ابو فہد ندوی
جب بھی کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کی خبر آتی ہے تو اس خبر سے کم وبیش ہر مسلمان کو خوشی ملتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے اور یہ ہر طرح سے درست بھی ہے۔ دوسرے مذاہب خاص کر عیسائی اور بودھ مذہب کو ماننے والوں کے جذبات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔
مگر یہاں بہت ہی قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے اعمال کی بدولت دوسروں کے لیے اسلام قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دل سے تو ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام قبول کریں مگر عملا ًہم نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور وہ رکاوٹیں یہ ہیں کہ ہم گھر اور خاندان سے لے کر آفس اور بازاروں تک بلکہ دینی اداروں، جماعتوں اور سیادت وقیادت کے میدانوں تک جہاں بھی ہیں ایک دوسرے کے حقوق پامال کر رہے ہیں، نہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔ ہم دوسروں کو کم سے کم دینا چاہتے ہیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ لینا چاہتے ہیں، چاہے وہ اجرت ہو یا پھر محنت ہو۔ یعنی یا تو کم اجرت پر زیادہ محنت یا پھر کم محنت پر زیادہ اجرت۔
کیا ہم کبھی اس پہلو سے سوچتے ہیں کہ ہمارے اخلاق و کردار، ہمارے گھروں اور آفسوں کا ماحول اور ہمارے اداروں کے حالات جس قدر شفاف ہوں گے اور ماحول دوست ہوں گے غیر مسلم اسی قدر متاثر ہوں گے اور توقع ہے کہ اسلام بھی قبول کریں گے۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گھر، محلّوں، آفسوں اور تنظیم وجماعتوں کو اس نقطہ نظر سے سنوارنے اور بنانے کی کوشش کی ہے؟ کیا کبھی ہم نے یہ سوچ کر ان مقامات پر کام کیا ہے؟ کیا اس طرح لوگوں کا ذہن بنایا ہے۔ اور کیا لوگوں کو بتایا ہے کہ ہمارے گھروں میں ہمارے بچے جتنے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے، ہمارے گھروں میں ہماری بہو بیٹیوں اور والدین کو جتنی زیادہ عزت ملے گی، آزادانہ ماحول ملے گا اور وہ جتنی زیادہ خوش وخرم زندگی گزار رہے ہوں گے، اسی طرح ہمارے محلے جتنے زیادہ صاف ستھرے ہوں گے، ماحول دوست ہوں گے، دکانوں، مکانوں، آفسوں اور بازاروں میں امیر و غریب اور مختلف برادریوں کے درمیان برابری اور مساوات کا جتنا زیادہ وہی ماحول ہوگا جو جمعہ وعیدین کی نمازوں کے وقت مسجدوں اور عیدگاہوں میں نظر آتا ہے، نیز ہمارے آفسوں اور اداروں میں ہونے والے معاملات میں جتنی زیادہ شفافیت ہوگی، ملازموں کے ساتھ جتنا زیادہ بہتر سلوک ہوگا اور ان کے کام کا جتنا زیادہ بہتر معاوضہ انہیں دیا جائے گا اور وہ جتنی زیادہ آزادی وخوشی کی زندگی گزار رہے ہوں گے، غیر مسلموں کو ہمارے گھر، دکانیں، آفس، محلے، ادارے اور تنظیمیں اور پھر سب سے بڑھ کر مسلم ممالک اور ان کی حکومتیں، اتنی ہی زیادہ متاثر کرنے والی ہوں گی۔ اور جب متاثر کرنے والی ہوں گی تو یقینا ان کے لیے قبول اسلام میں معاون بھی ثابت ہوں گی۔
پھر وہ دو طرفہ متاثر ہوں گے۔ ایک طرف وہ اسلام کا مطالعہ کریں گے تو اس کی تعلیمات سے متاثر ہوں گے اور دوسری طرف اپنے مسلمان دوستوں، پڑوسیوں اور مسلم بستیوں اور مسلم ممالک میں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو دیکھیں گے، امن وامان کی صورت حال کو دیکھیں گے، ایک دوسرے کا احترام دیکھیں گے، بول چال اور رہن سہن میں شائستگی اور وقار دیکھیں گے،نعلوم وفنون حاصل کرنے کے لیے ان کی لگن اور ذوق و شوق دیکھیں گے، مسلم جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور مسلم حکومتوں میں ان کے قیام، انتظام و اہتمام اور انتخابات میں جمہوری اور مشاورتی طریقہ کار کو دیکھیں گے، ان سے وابستہ امیر و غریب کے مابین مساوات کو دیکھیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ مسلم حکمراں ڈالر اور ریال کے پیچھے نہیں بھاگ رہے ہیں بلکہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ سیادت و قیادت ان کے لیے روپیہ پیسہ اور نام ونمود کمانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ امت کو اور ملک کو آگے بڑھانے اور لوگوں کے علم و اخلاق کی سطح بلند کرنے کے لیے سیادت وقیادت کے میدان میں ہیں۔ ان کے اخلاق اس قدر کریمانہ ہیں اور ان کے اندر اس قدر عاجزی و انکساری ہے کہ اگر قوم متفقہ فیصلے سے ان کو دستبردار کر دے تو وہ بخوشی اپنے عہدے اور منصب کو چھوڑ دیں گے۔ نہ منصب اور عہدہ پانے کے لیے انہوں نے ناجائز اور من مانے طریقے پر دوڑ دھوپ کی تھی اور نہ ہی وہ تا عمر منصب پر بنے رہنے کے لیے جدوجہد، اٹھا پٹخ اور جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اور جب وہ یہ سب دیکھیں گے اور ہر سطح پر دیکھیں گے، ایک نوکر اور ملازم کے اخلاق وکردار کو دیکھیں گے اور ایک مالک اورحاکم وناظم کے برتاو کو دیکھیں گے تو پھر وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے۔ اور جب متاثر ہوں گے تو جلد یا بدیر اسلام کی آغوش میں پناہ لیے بغیر بھی نہیں رہیں گے۔
اگر مسلم سوسائٹی میں اس طرح کا ماحول پیدا ہو جائے تو پھر ہمیں کسی کو بتانے اور سمجھانے کی بہت زیادہ ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کہ اسلام یہ کہتا ہے اور دین یہ سکھاتا ہے۔ اسلام امن وشانتی کا مذہب ہے اور اسلام عدم مساوات کے خلاف ہے۔ اسلام میں چھوٹوں اور بڑوں کے حقوق متعین ہیں، بیوی کے بھی اور شوہر کے بھی، والد کے بھی اور اولاد کے بھی، اساتذہ کے بھی اور طلبہ کے بھی۔ اسی طرح آقا کے بھی اور ملازم کے بھی۔
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارے اس طرح کے ایک ہی عمل سے ہمیں کئی طرح کے فوائد حاصل ہوں گے، ایک تو ہمارے گھر محلے اور ادارے درست ہوں گے، دوسرے ہم تعمیر وترقی کی طرف آگے بڑھیں گے، تیسرے ہم اور ہمارے ادارے اور ہماری بستیاں غیر مسلموں کے لیے پرکشش بنیں گی، چوتھے غیر مسلموں کے دل اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے صاف ہوں گے اور پانچویں آج کی نسبت کل اور اس کے بعد والے کل میں اور بھی زیادہ لوگ اسلام کی طرف راغب ہوں گے۔ گویا کام ایک ہوگا اور فوائد بہت سارے ہوں گے۔ اسی کا نام برکت ہے، اچھے اعمال کی برکتیں اسی طرح ظہور کرتی ہیں، بعض کام اپنے آغاز کے اعتبار سے بہت معمولی اور چھوٹے محسوس ہوتے ہیں مگر جب ان کے نتائج سامنے آتے ہیں تب ان کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
صحیح بات یہی ہے کہ ہم مسلمانوں کا یہ دوہرا مزاج ہے کہ ہماری تمنائیں اور آرزوئیں کچھ ہیں، بول چال کچھ ہے اور اعمال واخلاق کچھ اور ہی ہیں اور کردار کچھ اور ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے متضاد ہیں اسی لیے قرآن نے کہا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:۲)
اے مسلمانو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو۔ یعنی جب عمل نہیں ہے تو تمنائیں کیوں رکھتے ہو اور جب اچھے کام نہیں کرتے تو اچھے نتائج کی امید کیوں رکھتے ہو؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023