جنوبی ہند کا بدلتا سیاسی منظر نامہ

ہندتوا کی آندھراپردیش میں مضبوط ہوتی ہوئی جڑیں

زعیم الدین احمد،حیدرآباد

چندرابابو نائیڈو اور پون کلیان کے بدلتے رنگ نئی سیاست کے اشاریے
عام طور پر شمالی ہند یعنی ہندی بولی جانے والی ریاستوں کو ’’گائے کی پٹی‘‘ (Cow Belt) کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں پر گائے کے نام پر مذہبی جنونیت پائی جاتی ہے۔ شمال و جنوب کی سیاسی تقسیم بھی اسی طرح سے کی جاتی ہے کہ شمال کو گائے پٹی اور جنوب کو مذہبی رواداری والا علاقہ مانا جاتا ہے۔ جنوب کا یہ علاقہ مختلف مذاہب کا گہوارہ رہا ہے، یہاں ہندو بھی رہتے ہیں مسلمان بھی رہتے ہیں، عیسائی بھی بستے ہیں، بودھ مذہب کے پیروکار بھی رہتے ہیں، اور سکھ مذہب بھی پایا جاتا ہے، الغرض کئی مذاہب کے ماننے والے یہاں پوری آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہاں کا سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے کیوں کہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو اور این ڈی اے اتحادی پون کلیان جو کہ نائب وزیر اعلیٰ بھی ہیں انہوں نے پچھلے کچھ دنوں سے گائے کے نام پر سیاست کرنی شروع کردی ہے اور ایک بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے، وہی تنازعہ جو پچھلے کئی دنوں سے بھگوا میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔ یہ تنازعہ جنوبی ہند کے سب سے بڑے ہندو مندر تروپتی کے لڈو کا تنازعہ ہے، جس میں ان دونوں نے سابق سی ایم جگن موہن ریڈی پر الزام لگایا ہے کہ ان کی سرپرستی میں تروپتی کے لڈو میں بیف کی چربی اور دوسرے جانوروں کی چربی ملائی گئی ہے۔ یہ الزام محض لڈو میں جانوروں کی چربی کے ملانے پر ہی محمول نہیں کرنا چاہیے، بلکہ لڈو بنانے کے لیے جو گھی سپلائی کیا گیا ہے اس کی فرضی جڑیں تمل ناڈو کے ایک مسلم تاجر سے جوڑ کر ہندو مسلم زاویہ دینے کی سازش بھی کی گئی، دوسری طرف چونکہ جگن موہن ریڈی عقیدے کے اعتبار سے ایک عیسائی ہیں تو اس چیز کو اور بھی کھل کر اچھالا گیا۔
چندرابابو نائیڈو، ریاستی بی جے پی قائدین کے ساتھ مل کر جگن موہن ریڈی کے عقیدے پر کھلے عام سوال اٹھا رہے ہیں اور لڈو تنازعہ ان کے سر منڈھ رہے ہیں اور جگن موہن ریڈی کے تروپتی جانے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف جگن موہن ریڈی، نادانستہ طور پر بھگوا جال میں پھنس کر ریاست بھر میں اپنی پارٹی کے کیڈر کو ہندو مندروں میں جانے کی کال دے رہے ہیں۔ ان سب کے بیچ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ لوگوں کے اصل مسائل کیا ہیں، چندرابابو نائیڈو بھی لوگوں کے اصل مسائل کو حل کرنے کے بجائے ہندوتوا ایجنڈے پر چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وجئے واڑہ میں سیلاب کے باعث پینتالیس سے زائد لوگوں کی جان چلی گئی، اس پر ان کی توجہ کرنے کے بجائے لڈو میں ملاوٹ پر توجہ دے رہے ہیں اور سارا میڈیا عوامی مسائل کو چھوڑ کر لڈو میں ملاوٹ پر بحث کرنے لگا ہے۔ جگن موہن ریڈی بھی لڈو کے جال میں پھنس گئے ہیں، سیلاب متاثرین کے مسائل، حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ہاسٹلوں میں متعدی امراض کے پھیلنے کا سلسلہ اور این ڈی اے کی جانب سے اسمبلی انتخابات میں لوگوں سے کیے گئے وعدوں و فلاحی اسکیموں پر کوئی گفتگو نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بڑی چالاکی سے چندرابابو نائیڈو اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
جب اکثریتی طبقے کی سیاست کی بات آتی ہے تو شمال اور جنوب کی تقسیم بے فیض اور دھندلی نظر آتی ہے۔ اگر ہم لڈو کے تنازعہ کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو اس میں بھگوا اسکیم کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں اور ان بھگوا اسکیموں کو انجام دینے میں آندھرا پردیش کی حکومت بڑھ چڑھ حصہ لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب کہ دیکھا جائے تو مرکز کی مودی حکومت چندرابابو نائیڈو کے سہارے ٹکی ہوئی ہے، یہاں کی وہ بیس سیٹیں ہیں جو مودی کا سہارا بنی ہوئی ہیں، لیکن پھر بھی وہ کیا مجبوریاں ہیں جن کے نتیجے میں چندرابابو اس طرح کی مذہبی سیاست کر رہے ہیں یہ سوچنے والی بات ہے۔ جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کے دوران کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں انہی بیس سیٹوں کے خسارے نے انہیں ہماری ایڑیوں کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ریاست آندھرا پردیش نے ہی مودی کی تیسری میعاد کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مدد کی ہے۔ انڈیا الائنس، آندھرا پردیش جیسی اہم ریاست میں جیت کے لیے کوئی گیم پلان نہیں بنا پائی۔
افسوس اس بات پر ہے کہ اپنے آپ کو سیکولر سیاست داں کہنے والے چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار جو مودی 3.0 کے سہارے ہیں، بی جے پی کے ہندتوا ایجنڈے پر لگام لگانے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں، کئی ریاستوں میں گائے کے نام پر آر ایس ایس ہندتوادی غنڈہ گردی بے لگام ہو کر مسلمانوں کی جانوں سے کھیل رہی ہے، معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اور یہ دونوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح منی پور میں تباہی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، فساد روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے اور یہ ہنگامہ ختم ہونے کے بظاہر
کچھ آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مرکزی کابینہ نے پارلیمنٹ میں ‘ون نیشن، ون الیکشن‘ بل کو پیش کرنے کی منظوری دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں پارٹیاں اس کابینہ کا حصہ نہیں ہیں؟ اس بل کے ذریعے بھاجپا پورے وفاقی ڈھانچے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کیا یہ ان کو نہیں معلوم ہے؟ پھر کیوں ان کے منہ میں دہی جمی ہوئی ہے؟ ان کی کیا مجبوریاں ہیں جو وہ ہندتوا ایجنڈے پر کار فرما ہیں؟ خاص طور پر پون کلیان اپنے اصل رنگ میں ظاہر ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہندؤوں کا چیمپین بنانے میں لگے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر "سناتنا دھرما رکھشنا بورڈ” بنانے کا مطالبہ کردیا۔ کیا عجیب بات ہے کہ ایک طرف اتر پردیش کی عوام نے ‘جے شری رام’ پر ووٹ کو مسترد کردیا، جبکہ آندھرا پردیش ہندتوا کی اسی گھٹیا سیاست کو اپناتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی سیاست میں کتنا فرق ہے کہ ٹھیک ایک سال قبل ستمبر میں ادے ندھی اسٹالن نے سناتن دھرم کو ایک لعنت قرار دے کر اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ کمنڈل کی سیاست کے بعد ملک میں دراوڑی رہنما پیریار کی طرح کی زبردست تنقید کبھی نہیں سنی گئی، ایک زمانے کے بعد ادے ندھی اسٹالن نے اسی طرح تنقید کی جو ملک گیر سطح پر بحث کا سبب بن گئی۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ پون کلیان جو کہ ڈپٹی سی ایم بھی ہیں، وہ ہندو سناتنا کے رکھشا کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ادے ندھی اسٹالن ہیں جو اس وقت ڈپٹی سی ایم ہیں، انہوں نے سناتن کو لعنت قرار دیا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ آج کا آندھرا پردیش کبھی مدراس پریسڈینسی کا حصہ ہوا کرتا تھا، جس نے دراوڑی تحریک کو جنم دیا، جس نے جنوب پر ہندی اور ہندتوا کے تسلط کو کبھی کامیاب ہونے نہیں دیا۔ ٹھیک سو سال بعد، یہی آندھراپردیش ہندتوا کو نئی زندگی دینے میں اس قدر اہم کردار ادا کر رہا ہے کہ اسی کے سہارے مرکزی حکومت ٹکی ہوئی ہے۔ یہی وہ آندھراپردیش ہے جس کے قد آور لیڈر این ٹی آر اور وائی ایس آر نے اپنے اپنے دور حکومت میں ریاست میں بی جے پی کو سر اٹھانے نہیں دیا۔ 1990 کی دہائی میں چندرابابو نائیڈو ہی کے دور میں بی جے پی نے قدم جمانا شروع کیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک یہ اس کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ 2014 میں این ڈی اے کے عروج کے بعد سے گائے کے نام پر غنڈہ گردی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر جنوب میں یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ 2016 میں ساحلی آندھرا کے ایک چھوٹے سے قصبے املاپورم میں گائے کے نام پر غنڈہ گردی کی گئی، دلتوں کو درخت سے باندھ کر مارا پیٹا گیا، اس واقعہ کی کوئی تحقیقات نہیں کرائی گئیں، بابو کی بھی زبان بند ہے، سناتنا دھرما کا نام جپنے والے پون کلیان بھی اس غنڈہ گردی پر کچھ نہیں بول رہے ہیں، اب تو چندرابابو نائیڈو این ڈی اے میں واپس آ گئے ہیں اس اتحاد کو انہوں نے فطری اتحاد کا نام دیا ہے، اب سناتنا دھرما بورڈ کا مطالبہ بھی ہونے لگا ہے، اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ریاست میں ہندتوا کی سیاست پر زور دینے لگے ہیں۔
ہندتوا کے اس نئے زور کے ساتھ آندھرا پردیش کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، اس نئے سیاسی منظر نامے میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ جنوب میں بی جے پی کس طرح اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اور اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے۔
***

 

***

 تروپتی کے لڈوتیار کرنے میں بیف کی چربی کے مبینہ استعمال پر پیداشدہ تنازعہ میں بھگوا اسکیم کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں اور اسکیم کو انجام تک پہنچانے میں آندھرا پردیش کی حکومت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب کہ دیکھا جائے تو مرکز کی مودی حکومت چندرابابو نائیڈو کے سہارے ٹکی ہوئی ہے، یہاں کی وہ بیس سیٹیں ہیں جو مودی کا سہارا بنی ہوئی ہیں، لیکن پھر بھی وہ کیا مجبوریاں ہیں جن کے نتیجے میں چندرابابو اس طرح کی مذہبی سیاست کر رہے ہیں یہ بات قابل غور ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024