
جنوبی افریقہ کے سفیر جنہیں امریکہ نے ذلیل کرنا چاہا مگر لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھا لیا
‘‘نا پسندیدہ شخص‘ کا امریکی خطاب میرے لیے ’عزت کا تمغہ‘ ہے’’
مرتب : محمد مجیب الاعلیٰ
مایوسی کفر ہے۔ نوجوانوں کو امید، صبر اور عمل کی دعوت۔ابراہیم رسول سے انٹرویو
ظالم حکم راں کے سامنے حق بات کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اور جب جنوبی افریقہ کے سفیر ابراہیم رسول نے اسی حق گوئی سے کام لیا تو سامراجی غرور تلملا اٹھا۔ چناں چہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے انہیں بظاہر بے عزت کر کے ملک بدر کر دیا لیکن جنوبی افریقہ کی عوام نے ان کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھالیا۔
ابراہیم رسول کا ’جرم‘ صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایک ویبینار میں برملا کہا تھا کہ صدر ٹرمپ ’’نسلی برتری کو منظم کر رہے ہیں‘‘اور اس مقصد کے لیے وہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو بظاہر ایک سیاسی تبصرہ محسوس ہوتی ہے مگر درحقیقت مخصوص طبقے کے اندر خوف، نفرت اور برتری کے احساس کو اکساتی ہے جسے انگریزی میں dog whistle کہا جاتا ہے۔
یہی بات امریکی سامراج کو گوارا نہ ہوئی۔ چناں چہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے انہیں ’شخصِ نا پسندیدہ‘ قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ مگر یہ واقعہ صرف ایک سفیر کی بے دخلی نہیں تھا بلکہ ضمیر اور استکبار کے درمیان ایک نظریاتی تصادم تھا۔
خیال رہے کہ یہی وہ جنوبی افریقہ ہے جس نے غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف جرأت مندانہ آواز اٹھائی اور اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔ اسی پر برہم ہوکر ٹرمپ نے نہ صرف جنوبی افریقہ کی مالی امداد بند کر دی بلکہ سفید فام افریقیوں کو پناہ دینے کی پیشکش کر کے ملک کے نسلی توازن کو بگاڑنے کی کوشش بھی کی۔ مگر ابراہیم رسول نہ ڈرے نہ جھجکے بلکہ انہوں نے وقار، بصیرت اور سچائی کے ساتھ سامراجی غرور کا سامنا کیا۔ اور ان کی یہ استقامت ہر مظلوم کے دل میں امید کی ایک جوت جگاتی ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں ابراہیم رسول کی بے دخلی ایک علامت بن کر ابھرتی ہے — ایک ایسی علامت جو ہمیں بتاتی ہے کہ عالمی طاقتیں آزادیِ اظہار اور حق پر مبنی سفارت کاری سے کس قدر خائف ہیں۔
صحافی ملاذ مجنّی نے ’’ون پاتھ نیٹ ورک‘‘ کے لیے حالیہ انٹرویو میں ابراہیم رسول سے سوال کیا:
’’آپ کو ’نا پسندیدہ شخص‘ قرار دے کر صرف ایک ہفتے کے اندر امریکہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام آپ کو ذلیل کرنے کی کوشش تھی؟‘‘ اس کے جواب میں ابراہیم رسول کہتے ہیں ’’یقیناً یہ فیصلہ میری توہین اور مجھے تکلیف پہنچانے کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن جب میں کیپ ٹاؤن واپس پہنچا تو ہزاروں افراد نے ایرپورٹ پر میرا والہانہ استقبال کیا۔ جب دنیا بھر سے سچ اور انصاف کے حق میں میری حمایت میں آوازیں بلند ہوئیں تو اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ میں نے ظلم کے ایوانوں کے سامنے حق کی گواہی دے کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ انہوں نے بھلے ہی مجھے نا پسندیدہ شخص قرار دیا ہے لیکن میں اسے اپنے لیے ’عزت کا تمغہ‘ سمجھتا ہوں‘‘۔
اس استفسار پر کہ وہ ’’نا پسندیدہ شخص‘‘ کہلانے کو عزت کیوں سمجھتے ہیں؟ ابراہیم رسول نے فخر سے کہا ’’جب آپ دنیا کے سب سے طاقت ور ایوانوں میں اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے سچ بولتے ہیں اور آپ کی بات اتنی اثر رکھتی ہے کہ وہ اوول آفس تک گونجتی ہے تو یہ ذلت نہیں بلکہ ایک اعزاز بن جاتی ہے۔‘‘
اسی سلسلے میں یہ وضاحت بھی سامنے آئی کہ ان کی برطرفی کا اصل محرک جنوبی افریقہ کا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل کے خلاف دائر کیا گیا وہ مقدمہ تھا جس میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کے الزامات لگائے گئے۔ ابراہیم رسول نے بتایا ’’جیسے ہی میری تقرری ہوئی صہیونی لابی نے شور مچانا شروع کیا، ہمیں دھمکیاں دی گئیں کہ اگر ہم اپنا کیس واپس نہیں لیں گے تو تجارتی تعلقات خراب ہو جائیں ہوں گے۔ لیکن ہم نے اصولوں پر سودا نہیں کیا۔‘‘
اس سوال پر کہ جنوبی افریقہ آج بھی فلسطین کی حمایت میں اتنا سرگرم کیوں ہے، ابراہیم رسول نے نیلسن منڈیلا کا وہ تاریخی جملہ یاد دلایا جو ان کے ملک کے ضمیر کی آواز بن چکا ہے ’’فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر ہماری آزادی ادھوری ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ فلسطین سے ہمارا رشتہ محض سفارتی یا سیاسی نہیں بلکہ یہ تعلق خون پسینے اور آنسوؤں سے بندھا ہوا ہے۔
انہوں نے 1990 کا ایک منظر یاد کیا جب انہوں نے خود نیلسن منڈیلا کو یاسر عرفات کے ساتھ گہرے سنجیدہ مکالمے میں دیکھا۔
یہ وہ لمحہ تھا جس نے انہیں سکھایا کہ انصاف کے لیے کھڑا ہونا کبھی آسان نہیں ہوتا لیکن یہ وہ قیمت ہے جو تاریخ میں سرخ رو ہونے کے لیے ادا کرنی پڑتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں سورہ مزمل کی یہ آیت پڑھی وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا اور کہا کہ اسی آیت نے انہیں اس آزمائش میں صبر اور حوصلے کی طاقت عطا کی اور ان کے لیے رہنمائی کا چراغ بنی جس میں کہا گیا ہے ’’اور جو باتیں لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور شریفانہ طریقے سے ان سے الگ ہو جاؤ۔‘‘
انہوں نے کہا ’’میں نے اپنی کم زوری ظاہر نہیں کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں حق پر ہوں۔‘‘
ڈونالڈ ٹرمپ اور دیگر مغربی رہنماؤں کے اس بیانیے پر کہ جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کا قتل عام ہو رہا ہے، ابراہیم رسول نے اسے غلط ٹھیراتے ہوئے کہا:
’’یہ سفید جھوٹ ہے۔ سفید فام جنوبی افریقہ کی صرف 7 فیصد آبادی ہیں، مگر ان کے پاس 72 فیصد زمین اور 90 فیصد اسٹاک مارکیٹ ہے۔ 10 برسوں میں 630 قتل ہوئے جن میں زیادہ تر سفید فام تھے، لیکن یہ اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے 70 ہزار فلسطینیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔‘‘
اس استفسار پر کہ ’’کیا آپ امریکہ اور ڈونالڈ ٹرمپ سے نفرت کرتے ہیں؟‘‘ ابراہیم رسول نے کہا ’’نفرت کرنا جنوبی افریقیوں کے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے اور ایک جنوبی افریقی مسلمان کے لیے تو یہ اور بھی دشوار ہے۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ ان کا مذہب اسلام انہیں نفرت سکھاتا ہی نہیں اور ان کے عظیم قائد نیلسن منڈیلا کا طرزِ عمل بھی یہی تھا۔ وہ ان دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے جنہوں نے انہیں قید میں ڈالا، ان کے خاندان کو جلا وطن کیا اور نسلوں پر ظلم ڈھایا۔
انہوں نے پر زور انداز میں کہا:
ہم نے ان مظالم کو سہا ہے، ان کے درمیان زندگی گزاری ہے، مگر نفرت نہیں پالی۔ مگر ہم حق گوئی اور ظلم کے خلاف تنقید کا حق ضرور محفوظ رکھتے ہیں، اسی حق کے لیے وہ جیل گئے تھے اور اسی حق کی حفاظت میں آج بھی کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سپریمیسزم یعنی نسلی برتری کے رجحانات کو بروقت پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ خود ان کے درمیان رہے ہیں۔
’’ہم ان جبلّتوں کو ابتدائی مرحلے میں ہی بھانپ لیتے ہیں۔‘‘ اسی لیے وہ جب صدر ٹرمپ کی زبان اور طرزِ حکم رانی کو نسلی برتری کے اشاروں سے بھرا ہوا دیکھتے ہیں، تو اس پر خاموش رہنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
جب ان سے یہ دریافت کیا گیا کہ جنوبی افریقی حکومت نے ان کی بے دخلی کو ’’افسوس ناک‘‘ قرار تو دیا لیکن ساتھ ہی اصولوں پر بھی قائم رہی تو کیا انہیں محسوس ہوا کہ ان کا ملک ان کے ساتھ کھڑا تھا؟
ابراہیم رسول نے کہا کہ عام لوگوں کی طرف سے انہیں بے پناہ محبت اور حمایت ملی۔ ہر طبقے کے لوگ، خاص طور پر نوجوان ان کے موقف کو سراہ رہے تھے۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کی حمایت محتاط ضرور تھی لیکن مکمل طور پر غیر موجود نہیں تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جنوبی افریقہ ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے امریکہ کی منڈیوں اور سرمایہ کاری کی سخت ضرورت ہے۔ اسی لیے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت نے کچھ معاملات میں نرمی برتی۔
لیکن ان کے لہجے میں تحسین کا پہلو نمایاں تھا جب انہوں نے کہا:
’’میں اپنی حکومت کی قدر کرتا ہوں کہ اس نے دباؤ کے باوجود اپنے اصولوں سے انحراف نہیں کیا۔ خاص طور پر اس وقت جب ہم نے عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا۔ یہی ہماری اصل اخلاقی فتح ہے۔‘‘
جب گفتگو اختتام کو پہنچی تو ملاذ مجنّی نے ان سے آخری سوال کیا: آج کی دنیا میں جہاں انصاف خواب بنتا جا رہا ہے، ایسے میں نوجوان امید کو کیسے قائم رکھیں؟
اس کے جواب میں انہوں نے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیت کی روشنی میں امید کا پیغام دیا:
’’ایمان وہ ہے جو نظر نہ آئے لیکن دل اس پر یقین کرے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہر صبح عزم اور دعا کے ساتھ اٹھیں یہی جہاد ہے۔
اپنی روز مرہ کی کوششوں کو معمولی نہ سمجھیں یہی نظام بدلنے کا ذریعہ بنیں گی۔
اگر دنیا میں انصاف نہ ملے تو یاد رکھیں کہ ہمارے لیے آخرت بہتریں ٹھکانہ ہے جہاں ہمارا رب انصاف کرنے والا ہے۔
انہوں نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے ایمان کو سماجی و سیاسی شعور سے جوڑیں۔ سیاست میں شامل ہوں اور انصاف کے لیے آواز بلند کریں، جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے نوجوانوں کو صبر اور حکمت کا دامن تھامنے کی تلقین کی کیونکہ غصہ اکثر ہمیں انہی جیسا بنا دیتا ہے جن کے خلاف ہم جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے جامع سوچ اپنانے پر زور دیا، یہ کہتے ہوئے کہ مظلوم صرف فلسطین میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں ہیں اور انصاف کے لیے ہماری آواز ہر جگہ پہنچنی چاہیے۔ نوجوانوں کو معاشرے میں اعتماد پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے انہوں نے نبی کریم ﷺ کی مثال دی جنہیں مکہ میں ’امین‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے قرآن کی یہ آیت دہرائی ’’انصاف کے لیے کھڑے ہو، چاہے وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ مایوسی کو انہوں نے کفر قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ ہر دن ہمیں امید، صبر اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ سچ اور انصاف کے لیے کھڑا ہونا ہے۔
***
ابراہیم رسول نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے ایمان کو سماجی و سیاسی شعور سے جوڑیں۔ سیاست میں شامل ہوں اور انصاف کے لیے آواز بلند کریں، جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے نوجوانوں کو صبر اور حکمت کا دامن تھامنے کی تلقین کی کیونکہ غصہ اکثر ہمیں انہی جیسا بنا دیتا ہے جن کے خلاف ہم جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے جامع سوچ اپنانے پر زور دیا، یہ کہتے ہوئے کہ مظلوم صرف فلسطین میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں ہیں اور انصاف کے لیے ہماری آواز ہر جگہ پہنچنی چاہیے۔ نوجوانوں کو معاشرے میں اعتماد پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے انہوں نے نبی کریم ﷺ کی مثال دی جنہیں مکہ میں ’امین‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے قرآن کی یہ آیت دہرائی ’’انصاف کے لیے کھڑے ہو، چاہے وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ مایوسی کو انہوں نے کفر قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ ہر دن ہمیں امید، صبر اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ سچ اور انصاف کے لیے کھڑا ہونا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025