جنوبی کوریا کے سابق گلوکار مشرف بہ اسلام۔ عمرہ کا شرف حاصل

مسلم پرستاروں کی میزبانی اور خلوص و محبت نے اسلام کی طرف راغب کیا

ابن ایاز شاہ پوری

’’خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں‘‘۔ ایک لڑکی کے بیان سے داود کم متاثر
جنوبی کوریا کے مشہور پاپ بینڈ گلوکار، جے کم نے اسلام قبول کر لیا اور عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ ان کا نیا اسلامی نام داود کم ہے۔ قبول اسلام کے بعد انہوں نے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کی زیارت کرنے کی دلی خواہش ظاہر کی تھی، ان کی یہ آرزو بالٓاخر پچھلے دنوں پوری ہو گئی۔ داؤد کم نے انسٹاگرام پر حالت احرام میں چند تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’’آخر کار میں مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔ میں اپنے آپ کو کرۂ ارض کا خوش قسمت ترین آدمی سمجھتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور مجھے یہاں تک لے آیا‘‘ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مقدس مقام پر وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ساری مسلم برادری کے لیے بارگاہ الہی میں دست بہ دعا ہیں کہ وہ ہم سب کے گناہوں کو درگزر فرمائے اور ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازے نیز انہوں نے ارض مقدس سے ساری ملت اسلامیہ کو رمضان المبارک کی پیشگی مبارکبادی بھی دی ہے۔
یہ وہی داؤد ہیں جنہیں آج سے چند سال پہلے ’’جے کم‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔انہوں نے جنوبی کوریا میں ایک پاپ بینڈ گلوکار کے طور پر اپنی پہچان بنائی تھی اور وہ عموماً مشہور ترین نغموں کو منفرد انداز میں اپنی آواز میں گایا کرتے تھے۔ لائیو پروگرامس اور یوٹیوب چینلس کے ذریعہ وہ اس رنگینی میں غرق تھے کہ رحمت الٰہی نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا اور سال 2019 میں وہ کلمہ شہادت کا اقرار کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئے اور اپنا نام جے کم سے بدل کر داؤد کم رکھ لیا۔
ایک انٹرویو میں داود کم دین اسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلام سے ان کا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اس وقت ٹی وی چینلوں اور دیگر خبروں میں سب سے زیادہ ایک ہی لفظ گونج رہا تھا اور وہ تھا ’’اسلام‘‘۔ اس ماحول میں معصوم داؤد کے دل ودماغ میں یہ خیال اچھی طرح بیٹھ گیا کہ اسلام ایک نہایت ہی خطرناک مذہب ہے، کیونکہ میڈیا اسلام کو اسی انداز میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ ان کے ذہن میں اسلام کے متعلق ایک منفی تصویر بنتی چلی گئی۔ اگرچہ وہ مذہباً عیسائی فرقہ کیتھولک سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہیں اپنے مذہب سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زندگی کی رنگینیوں میں مشغول رہے۔ اسلام کے بارے میں ان کا منفی نقطہ نظر اس وقت بدل گیا جب وہ بحیثیت مہمان گلوکار انڈونیشیا کے دورے پر گئے تھے۔ جکارتہ میں انہوں نے اپنے مسلمان پرستاروں کو بہت ہی مہربان اور نہایت محبت کرنے والا پایا۔ ان مسلمانوں کے پیار بھرے رویے اور محبت و خلوص نے اسلام سے متعلق ان کے نظریے کو نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔
اپنے یوٹیوب ویڈیو میں داؤد کہتے ہیں کہ میں سمجھتا تھا کہ زندگی ایک مقابلہ ہے اور صرف مقابلے میں جیتنا ہی کامیابی ہے۔ میں سوچتا تھا کہ مجھے مقابلہ کرنا ہے اور بس جیتنا ہے۔ لیکن وہ (مسلمان) جن سے میری ملاقات ہوئی وہ بالکل مختلف تھے، وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتے تھے اور جو کچھ انہیں ملتا اس پر وہ ہمیشہ شکر گزار رہتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ’’زندگی ایک سفر ہے یہ کوئی مقابلے کی چیز نہیں ہے اس میں ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے‘‘ ان کی یہ بات مجھے بہت متاثر کر گئی۔
انڈونیشیا کے دورے میں داؤد نے اس بات پر بھی غور کیا کہ یہ علاقہ جغرافی اعتبار سے نہایت ہی گرم ہے پھر بھی تقریباً لڑکیاں اور خواتین باحجاب رہتی ہیں، بے پردگی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس بات سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ ایک دن انہوں نے ایک لڑکی سے پوچھا کہ ایسے گرم ماحول میں تم کیوں حجاب پہنی ہوئی ہو؟ کیا تم کو کسی نے اس بات پر مجبور کیا ہے؟ تو اس لڑکی نے کہا کہ ’’ہم کو حجاب پہننے پر کسی نے مجبور نہیں کیا ہے بلکہ یہ ہماری اپنی پسند ہے اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ ہم لوگ نہایت قیمتی ہیرے جواہرات کی مانند ہیں اور اس جوہر نایاب کی ہم سرعام نمائش نہیں کرنا چاہتے‘‘ داؤد کہتے ہیں یہ سن کر انہیں بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ وہ اسی مغالطے میں تھے کہ ان خواتین پر ظلم ہو رہا ہے اور زور وزبردستی کے ساتھ انہیں یہ حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن اس لڑکی کے جواب سے وہ بے حد متاثر ہو ئے اور اسلام کے بارے میں ان کے ذہن میں جو خول بنا ہوا تھا وہ ٹوٹنے لگا اور وہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالی نے اسلام قبول کرنے کے لیے انہیں ایک واضح نشانی اس حجاب کی شکل میں بتلائی تھی لیکن بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے وہ اس جانب زیادہ توجہ نہ دے سکے اور اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔
داؤد کو مزید گہرائی کے ساتھ مذہب اسلام اور اس کی صاف وشفاف تعلیمات کو سمجھنے کا موقع اس وقت ملا جب وہ زندگی کے ایک ایسے مرحلے سے گزر رہے تھے جہاں انہیں کئی مسائل کا سامنا تھا اور وہ ذہنی سکون و اطمینان سے بھی محروم ہو رہے تھے۔ ایسی حالت میں یوٹیوب نے انہیں اسلام کو جاننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے انہوں نے کچھ مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں جو ان سے بالکل مختلف تھے جیسا آج کل کا میڈیا پیش کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ ان کے ذن میں کئی طرح کے سوالات گونج رہے تھے، مثلا صرف ایک خدا کی عبادت کیوں کی جائے؟ محمد (ﷺ) کون ہیں؟ حلال کسے کہتے ہے، حرام کیا ہے؟ اور کیوں خنزیر و شراب کا استعمال نہیں کرنا چاہیے وغیرہ۔ ان جیسے اور بھی کئی سارے سوالوں کے تسلی بخش جوابات انہیں ان کے مسلم دوستوں، مسلم اسکالروں اور مطالعہ کتب سے ملتے چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دوران انہوں نے ایک خاص قلبی سکون محسوس کیا جو انہوں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا کیوں کہ انہوں نے داؤد نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا تھا اور سیرت کا بھی مطالعہ کرنے لگے تھے۔ مسجد میں جا کر نماز پڑھتے تھے۔ جیسے جیسے وہ ان باتوں کا اہتمام کرنے لگے اسلام پر ان کا یقین بڑھتا چلا گیا اور ان کے دل میں مسلمان بننے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔ باوجود اس خواہش کے وہ ہچکچاتے بھی رہے۔ ایک تو اپنے گھر والوں کی مخالفت کے ڈر سے اور دوسرا خود سے بھی، کہ کیا وہ واقعی مسلمان بننے کے لیے پوری طرح تیار ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ یہ دراصل شیطانی وسوسے ہیں اور کچھ نہیں۔ اللہ نے جب میری یہاں تک رہنمائی کی ہے تو کیا وہ مجھے یونہی چھوڑ دے گا؟ وہ یقینا مجھے صحیح راستے پر لے جائے گا۔ پھر ایک دن تمام اندیشوں اور دل میں اٹھنے والے وسوسوں کو روند کر انہوں نے اسلام قبول کر ہی لیا اور اب ایک اچھا مسلمان بننے کے لیے ہر روز نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا ایک اور احسان یہ ہوا کہ ان کی شریک حیات نے بھی ان کی محنت سے اسلام قبول کر لیا۔ اور اب وہ اپنی نئی زندگی خوشگوار طریقے سے گزار رہے ہیں، ساتھ ہی انہیں عمرہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے۔ جس کے بعد ہی انہوں نے خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت ترین انسان کہا تھا۔ آج کل وہ دنیا کے سامنے اسلام کی تعلیمات کو پیش کرنے کے لیے اپنے یوٹیوب چینل پر باقاعدہ ویڈیوز وغیرہ بھی پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔
جئے کم سے داؤد بننے تک کے اس سفر میں سب سے خاص بات یہ رہی ہے کہ انہیں اسلام کی جانب راغب کرنے میں بعض مسلمان اور ان کا اسلامی کردار رہا ہے۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ آج کے اس پر خطر ماحول میں بھی بعض ایسے مسلمان موجود ہیں جو غیر مسلموں کو اپنے گفتار وکردار سے لوگوں کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور بنت حوا کا حجاب استعمال کرنا بھی کسی کی ہدایت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ سے ایک اور اہم پیغام بھی ملتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی صحیح معنوں میں چلتی پھرتی تصویر بننا چاہیے اور مسلمان خواتین کو بھی مغربی طرز زندگی سے متاثر ہوئے بغیر مکمل حجاب کا استعمال کرنا چاہیے۔ معلوم نہیں کہ کب کونسا عمل کس کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔
***

 

***

 انڈونیشیا کے دورے میں داؤد نے اس بات پر بھی غور کیا کہ یہ علاقہ جغرافی اعتبار سے نہایت ہی گرم ہے پھر بھی تقریباً لڑکیاں اور خواتین باحجاب رہتی ہیں، بے پردگی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس بات سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ ایک دن انہوں نے ایک لڑکی سے پوچھا کہ ایسے گرم ماحول میں تم کیوں حجاب پہنی ہوئی ہو؟ کیا تم کو کسی نے اس بات پر مجبور کیا ہے؟ تو اس لڑکی نے کہا کہ ’’ہم کو حجاب پہننے پر کسی نے مجبور نہیں کیا ہے بلکہ یہ ہماری اپنی پسند ہے اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ ہم لوگ نہایت قیمتی ہیرے جواہرات کی مانند ہیں اور اس جوہر نایاب کی ہم سرعام نمائش نہیں کرنا چاہتے‘‘ داؤد کہتے ہیں یہ سن کر انہیں بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ وہ اسی مغالطے میں تھے کہ ان خواتین پر ظلم ہو رہا ہے اور زور وزبردستی کے ساتھ انہیں یہ حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن اس لڑکی کے جواب سے وہ بے حد متاثر ہو ئے اور اسلام کے بارے میں ان کے ذہن میں جو خول بنا ہوا تھا وہ ٹوٹنے لگا اور وہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023