ واقعات موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ ان واقعات نے تین اہم بنیادی سوالات ہمارے سامنے کھڑے کر دیے ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ ہے کہ ترقی اور مساوات کے خوش کن نعروں کے باوجود کام کی جگہوں پر خواتین کی سیکیورٹی کا مکمل بندوبست نہیں ہے۔ آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال کا واقعہ اور دہرادون کے ایک اسپتال کی نرس کی عصمت دری اور قتل کا واقعہ جو سوئے اتفاق سے مسلم تھیں اس لیے سرخیوں میں نہیں آسکیں اس کا بین ثبوت ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جدید معاشی نظام کے علم برداروں نے اپنی مفاد پرستی کی خاطر خواتین کو ’’سامان جنس‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ پیداوار میں اضافہ اور اس کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کو ہیجان انگیز شے کے طورپر پیش کرکے مردوں کے ذہن و دماغ پر شہوت اور عورت کو مسلط کر دیا اور اس کی قیمت آج وہ جنسی زیادتی کے طور پر برداشت کررہی ہیں۔ ’نفع بخش کاروبار‘ سے متعلق ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار ماڈل گرل کا کاروبار ہے۔ اس لیے کہ ایک ماڈل گرل مصنوعات کے اشتہارات پر اپنی عریاں تصویر دینے کے لیے صرف ایک دن کے 25 ملین ڈالر وصول کرتی ہے۔ آج خواتین ایک بکاؤ مال بن چکی ہے اور سرمایہ دار اس کو جس طرح چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔ دکانوں اور ہوٹلوں کے کاؤنٹروں پر، دفتروں کی میزوں پر، اخبارات واشتہارات کے صفحات پر اس کے حسن کو سربازار رسوا کیا جا رہا ہے اور گاہکوں کو اس کے ذریعہ دعوت دی جا رہی ہے کہ آؤ! اور ہم سے مال خریدو، یہاں تک کہ وہ عورت بھی جس کے سر پر فطرت نے عزت وآبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت وعصمت کے ہار ڈالے تھے، دکان کی زینت بڑھانے کے لیے ایک شوکیس اور مرد کی تھکاوٹ دور کرنے کیے لیے سامان تفریح بن کر رہ گئی ہے۔اس کی وجہ سے خواتین کو ہر جگہ جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تیسرا یہ ہے کہ مساوات اور جدیدیت کے خوش کن اور فریب زدہ نعروں کے علم برداروں نے عورتوں کا معاشی اعتبار سے بھی استحصال کیا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور تنخواہیں مردوں سے کم دی جاتی ہیں۔ خواتین کی طبعی ضرورتوں اور تقاضوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ پونے میں ارنسٹ اینڈ ینگ (EY) کارپوریٹ کمپنی میں کام کرنے والی 26 سالہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (CA) انا سیباسٹین پیرائیل کی موت نے پروفیشنل خواتین کو درپیش کام کے شدید دباؤ کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ انا سیباسٹین پیرائیل کی والدہ، انیتا آگستین نے EY کے چیئرمین راجیو میمانی کو لکھے گئے ایک خط میں اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار کام کے دباؤ کو قرار دیا ہے جس میں سخت ڈیڈ لائن کی وجہ سے دفتروں میں کام کرنے کے باوجود گھروں پر بھی دفتری کام کاج کو انجام دینا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کام کرنے والی خواتین کو صرف چھ تا سات گھنٹے آرام کرنے کا موقع ملتا ہے ۔دفتری کام انجام دینے کے بعد گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔بچوں کی نگرانی، ان کی ضرورتوں کی تکمیل اور دیگر یومیہ گھریلو کام کاج انجام دینے پڑتے ہیں اور دفتر اور گھر کے درمیان توازن قائم کرنے کا دباو، بچوں کو وقت نہیں دینے کا شکوہ خواتین کو ذہنی طور پر ہمہ وقت پریشان کرتا رہتا ہے۔
آرجی کار میڈیکل کالج کی جس خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا ہے اس دن وہ لگاتار 30 گھنٹوں سے بھی زائد وقت سےکام کررہی تھی۔چناں چہ تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے کے لیے اس نے سیمینار روم میں گئی جہاں تنہائی تھی وہاں اس کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ ابتدا میں خاتون ڈاکٹر پر ہی سوال کھڑا کیا گیا کہ وہ سیمینار روم میں کیوں گئی؟ حالانکہ کہ ملک میں آج بھی اکثر اسپتالوں میں خواتین کے آرام کرنے کے لیے علیحدہ کمرے نہیں ہیں، علیحدہ بیت الخلا اور غسل خانہ نہیں ہے۔ گرچہ یہ تینوں سوالات کافی اہم ہیں اور ہر ایک سوال پر طویل بحث کی جا سکتی ہے۔ دعوت کے انہی صفحات میں ہم پہلے دو ایشوز میں کئی مرتبہ تفصیلی بات کرچکے ہیں۔آج ہم خواتین پر کام کے بوجھ سے متعلق بات کریں گے۔ کاموں کے بوجھ کی وجہ سے خواتین کو کس طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پروفیشنل خواتین کیا گھر اور دفتر کے درمیان توازن قائم کرپاتی ہیں؟ ای وائی کمپنی سے وابستہ خاتون چارڈر اکاؤنٹنٹ کی موت کے بعد جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں وہ کئی اہم سوالات کھڑے کرتے ہیں۔
دراصل یہ بہت ہی بڑا مغالطہ ہے کہ 18ویں صدی میں مشینوں کی ایجادات اور صنعتی ترقی سے قبل خواتین گھروں میں قید تھیں اور پدر شاہی نظام کی زیادتیوں کا سامنا کررہی تھیں، خواتین ہر طرح کے حقوق سے محروم تھیں، ان کی معاشی شمولیت صفر تھی اور اس کے رد عمل دو طرح کے جوابات کے سامنے آتے ہیں۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو مکمل طور پر خواتین کو گھروں تک محدود کرنے کی وکالت کرتا ہے اور اس کے لیے قرآن و حدیث کے حوالہ جات پیش کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ معذرت خوانہ انداز میں نیولبرل معاشی نظام کی مدح سرائی کرتے ہوئے دفاع کرنے لگتا ہے۔یہ دونوں ہی طبقات اس حقیقت کو فراموش کرجاتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون حضرت خدیجہؓ بہت بڑی تاجر تھیں اور وہ شراکت داری کے ذریعہ مالِ تجارت بیرون مکہ ایکسپورٹ اور امپورٹ بھی کرتی تھیں ۔محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کے نکاح میں آنے سے قبل دونوں کے درمیان تجارتی شراکت داری ہوئی تھی اور آپ کی صداقت، امانت داری سے متاثر ہوئیں اور پھر آپ کے نکاح میں آئیں۔ اگر سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی اور صحابیات بھی کاروبار سے منسلک تھیں۔
بلاشبہ مشینوں کی ایجاد کے بعد 18ویں صدی میں صنعتی انقلاب رونما ہونے کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں اور جاگیرداری نظام کی جگہ سرمایہ داری نظام نےجگہ لے لی ہے۔ شہروں میں بڑے بڑے کارخانے کھلنے لگے۔ دیہی آبادی جو ترقی اور روزگار کے مواقع سے محروم تھی اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ظلم و زیادتی کا شکار تھی بہتر زندگی اور روشن مستقبل کے لیے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے لگی جس کی وجہ سے شہروں میں آبادی کا بوجھ بڑھتا چلا گیا، نتیجے میں شہروں کی زندگی مشکل اور مہنگائی کی شکار ہوگئی۔ سہولیات اور پرتعیش زندگی کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت کی فراوانی ایک ضرورت بن گئی۔اس کے بغیر شہروں میں زندگی گزارنا مشکل ہوگیا۔ معیارِ زندگی بھی بلند ہونے لگا اور ہر شخص کو سوسائٹی میں اپنا وقار باقی رکھنے کے لیے کافی سرمایہ کی ضرورت پیش آئی، چنانچہ پیسہ کمانے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی، وقت کی رفتار کے ساتھ طرزِ بود و باش بدلتا رہا، ضروریاتِ زندگی بڑھتی ہی چلی گئیں، اس لیے حصولِ زر کی دوڑ شدید تر ہوتی گئی۔ اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے مساوات کا نعرہ گڑھا گیا اور خواتین پر گھر کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے ساتھ ساتھ دولت کمانے کی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی۔اس کے دو بڑے مقاصد تھے۔ حصولِ زر کی مشکلات ختم ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہر قدم پر ساتھ رہنے سے اس نفسانی جذبے کی تسکین ہو جو مرد کے رگ وپے میں پیوست ہے۔ انسانیت سوز خود غرضی کی شکار نیولبرل معاشی نظام نے کبھی اس سوال پر غور ہی نہیں کیا کہ صنف نازک روپیہ کمانے اور گھر کا انتظام کرنے کے دونوں کام کس طرح کرے گی؟ گھروں کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے کیا کیا مشکلات پیش آئیں گی اور خاندانی نظام کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا؟ ان تمام سوالوں کو آزاد خیالی، پر فریب اور دلکش نعروں پر مبنی ’’تحریک آزادی نسواں‘‘ کے نام پر نظر انداز کر دیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ خواتین کو گھر کی چار دیواری میں محصور رکھنا اس پر ظلم ہے، مرتبہ ومقام کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے، اسے مردوں کے دوش بدوش ہر کام میں حصہ لینا چاہیے، حصولِ معاش کے معاملہ میں اسے مرد کا محتاج ہونے کی بجائے مستقل بالذات ہونا چاہیے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے اعداد و شمار انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) مواصلات اور تکنیکی پیشوں جیسے شعبوں میں خواتین کو درپیش اوقات کار کی ایک سنگین تصویر پیش کرتے ہیں۔ آئی ٹی اور صحافت کے کرداروں میں ہندوستانی خواتین ہفتے میں اوسطاً 56.5 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ پانچ دن کے کام کے ہفتے میں دن میں 11 گھنٹے سے زیادہ یا چھ دن کے ہفتے میں روزانہ 9 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ اسی طرح انا سیباسٹین کی طرح پیشہ ورانہ اور تکنیکی ملازمتوں میں خواتین، ہفتے میں 53.2 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ نوجوان خواتین پیشہ ور افراد کے لیے صورت حال اور بھی بدتر ہے۔ آئی ٹی اور میڈیا کے کرداروں میں 15-24 سال کی عمر کی خواتین ہفتہ وار اوسطاً 57 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ جبکہ تکنیکی پیشوں میں 55 گھنٹے کام کرتی ہیں جو کہ تمام عمر کے گروپوں میں سب سے زیادہ ہے۔ تکنیکی اور مواصلاتی شعبوں میں ہندوستانی خواتین عالمی سطح پر سب سے طویل کام کے اوقات برداشت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی کے آئی ٹی اور میڈیا کے شعبوں میں خواتین اوسطاً 32 گھنٹے فی ہفتہ کام کرتی ہیں، جب کہ روس میں اسی طرح کے شعبوں میں خواتین 40 گھنٹے کام کرتی ہیں۔بلیو کالر ورکرز کے لیے ایک پلیٹ فارم بیٹر پلیس کے مطابق گیگ اکانومی بھارت میں 1.4 ملین سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتی ہے، بشمول ڈیلیوری اسٹاف، ڈرائیور، بیوٹیشن اور دیکھ بھال کرنے والے کارکن۔ Uber، Ola، Swiggy اور Zomato جیسی کمپنیوں میں گیگ ورک اپنے ڈرائیوروں اور ڈیلیوری اہلکاروں کو مختصر مدت کے معاہدوں یا فری لانسنگ کا اختیار فراہم کرتا ہے۔اس شعبے میں بڑی تعداد میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس سخت جان کام میں خواتین کو مرد ہم منصبوں سے کم تنخواہ ملتی ہے۔ ٹیم لیز کے مطابق مرد اور خواتین ڈیلیوری ایگزیکٹوز کے درمیان تنخواہ میں 8 سے 10 فیصد کا فرق ہے، جو 15ہزار سے 30ہزار روپے ماہانہ کے درمیان ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 60 فیصد ملازمتیں فوڈ ٹیک، 30 فیصد ای کامرس اور کورئیر سروسز میں اور 10فیصد ہائپر لوکل ڈیلیوری میں ہیں۔تنخواہوں میں تفاوت کے علاوہ، ٹمٹم معیشت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کے باوجود، صنفی بنیاد پر امتیاز، بے ضابطہ صارفین، کمپنی کی پالیسیوں میں اچانک تبدیلی، ملازمت میں عدم تحفظ اور تحفظ کے مسائل خواتین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ خواتین کارکنوں کو صنفی عدم مساوات کے ساتھ گاہکوں کے ساتھ بیرونی دنیا میں جنسی پرستی اور صنفی دقیانوسی تصورات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خواتین کیب ڈرائیورز ان نقصانات کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کے علاوہ، خواتین گیگ ورکرز بیت الخلاء تک رسائی کی کمی کے مسئلے سے بھی دوچار ہیں۔ خواتین گیگ ورکرز، ڈیلیوری پارٹنرز یا کیب ڈرائیوروں کے لیے بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ گیگ اکانومی کی مارکیٹ کارکنان بنیادی حقوق سے محروم کرتی ہے۔ سنٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی کی ایک محقق چیارا فرٹاڈو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چونکہ خواتین فوڈ ڈیلیوری اور کیب ہیلنگ انڈسٹری کے شعبوں میں افرادی قوت کا صرف 0.5 اور ایک فیصد ہیں، اس لیے ورکروں کے لیے معیاری پالیسیاں جنس پر مبنی ہوتی ہیں۔ الگورتھم کام کے لمبے گھنٹے، دیر سے شفٹیں، کام کے اوقات اور لگاتار سواریوں کی ترغیب دیتا ہے، جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ثابت کرتے ہیں۔
ایک حالیہ مطالعہ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں کام کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد طویل عرصے سےاپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ تناؤ محسوس کر رہی ہیں۔ دماغی صحت کے پلیٹ فارم YourDost کی ایک تازہ ترین رپورٹ، جس کا عنوان ہے ’’ملازمین کی جذباتی تندرستی کی حالت‘‘ 50,00 سے زائد پیشہ ور افراد کا سروے کیا گیا جو کام کی جگہ کے تناؤ کے بارے میں کچھ آنکھیں کھولنے والے حقائق پیش کرتے ہیں۔تقریباً تین چوتھائی (72.2فیصد) خواتین جواب دہندگان نے بلند سطح پر تناؤ کا سامنا کرنے کی اطلاع دی، جو 53.64 فیصد مردوں کے بالکل برعکس ہے جنہوں نے ایسا محسوس کیا۔ خواتین کو کام اور زندگی میں توازن حاصل کرنے میں بھی بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، 12 فیصد مردوں کے مقابلے میں 18 فیصد کو ذاتی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔کام اور زندگی میں توازن کا فقدان خواتین کے لیے ایک بڑا تناؤ ہے، جس میں ناکافی شناخت، کم حوصلے، اور مستقل خوف جیسے مسائل شامل ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ 20 فیصد خواتین نے ہمیشہ مایوسی محسوس کی ہے جب کہ صرف 9 .27 فیصد مردوں نے اسی جذبات کا اظہار کیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ تناؤ کا شکار 21 سے 30 سال کے درمیان کے عمر کے گروپ نے محسوس کیا ہے ۔31 سے 40 سال کی عمر کے درمیان کے 59.81فیصد ملازمین نے تناؤ محسوس کیا ہے۔ انا کی موت اسی بڑھتے ہوئے ذہنی اور جسمانی تناؤ کا نتیجہ ہے۔ انا کے آخری رسومات میں کمپنی کے نمائندے کی عدم شرکت بھی کارپوریٹ کمپنیوں کی سنگ دلی کا اظہار کرتی ہے۔
خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم وستم کو عموماً روایتی معاشرے کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمہ دار اکیلا روایتی معاشرہ نہیں ہے بلکہ جدید لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام ہے اور بدقسمتی سے ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ دراصل مساوات کے جھوٹے نعرے نے خواتین اور مرد کے کام کے درمیان موجود طبیعاتی فرق کے احساس کو ختم کردیا ہے۔ آزادیٔ نسواں کے علم بردار یہ کہتے تھے کہ عورت اور مرد کا فرق محض سماجی حالات کی پیداوار ہے، مگر موجودہ زمانہ میں مختلف شعبوں میں اس مسئلہ کا جو گہرا مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صنفی فرق کے پیچھے حیاتیاتی عوامل (Biological Factores) کار فرما ہیں۔المیہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن جس نے سب سے زیادہ آزادی نسواں کا نعرہ بلند کیا وہاں سے بھی یہ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں کہ مردو خواتین میں فرق طبعیاتی ہے اس لیے سماجی مساوات سے زیادہ اس وقت دونوں کی اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے انصاف اور تقسیمِ کار کی ضررورت ہے تاکہ دنیا میں فطری طور پر توازن اور اعتدال کے ساتھ کام چلتا رہے۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الکسس کیرل (پیدائش :1873-1944) مذکورہ موضوع پر حیاتیاتی تفصیلات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مرد اور عورت کے درمیان جو فرق پائے جاتے ہیں وہ محض جنسی اعضاء کی خاص شکل، رحم کی موجودگی، حمل یا طریقۂ تعلیم کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے زیادہ بنیادی نوعیت کے ہیں، وہ خود نسیجوں کے بناوٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور پورے نظام جسمانی میں خصوصاً کیمیائی مادے کے سرایت کرنے سے ہوتے ہیں، جو کہ خصیۃ الرحم سے نکلتے ہیں۔ ان بنیادی حقیقتوں سے بے خبری نے ترقی نسواں کے حامیوں کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں صنفوں کے لیے ایک طرح کی تعلیم ایک طرح کے اختیارات اور ایک طرح کی ذمہ داریاں ہونی چاہئیں، باعتبارِ حقیقت عورت نہایت گہرے طور پر مرد سے مختلف ہے۔ عورت کے جسم کے ہر خلیے میں زنانہ پن ہوتا ہے، یہی بات اس کے تمام اعضاء کے بارے میں بھی درست ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے اعصابی نظام کے بارے میں عضویاتی قوانین بھی اتنا ہی اٹل ہیں جتنا کہ فلکیاتی قوانین اٹل ہیں، ان کو انسانی خواہشوں کے مطابق بدلا نہیں جا سکتا‘‘۔
نیو لبرل معاشی نظام میں دولت کا حصول اور اس کی ملکیت ہی بنیادی مقاصد میں شامل ہیں۔ اس کے لیے کسی بھی قسم کے استحصالی جذبے کو اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، چنانچہ اسی خود غرضانہ ذہنیت نے طبیعیاتی فرق کو ختم کرکے خواتین کو آزادی دلفریب نعروں کے ذریعے مشق ستم بنا دیا ہے۔ چونکہ خواتین نے اپنی فطرت کے تقاضوں کے برخلاف مساوات کے جھوٹے نعروں کے فریب میں آ کر اپنی توجہ کا مرکز گھر کے بجائے دفتر کو بنالیا ہے اس لیے انہیں کئی سماجی اور معاشرتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاندانی نظام مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے والدین کے عدم توجہی کی وجہ سے بچے تنہائی پسند، خود غرض اور سماج سے مکمل طور پر علیحدہ ہوچکے ہیں۔ ان بچوں میں ملک اور قوم کے تئیں ذمہ داری اور سماجی مسائل کا بالکل ادارک نہیں ہوتا، وہ بھیڑمیں رہ کر بھی تنہا رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی بچے ذہنی مریض اور ڈپریشن کا شکار ہیں۔ سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف کی مشہور زمانہ کتاب ’’پرسترائیکا‘‘میں ’’Status Of Women ‘‘کے نام سے ایک باب قائم کیا گیا ہے، اس میں اس نے صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے کہ: ’’ہماری یورپ کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا جس کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں کچھ اضافہ بھی ہوا لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، وہ نقصانات ان فوائد سے زیادہ ہیں جو پیداوار (پروڈکشن) کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے، لہٰذا میں اپنے ملک میں ’’پریسترائیکا‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں، اس میں میرا ایک بڑا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے اس کو گھر میں واپس لایا جائے۔ اس کے لیے طریقے سوچنے پڑیں گے، ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے، اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہو جائے گی‘‘
***
***
آر جی کار میڈیکل کالج و اسپتال میں ایک جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل واقعے کے بعد ملیالم فلم انڈسٹری میں بھی خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ یہ واقعات ترقی، آزادی اور مساوات کے نعروں کے باوجود کام کی جگہوں پر خواتین کی سیکیورٹی کی عدم دستیابی، ان کے ساتھ ’سامان جنس‘ جیسے برتاو اور تسلسل کے ساتھ روا رکھے گئے معاشی استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ نئی لبرل معاشی نظام کے نتیجے میں خواتین کو تنخواہوں میں تفاوت اور استحصال کا بھی سامنا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024