!جنوبی ہندکی ریاستوں کی مرکزی حکومت سے لڑائی
ٹیکس کی بھر پور وصولی کے باوجود امتیازی سلوک۔ ناانصافیوں کے خلاف متحدہ جدوجہد کی ضرورت
زعیم الدین احمد حیدرآباد
ٹیکس کے ذریعے جنوب کی ریاستیں مرکزی خزانے میں 22 لاکھ 26 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ جمع کرتی ہیں، اس کے بر خلاف جنوب کی ریاستوں کو مرکز کی جانب سے ملنے والا حصہ صرف 6 لاکھ 42 ہزار کروڑ روپے ہے۔ وہیں شمال کی سب سے بڑی ریاست یوپی سے مرکزی خزانے میں جمع ہونے والی رقم صرف 3 لاکھ 41 ہزار کروڑ روپے ہے، لیکن اسے مرکزی حکومت سے ملنے والا حصہ 6 لاکھ 91 ہزار یعنی تقریباً 7 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس فرق کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جنوبی ریاستوں کا حال اس بھینس کا سا ہو جائے گا جو دودھ دے دے کر سوکھ چکی ہو۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے جنتر منتر پر مرکزی حکومت کے خلاف مورچہ کھولتے ہوئے احتجاج منظم کیا ہے، احتجاج کی وجہ مرکزی حکومت کا وہی جنوبی ہند کی ریاستوں سے ناانصافی و امتیازی برتاؤ ہے۔ سدا رامیا نے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کی غیر منصفانہ تقسیم پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے، یہ احتجاج صرف کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے ہی منظم نہیں کیا ہے بلکہ جنوب کی دیگر ریاستوں نے بھی ان کی بھرپور تائید کا اعلان کیا ہے۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پینرائی وجین بھی احتجاج منظم کرنے والے ہیں اور ان کے احتجاج کو تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے بھی تائید و مدد کا بھی وعدہ کیا ہے۔ آخر اپنے ہی ملک کی مرکزی حکومت کے خلاف اس طرح کے احتجاج منظم کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی، وہ کیا وجوہات ہیں کہ ملک کی ریاستیں مرکزی حکومت کے خلاف ہو گئی ہیں؟
ان ریاستوں کی شکایت یہ ہے کہ حکومت کے خزانے میں جو ٹیکس جمع ہوتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ یہی ریاستیں جمع کرتی ہیں، جبکہ مرکزی حکومت سے جو رقم انہیں وصول ہوتی ہے وہ انتہائی کم ہوتی ہے، یعنی ٹیکس وصولی تو بھرپور ہو رہی ہے لیکن اس کے عوض جو رقم جنوبی ہند کی ریاستوں کو دی جا رہی وہ بہت کم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ مرکزی خزانے میں سب سے زیادہ جنوبی ہند کی ریاستیں تعاون کرتی ہیں لیکن اس کے برعکس ان کو مرکزی حکومت کی جانب سے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ وہیں شمالی ہند کی ریاستیں جو معاشی طور پر بد حال، غیر مستحکم، روزگار کی فراہمی میں ناکام، معاشی ترقی میں ناکام ہیں اور جو جو مرکزی خزانے میں تعاون بھی بہت کم کرتی ہیں وہ مرکز سے زیادہ رقم پا رہی ہیں، انہیں زیادہ رقم مختص کی جا رہی ہیں۔ ان کا خزانے میں بھرنا کم اور خزانے سے لینا زیادہ ہو گیا ہے جو واضح طور پر نا انصافی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایسی ریاستیں جو جغرافیائی اعتبار سے ایسی جگہ واقع ہیں جہاں معاشی سرگرمیاں انجام نہیں دی جاسکتی ہیں، جہاں کوئی صنعت نہیں لگائی جاسکتی ہے، جیسے اروناچل پردیش ہے جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر ریاستوں سے مقابلہ آرائی نہیں کرسکتیں، ان ریاستوں کو زیادہ رقم مختص کی جاتی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن ایسی ریاستیں جہاں ہر قسم کی سہولتیں پائی جاتی ہیں محض اپنی نااہلی کی وجہ سے عدم کارگرد ہوں، جیسے بہار اور اترپردیش، تو ایسی ریاستوں کو اضافی رقم مختص کرنا انتہائی بد دیانتی ہے۔ بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان یہ وہ ریاستیں ہیں جو مرکزی خزانے سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں، جبکہ ان ریاستوں کو کوئی مخصوص صورتحال کا سامنا بھی نہیں ہے اور نہ ہی جغرافیائی اعتبار سے مسائل کا سامنا ہے۔ ہاں مگر ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی و طبقاتی منافرت کی سیاست اور ہندو احیاء پرستی میں سب سے آگے ہیں اور ان کا طرہ امتیاز بھی یہی ہے، آبادی کے اعتبار سے زیادہ ہیں یہاں زیادہ نشستیں ہیں، حکومت بنانے میں ان کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، ان کی سیاست کی بنیاد ہی مذہبی منافرت و طبقاتی کشمکش پر قائم ہے، انہیں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ووٹ نہیں مل رہا ہے، انہیں معاشی ترقی کی وجہ سے ووٹ نہیں مل رہا ہے بلکہ انہیں ہندو مسلم سیاست کی وجہ سے ووٹ مل رہا ہے، ان ریاستوں کی معاشی بد حالی کا حال یہ ہے کہ یہاں کے بے روزگار نوجوانو لاکھوں کی تعداد میں جنوبی ہند کی ریاستوں کا رخ کرتے ہیں اور روزگار پاتے ہیں، ان کی نااہلی کے باوجود ان پر مرکزی خزانے کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ وہیں جنوبی ہند کی ریاستیں جو معاشی طور پر مستحکم مانی جاتی ہیں، جو قانون کے نفاذ میں بہترین مظاہرہ کرتی ہیں، ہر میدان میں اچھا مظاہرہ کر رہی ہیں مرکزی حکومت کے سوتیلے پن کا شکار ہو رہی ہیں، ناانصافی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہی جنوبی ہند کی ریاستوں کی سب سے بڑی شکایت ہے۔
اسی سوتیلے پن کی وجہ سے غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے کرناٹک کو گزشتہ چار سال میں 62 ہزار 98 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، یعنی ہر سال تقریباً پندرہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ چار سال پہلے تک ٹیکسوں وصولی کے بدلے کرناٹک کو جملہ ٹیکس میں سے چار عشاریہ سات ایک فیصد دیا جاتا تھا لیکن مرکزی حکومت نے اس میں کٹوتی کرتے ہوئے تین عشاریہ چھ سات فیصد کردیا گیا ہے۔ اس فارمولے کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کو ریاستوں سے جو ٹیکس وصول ہوتا ہے اس میں سے ریاستوں کو تقسیم کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر سو روپے وصول ہوتے ہیں تو اس میں سے اکتالیس روپے ریاستوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہ اکتالیس روپے بھی مشترکہ ٹیکس کو چھوڑ کر جو مرکزی و ریاستی حکومت سیس کے نام پر وصول کرتی ہے جیسے پٹرول و ڈیزل پر سیس، ایکسائز وغیرہ اس کے علاوہ مرکزی حکومت مختلف ناموں سے سیس وصول کرتی ہے جو مشترک نہیں ہوتا یعنی ریاستوں کی اس میں کوئی حصہ داری نہیں ہوتی، دس فیصد کٹوتی کرتی ہے، یعنی یہ نام کے واسطے اکتالیس فیصد ہے لیکن عملی طور پر یہ تیس فیصد ہی ہے۔ اس کی آسان مثال یہ ہے کہ کرناٹک کے ایک روپیہ ٹیکس کے بدلے میں مرکزی حکومت اسے صرف پندرہ پیسے ہی واپس دیتی ہے، تلنگانہ جو ایک روپیہ ٹیکس وصول کرتا ہے تو اسے مرکزی حکومت صرف 43 پیسے ہی واپس کرتی ہے، تمل ناڈو کے ایک روپیہ ٹیکس وصولی پر مرکزی حکومت 29 پیسے ہی دیتی ہے، کیرالا کے ایک روپیہ ٹیکس وصولی پر 57 پیسے واپس آتے ہیں، وہیں آندھرا پردیش جو ایک روپے ٹیکس وصول کرتا ہے اس بدل اسے مرکزی سے صرف 49 پیسے ہی ملتے ہی۔ اس کے برعکس اترپردیش کو ایک روپے ٹیکس وصولی پر مرکزی حکومت دو روپے 73 پیسے دیتی ہے، وہیں راجستھان کو ایک روپیہ ٹیکس وصولی پر ایک روپے 33 پیسے دیتی ہے، اسی طرح بہار کو ایک روپیہ ٹیکس وصولی کے بدلے 7 روپے چھ پیسے دیتی ہے، یہ ہے مرکزی حکومت کا انصاف۔ ٹیکسوں کی یہ تقسیم بھی آبادی کے اعتبار سے ہوتی ہے، جہاں آبادی زیادہ ہے وہاں زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے، جن ریاستوں نے اچھی منصوبہ بندی کی اور معاشی ترقی کی انہیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، ٹیکسوں سے جو رقم ریاستوں کو مختص کی جاتی تھی وہ 1971 کی مردم شماری سے کی جاتی تھی لیکن مودی سرکار نے اسے 2011 کی مردم شماری سے کیا ہے، جس کے نتیجے میں جنوبی ہند کی ریاستیں نقصان اٹھا رہی ہیں۔ ٹیکس کے ذریعے جنوب کی ریاستیں مرکزی خزانے میں 22 لاکھ 26 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ جمع کرتی ہیں، اس کے بر خلاف جنوب کی ریاستوں کو مرکز کی جانب سے ملنے والا حصہ صرف 6 لاکھ 42 ہزار کروڑ روپے ہے۔ وہیں شمال کی سب سے بڑی ریاست یوپی سے مرکزی خزانے میں جمع ہونے والی رقم صرف 3 لاکھ 41 ہزار کروڑ روپے ہے، لیکن اسے مرکزی حکومت سے ملنے والا حصہ 6 لاکھ 91 ہزار یعنی تقریباً 7 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس فرق کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جنوبی ریاستوں کا حال اس بھینس کا سا ہو جائے گا جو دودھ دے دے کر سوکھ چکی ہو۔
یہ کوئی ریاستوں کی لڑائی نہیں ہے اور نہ ناحق کی لڑائی ہے بلکہ یہ اپنے حق کو حاصل کرنے کی لڑائی ہے، اسے کسی ریاست کی لڑائی کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس معاملے میں ساری ریاستوں کو متحد ہو کر مرکزی حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف اپنے حق کے حصول کے لیے لڑنا چاہیے۔
***
***
یہ کوئی ریاستوں کی لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی ناحق کی لڑائی ہے بلکہ یہ اپنے حق کو حاصل کرنے کی لڑائی ہے، اسے کسی ریاست کی لڑائی کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس معاملے میں ساری ریاستوں کو متحد ہو کر مرکزی حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف اپنے حق کے حصول کے لیے لڑنا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024