کابینہ میں جگہ نہیں، مگر وفود میں ضرورت کیوں؟

اندرون ملک ناپسند، بیرون ملک نمائندہ! مودی حکومت کا تضاد!!

0

اے کے ککیلا

کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں کا بہیمانہ قتل جہاں دنیا بھر کے سامنے دہشت گردی کے خطرے کو عیاں کرتا ہے، وہیں اس کے بعد پیش آنے والے واقعات مرکزی حکومت کی دوغلی پالیسی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ مودی حکومت نے پاکستان سے متاثر دہشت گردی کے بیانیے کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے سات کل جماعتی وفود تشکیل دیے اور انہیں مختلف عالمی دارالحکومتوں کی جانب روانہ کیا۔ ان وفود میں کل ۵۹ ارکان شامل تھے، جن کا تعلق کانگریس، بائیں بازو کی جماعتوں، این سی پی، شیو سینا، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے اور ظاہر ہے کہ بی جے پی سے تھا۔
یہ وفود امریکہ، یورپی ممالک، افریقا، خلیجی ریاستوں اور اقوام متحدہ تک گئے تاکہ دنیا کو پاکستان پرور دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے مؤقف پر قائل کر سکیں اور بین الاقوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکیں۔
اگر ان وفود کی ترکیبِ اراکین پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے نہایت چالاکی سے یہ ٹیمیں تشکیل دیں۔ ان ٹیموں میں اس طرح مختلف جماعتوں اور برادریوں کو شامل کیا گیا کہ ’سب کا ساتھ‘ کے نعرے کی نمائندگی ہو سکے۔ ان ساتوں وفود میں مجموعی طور پر ۵۹ ارکان میں سے ۱۰ مسلمان تھے، جن میں غلام نبی آزاد، سلمان خورشید، ای ٹی محمد بشیر، میاں الطاف احمد، ایم جے اکبر اور اسد الدین اویسی جیسے نام شامل تھے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہی مودی حکومت، جس نے اپنی مرکزی کابینہ میں ایک بھی مسلمان کو شامل کرنا گوارا نہ کیا، وہی مسلمانوں کو بین الاقوامی وفود میں کیوں شامل کر رہی ہے تاکہ بیرونِ ملک ہندوستان کی شبیہ بہتر ہو؟
اگر بھارت میں ایسے مسلم قائدین موجود ہیں جو عالمی برادری کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو انہیں ملکی سطح پر حکومت میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مودی حکومت نے اپنی کابینہ میں کسی ایک بھی مسلمان کو جگہ دینا مناسب نہ سمجھا؟
پس یہ کہنا بے معنی ہے کہ مسلمانوں کو وزارت میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ بی جے پی کے ۲۴۰ ارکانِ پارلیمنٹ میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں۔ نرملا سیتا رمن خود منتخب رکنِ پارلیمنٹ نہیں ہیں۔ جے پی نڈا بھی رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہو کر نہیں آئے۔ ایس جے شنکر، اشونی ویشنو، ہردیپ سنگھ پوری—یہ سب بھی منتخب نہیں بلکہ راجیہ سبھا کے ذریعے ایوان میں لائے گئے اور پھر وزارت میں شامل کیے گئے۔
تو پھر مسلمانوں کے ساتھ اس طرزِ عمل میں امتیاز کیوں؟
کیا یہ ممکن نہ تھا کہ کسی باصلاحیت مسلمان رہنما کو بھی راجیہ سبھا میں لایا جاتا اور وزارت میں شامل کیا جاتا؟
وہ کون سی منطق ہے جس کے تحت مودی حکومت نے اس قسم کا موقع ہونے کے باوجود، مسلمانوں کو حکومت سے باہر رکھا لیکن بیرونِ ملک جانے والے وفود میں مسلمانوں کو شامل کر لیا؟
کیا یہ دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں ہے؟
کیا یہ اس پیغام کو پھیلانے کا حربہ نہیں کہ ہندوستان میں تنوع میں وحدت، سماجی انصاف، اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا دعویٰ حکومت پورا کر رہی ہے؟
کیا یہ دو رُخی نہیں؟
کیا ملک کے اندر واقعی ایسی کوئی حالت ہے؟
کیا یہ آنکھیں کھول دینے والی بات نہیں کہ ایک طرف بیس کروڑ سے زائد کی مسلم آبادی کو ہر سطح پر دبانے، الگ تھلگ کرنے اور سیاسی و سماجی طور پر حاشیے پر ڈالنے کی پالیسی جاری ہے اور دوسری طرف بیرونِ ملک جانے والے وفد میں انہی مسلمانوں کو شامل کر کے ایک خوشنما تصویر پیش کی جاتی ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ دس مسلمانوں کو بیرونی وفد میں شامل کر کے، مودی حکومت اور بی جے پی نے عملاً اس امر کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ تمام پروپیگنڈا جو ہندوستانی مسلمانوں کو غدار، پاکستان نواز اور غیر وفادار ٹھیرانے کے لیے کیا گیا تھا، محض ایک جھوٹ پر مبنی تھا۔
خصوصاً اسدالدین اویسی کو، جو حیدرآباد سے رکنِ پارلیمنٹ ہیں، بی جے پی کے قائدین اور کارکنان نے کبھی حب الوطن کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ہمیشہ انہیں ایک فرقہ پرست، مخالفِ ہندو اور غدار کے طور پر پیش کیا گیا۔
اسی طرح مسلم لیگ کو بھی کبھی مکمل طور پر ہندوستانی سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، بلکہ اس کی وفاداری کو ہمیشہ پاکستان سے جوڑ کر دکھایا گیا۔
اس کے سبز پرچم کو بارہا سوشل میڈیا پر پاکستان کے جھنڈے کے طور پر پھیلایا گیا۔
اور کانگریس پر بھی اس جماعت سے سیاسی اتحاد رکھنے پر مسلسل تنقید کی جاتی رہی۔ لیکن یہی مودی حکومت ہے جس نے اسی مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر کو بیرونی وفد میں شامل کیا۔
ایک اعتبار سے بی جے پی کے نزدیک مسلمان گائے کی مانند ہیں—
اگر انہیں دور رکھا جائے اور ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے تو ووٹ حاصل ہوتے ہیں اور اگر انہیں شامل کر لیا جائے تو بین الاقوامی سطح پر وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
مودی حکومت گزشتہ گیارہ برسوں سے ملک پر حکم رانی کر رہی ہے۔
گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کل ۱۷۳ انتخابی تقریریں کیں۔
ان میں سے ۱۱۰ تقریریں اسلام مخالف تھیں، جیسا کہ روزنامہ دی ہندو نے ۱۴ اگست ۲۰۲۴ کی اشاعت میں خبر دی۔
جب وزیرِ اعظم کا حال یہ ہو تو ان کے پیروکاروں کا کیا حال ہوگا، یہ سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔
ملک کی ۱۷ ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں بی جے پی تنہا یا اتحادی جماعت کے طور پر اقتدار میں ہے،
لیکن ان میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر کے برابر ہے۔
یہاں تک کہ حج اور وقف جیسے خالصتاً مسلمانوں سے متعلق محکمے بھی مسلم نمائندوں کے بجائے غیر مسلموں کے سپرد کیے جا رہے ہیں۔
آج مرکزی کابینہ میں اقلیتوں کے امور کا قلمدان کرن رجیجو کے پاس ہے، جو خود اقلیت سے تعلق نہیں رکھتے۔
پچھلی حکومت میں یہی وزارت اسمرتی ایرانی کے پاس تھی۔
تو پھر یہ سوال لازمی ہے کہ آخر ان ہی حکم رانوں نے بیرونِ ملک بھیجے گئے وفد میں دس مسلمانوں کو کیوں شامل کیا؟
کیا ایک ایسی حکومت جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی اور سماجی معاملات کی وزارتوں میں بھی جگہ دینے سے گریزاں ہو ایمان دار سمجھی جا سکتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی صرف اقتدار چاہتی ہے—اور اس اقتدار کے حصول کے لیے مسلمانوں سے نفرت اس کی سب سے بڑی سیاسی حکمتِ عملی بن چکی ہے۔
مسلمانوں کو ہر وقت مخالفِ ہندو، پاکستان نواز اور غدار کے طور پر پیش کرنا اس کی روزمرہ کی سیاست ہے۔
اس کی حمایت یافتہ قوتیں مسلمانوں پر حملے کرتی ہیں، انہیں قتل کرتی ہیں اور بی جے پی بالواسطہ طور پر ان کا دفاع کرتی ہے۔
مگر بی جے پی کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ وہ جانتی ہے کہ مسلمان نہ غدار ہیں، نہ مخالفِ ہندو، بلکہ محبِ وطن ہیں۔ لیکن وہ اس سچائی کو اگر علانیہ تسلیم کر لے تو اس کی سیاسی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسی لیے وہ منافقت کی روش پر گامزن ہے۔
ملک کے اندر مسلمانوں سے نفرت اور بین الاقوامی برادری کے سامنے مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کا مظاہرہ۔
المیہ یہ ہے کہ بی جے پی کے نچلی سطح کے کارکنان اس دو رخی سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ ہر پلیٹ فارم پر— سوشل میڈیا ہو یا جلسہ گاہ— مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو اپنا فرضِ اولین سمجھ بیٹھے ہیں۔
(مضمون نگار، سنمارگ کنڑ ویکلی و نیوز چینل کے ایڈیٹر ہیں)

 

***

 حکومت نے جن مسلم رہنماؤں کو ہمیشہ ’’پاکستان کے حامی‘‘ اور’’ملک دشمن‘‘ قرار دیا انہی کو وفود میں شامل کر کے گویا اپنے ہی بیانیے کو جھٹلا دیا۔ خاص طور پر ای ٹی محمد بشیر اور اسدالدین اویسی کو جو ہمیشہ بی جے پی کے نشانے پر رہے، اب ملک کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025